نیشنل میڈیکل کمیشن بل اور آیوش معالجین

 ڈاکٹر خالد اختر علیگ

گزشتہ دنوں مرکزی حکومت کے ذریعہ لوک سبھا میں بحث کے لئے پیش کیا جانے والا نیشنل میڈیکل کمیشن بل ۲۰۱۷ء ایلو پیتھ ڈاکٹروں کی طاقتور تنظیم انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے ذریعہ ملک گیر ہڑتال کے نتیجے میں پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو غور کرنے کے لئے سونپ دیا گیا۔ مذکورہ بل طبی انظام میں جامع تبدیلی کرنے کی طرف ایک نہایت بڑا قدم بتایا جارہا ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر طبی نظام میں کوئی تبدیلی کی جانے والی ہے تو معالجین اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں تو آئیے سب سے پہلے اس بل کے نکات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

جس طرح سے موجودہ حکومت نے اقتصادی پالیسیاں تیار کرنے والے ادارے پلاننگ کمیشن کو ختم کرکے نیتی آیوگ کی تشکیل کی تھی اسی طرز پر میڈیکل کونسل آف انڈیاکی جگہ نیشنل میڈیکل کمیشن وجود میں آ جائے گا یہ کمیشن طبی تعلیم سے لے کر طبی خدمات تک کی تمام پالیسیاں بنانے اور اس کے نفاذکے لئے ذمہ دار ہوگا۔ نیشنل میڈیکل کمیشن کو تجاویز پیش کرنے کے لئے حکومت ایک میڈیکل مشاورتی کونسل تشکیل دے گی جس کے ذریعہ ریاستیں طبی تعلیم اور تربیت کے بارے میں کمیشن کے سامنے اپنے مسائل اور تجاویز رکھیں گی۔ نیشنل میڈیکل کمیشن کے وجود میں آنے کے بعد اس سے منسلک ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے جن کو تین ماہ کی تنخواہ اور دیگرالاؤنس دے کر رخصت کر دیا جائے گا۔ ایم سی آئی یعنی میڈیکل کونسل آف انڈیا ایک جمہوری ادارہ  ہے جس نے دو لاکھ سے زائد افراد کوا ٓپس میں جوڑ کر رکھا ہے اور جس کی مجلس منتظمہ کا انتخاب ہوتا ہے جب کہ اس کی جگہ لینے والے مجوزہ کمیشن کے اہلکار حکومت کی سفارش پر آئیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جمہوری ادارے کی لاش پر غیر جمہوری ادارہ کی پیدائش ہوگی۔ اس کمیشن کی تشکیل کے بعدمیڈیکل کالجوں میں داخل ہونے کے لئے ملک میں صرف ایک امتحان ہوگا جس کو قومی اہلیتی وداخلہ ٹیسٹ (NEET) کہا جائے گا، ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد ڈاکٹروں کو پریکٹس کرنے کے لئے ایک امتحان پاس کرنا ہوگاجس کے بعدہی ڈاکٹروں کوپریکٹس کرنے کا لائسنس مل سکے گانیز اسی بنیاد پرپوسٹ گریجویٹ کورسوں میں داخلہ بھی ہوگا، نیشنل میڈیکل کمیشن پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی چالیس فیصدی نشستوں پر تو خود فیس طے کرے گا لیکن باقی ساٹھ فی صد نشستوں کی فیس مقرر کرنے کا اختیار نجی اداروں کا ہو گا، اسی کمیشن کی جانب سے ملک کے رجسٹرڈ آیوش یعنی آیوروید، یونانی، ہومیوپیتھی اور سدّھا معالجین کو ایلوپیتھی طریقہ علاج میں پریکٹس کرنے کے لئے ایک برج کورس لایا جائے گا جس کوپاس کرنے کے بعد آیوش معالجین ایلو پیتھیک ادویات سے علاج کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔

  ایم سی آئی مجوزہ بل میں درج برج کورس کی پر زور مخالفت کررہی ہے، اسے وہ ڈاکٹروں کے مفادات پر کاری ضرب تصور کرتی ہے، اس کی پانچ وجوہات ہیں ۔ پہلی یہ کہ اگرآیوش معالجین صرف ایک برج کورس کر کے ایلوپیتھی کے ڈاکٹر بن جائیں گے تو اس سے ایلوپیتھی ڈاکٹروں کی اہمیت کم ہوجائے گی، دوسری وجہ یہ کہ برج کورس کو ایم بی بی بی کی حیثیت دی گئی ہے جبکہ ایم بی بی ایس کورس اوربرج کورس کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے، یہ ایم بی بی ایس کی اہمیت کو ختم کردے گا۔ تیسری یہ کہ جب ایم بی بی ا یس ڈاکٹروں کوپریکٹس کرنے کا لائسنس لینے کے لئے امتحان پاس کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تو پھرآیوش ڈاکٹروں کے لئے برج کورس کی سہولیات کیوں مہیا کی جارہی ہیں ؟چوتھی وجہ یہ کہ اس فیصلے سے موجودہ آیوش معالجین کو ایلوپیتھ طریقہ علاج میں داخل کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے دونوں ہی طریقہ علاج کا مستقبل بدتر ہو جائے گا، پانچویں دلیل یہ ہے کہ ایلوپیتھ ڈاکٹر آخر کیوں اپنی پیتھی میں دوسری پیتھی کے معالجین کو دخل اندازی کرکے ا ن کی کمائی کے ذرائع کو مسدود ہونے دیں ۔

  بل کے پیچھے حکومت کا کیا مقصد ہے؟  مرکزی حکومت نیشنل میڈیکل کمیشن بل کیوں لا رہی ہے؟ کیا صرف وہ ایلوپیتھی ڈاکٹروں کو نقصان پہنچانے کے لئے ایسا کر رہی ہے ؟ اس جواب کو جاننے کے لئے پیشہ ورانہ مفادات سے اوپراٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے، آیوش معالجین کے احساسات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جن کا خیال حکومت نے مجوزہ بل میں رکھاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پورے طبی نظام کو شہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم کردیناچاہئے۔ عالمی ادارہ صحت(W.H.O) کی کئی رپورٹوں سے لے کر ملک میں ہوئے تمام سروے بتاتے ہیں کہ ہمارا عوامی طبی نظام سدھرنے کے بجائے مزید بدحال ہوتا جارہا ہے۔ طبی سہولیات کی توسیع کے نام پر دیہی علاقوں میں بنیادی صحتی مراکز تو کھول دئے گئے مگر ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے، وہاں تعینات ڈاکٹر ڈیوٹی دینے سے کتراتے ہیں اور اپنے ذاتی مطبوں میں مہنگی فیس لیکر مریضوں کو دیکھتے ہیں ۔

  ہمارے ملک کے اندر ڈاکٹروں کی کمی نہیں ہے، ڈاکٹر اور آبادی کے درمیان جو تناسب ہے وہ بیشتر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کافی اچھا ہے لیکن اسے کیا کہئے کہ تمام طبی سہولیات شہروں تک ہی مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں دو تہائی آبادی دیہاتوں میں قیام پذیرہے لیکن انہیں علاج کے لئے سہولیات اور ڈاکٹر نہیں ملتے۔ ڈاکٹروں کی تین چوتھائی تعداد صرف شہروں میں ہے، نرس یا دوسرے صحت کے اہلکاروں کی خدمات تو دیہی علاقوں میں بہت کم یا بالکل ہی نہیں مل پاتی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے اور زچگی کے دوران عورتوں کی موت کا گراف تو بہت سے غریب افریقی ممالک سے بھی زیادہ ہے، ہر ماہ تقریبا اسّی ہزار خواتین کی موت زچگی کے دوران ہو جاتی ہے اور دس لاکھ بچے ہر سال ایک ماہ پورا کرنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں اگر ڈاکٹروں  ایک برج کورس کے ذریعہ آپس میں جوڑا جارہا ہے اور طب کے تمام طریقہ علاج کو ایک ہی طرز پر پورے ملک میں پہنچانے میں کوشش کی جارہی ہے تو اس میں غلط کیا ہو رہا ہے۔ حکومت نے بار ہا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ دیہاتوں میں سستی طبی سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں جہاں ایلو پیتھی نہیں پہنچ سکتی وہاں آیوش کے طریقہ علاج کو قابل اعتماد بنا کرپہنچا نا ہے، گاؤں اور شہروں کی خلیج اسی طرح سے پاٹی جاسکتی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں ۳ء۷لاکھ رجسٹرڈ آیوش ڈاکٹر ہیں ۔ جن میں آیورویدکے۹۹ء۳ لاکھ، ہومیوپیتھی کے۸ء۲لاکھ، یونانی کے۴۷۶۸۳سدّھا اور نیچروپیتھی کے بالترتیب۸۱۷۳، ۱۷۶۴معا  لجین شامل ہیں ۔ لیکن ان معالجین کی سرکاری سطح پر حصہ داری کافی کم ہے، ملک میں صحت کے بجٹ کا صرف تین فیصد حصہ ہی آیورویداور دیگر دیسی طبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ آیوش معالجین شہروں اور قصبوں میں بنیادی سطح کاعلاج کافی کم پیسہ میں مہیا کررہے ہیں ، لیکن دور دراز علاقوں میں ان کی تعداد بھی کافی کم ہے۔ سرکاری صحت مراکز جہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر جانا پسند نہیں کرتے ان کی تعیناتی کرکے علاج کی سہولیات پیدا کی جاسکتی ہیں اور مریضوں کو عطائی ڈاکٹروں سے بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔

  برج کورس کے نکتہ سے جہاں ایلوپیتھی ڈاکٹروں میں غم و غصہ ہے وہیں آیوش معالجین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، لیکن بہت زیادہ خوش ہونے سے پہلے آیوش معالجین کو بھی اپنی موجودہ صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ملک میں قائم سرکاری آیوش کالجوں کو اگر چھوڑ دیا جائے تو بیشتر آیوش خصوصاً پرائیوٹ یونانی طبیہ کالجوں کی حالت بہت ہی نازک ہے، چھوٹی چھوٹی اور کرائے کی عمارتوں میں کالج قائم ہیں جہاں نہ تو پورا انفرا سٹرکچر موجود ہے اور نہ ہی مستقل اساتذہ، تعلیم و عملی تربیت کی مشق کا مناسب نظم ناپید ہے، بیشتر کالجوں میں اساتذہ بھی کرائے کے ہوتے ہیں ، اور اس سے منسلک اسپتالوں میں موجود مریض بھی دہاڑی پرلائے جاتے ہیں جو کہ آیوش کالجوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے سی سی آئی ایم کے معائنہ کرنے والی ٹیم کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ، بھلا ہو ان معائنہ کرنے والی ٹیم کا کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان کالجوں میں نہ صرف گریجویٹ بلکہ کچھ جگہوں پر پوسٹ گریجویٹ سطح کی تعلیم دینے کی منظوری دے کر چلے جاتے ہیں ۔ جہاں ڈونیشن کے نام پربارہ سے چودہ لاکھ روپے تک لے کر طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے اور انہیں ڈگری دینے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے۔ جب کہ بیشتر سرکاری یونانی کالج اپنی پوسٹ گریجویٹ کورس کی ہی نہیں بلکہ گریجویٹ کورسوں کی نشست کو بھی بچانے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ پرائیوٹ کالجوں کے ایسے طلبہ جو نہ تو علمی اور نہ ہی عملی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں کیا وہ مریضوں کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں۔

  بہر حال پیشہ ورانہ نظریہ سے دیکھیں تو مجوزہ بل میں مریضوں کا مفاد اورصحت خدمات کو دیہی سطح تک پہنچانے کی خواہش اس قدم میں نظر آتی ہے، مگر اس میں وہ احتیاط بھی برتنے ہوں گے جو بل کی مخالفت کرنے والے اٹھا رہے ہیں ۔ ایلوپیتھ طریقہ علاج کی قدراور اس کااحترام بھی بچا رہنا چاہئے، پیشے کے تئیں یقین بھی قائم رہنا چاہئے، ڈاکٹروں کی کوالٹی سے بھی سمجھوتہ نہ ہو، نئے بل سے جن کی روزی روٹی پر خطرہ پیدا ہو رہا ہے ان کا بھی خیال رکھا جائے، ملک میں موجود اور سرکار سے منظور تمام طریقہ علاج کو کم تر سمجھنے کے بجائے ان کی ترویج و فروغ کے ساتھ ہی ان کے معالجین کے لئے مساوی مواقع فراہم کئے جائیں۔ اگر ایسا اعتماد حکومت متاثر طبقات میں بحال کر سکے تو ملک کے ہر شہری کی دسترس میں علاج و معالجہ کی سہولت ہوگی، اورترقی کے نئے امکانات وا ہو جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔