خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

  آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں کون شخص ایسا ہوگا، جسے اپنی اولاد کی ترقی بھاتی نہ ہو؟ جو یہ نہ چاہتاہوکہ اس کا بیٹاانجینئر یا ڈاکٹر بن جائے؟ کسی اعلیٰ عہدہ پر فائزہوجائے؟ اولاد کی ترقی کے لئے توداغِ فرقت برداشت کرلیا جاتا ہے، جس اولاد کو پال پوس کراس یقین کے ساتھ بڑاکیاجاتاہے کہ وہ بے سہارگی کے وقت سہارابنے گا، اگر اس کی ترقی امریکہ کے کسی کمپنی میں نظرآتی ہے توبوڑھاپے کی مشقتوں کوتوجھیل لیاجاتاہے؛ لیکن اولاد کی راہ ِارتقاء میں حائل ہوناگوارا نہیں ہوتا۔

  یہ تو ایک باپ بیٹے کی بات ہے، اگر کسی قوم کے جوان آگے بڑھ رہے ہوں تو پوری قوم اس کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہے، ہر قوم یہ چاہتی ہے کہ اس کے جوان ہرہرمیدان میں کارہائے نمایاں انجام دیں، کوئی ڈاکٹر ہوتوکوئی انجینئر، کوئی کلکٹرہوتوکوئی بیرسٹر؛ کیوں کہ جوانوں کی ترقی ہی میں پوری قوم کی ترقی پنہاں ہے،اگر کسی قوم کے افراد میدان حکومت کے ہرشعبہ میں موجود ہوں توپھراس قوم کا بڑے سے بڑا کام اپنے انجام تک پہنچ جاتاہے، راہ کا روڑابننے والا کوئی نہیں ہوتا۔

  اِدھر کئی سالوں سے الحمدللہ قومِ مسلم کے جوانان بھی ترقی کے عروج کوپانے کے لئے سعی ِپیہم کررہے ہیں، کوئی ڈاکٹر بننے کی کوشش کررہاہے توکوئی انجینئربننے کاخواہاں ہے، کوئی تجارت کی دوڑمیں حصہ لے رہاہے توکوئی پروفیسری کے باعزت مقام تک پہنچنے کی جدوجہد میں مصروف ہے،جوانوں کی کوششیں یقینا قوم کے مستقبل کے لئے خوش آئندبات ہے۔

  لیکن ہرترقی کے ساتھ (اگروہ خداکے احکامات پرعمل کے بغیرہو)کچھ نہ کچھ نقصان بھی لگاہواہے، آج یورپ اور امریکہ کی ترقیوں نے چاندپرجھنڈے لہرادیئے ہیں ؛ لیکن اخلاقی اقدار نکتۂ زوال تک پہنچ چکاہے،ماں ممتا سے خالی،باپ پیار سے عاری،بہن محبت سے ناآشنااوربیٹااحترام سے ناواقف ہے،اتنی ترقیوں کے باوجود ان کی زندگیاں حیوانوں سے بدترگزررہی ہیں، اس کی واحدوجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ترقیوں کوخداکے احکام سے جداکررکھاہے اورچوں کہ مشرق کی تمام تر ترقیوں کاسرامغرب سے جاکر ملتاہے، اس لئے جوجوخرابیاں وہاں پائی جاتی ہیں، وہی خرابیاں یہاں بھی درآئی اور آرہی ہیں۔

  ان ترقیوں کی وجہ سے ایک بڑی خرابی یہ پیداہوگئی ہے کہ ہم سوچنے اور سمجھنے میں اُلٹی عقل کا استعمال کرنے لگے ہیں، زائل ہونے والی ترقی پر پوری زور صرف کردیتے ہیں ؛ لیکن دائم رہنے والی ترقی کی ذرا بھی فکر نہیں کرتے،سیراب شخص کے حضور توہم جام پرجام پیش کرتے ہیں ؛ لیکن تشنہ لب بے چارہ منھ کھولے ہی رہ جاتاہے، ڈکارتے ہوئے شخص کے لئے توہم مرغن غذائیں تیار کرتے ہیں ؛ لیکن پچکے ہوئے پیٹ والے کودُھتکار دیتے ہیں، سچ کہا ہے :

ہم تو پیاسے ہی رہیں مے غیر کودے پیر مُغاں

اُلٹی اس شہر میں بہتی ہوئی گنگا دیکھی

اسی اُلٹی عقل کا نتیجہ ہے کہ ہم تو پورے ساتر لباس میں رہنا پسند کرتے ہیں ؛ لیکن اپنی بیوی بیٹیوں کے لئے چست ترین لباس کا انتخاب کرتے ہیں، کیا یہ عقل مندی کی بات ہے کہ جس چیز کوچھپاکررکھنا چاہئے اسے شوپیس بنا کر دنیاکے سامنے پیش کیاجائے؟سونے چاندی اورہیرے جوہرات کو ہرشخص اندرونی گھرکے الماری کے محفوظ خانے میں رکھتاہے؛ تاکہ چور اُچکے لے نہ اُڑیں، کیا ہماری بیٹیاں زمین کے اندر پیداہونے والی ان دھاتوں سے بھی گئی گزری ہیں کہ ہم اُنھیں عصمت کے لُٹیروں کے حوالہ کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے؟ جب قوتِ حس ہی ختم ہوجائے تو پھر احساس کیسا؟

ترقیوں ہی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہماری رشتہ داریاں ہم سے کٹ کررہ گئی ہیں ؛ کیوں کہ ہم اتنے Busyہوچکے ہیں کہ کسی کے نہ تو غم میں شریک ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی خوشی میں حاضر، ہمیں توبس اس کی فکر ہے کہ ہماری دُنیاکیسے بن جائے؟زیادہ سے زیادہ دولت کیوں کر حاصل ہو؟ اسی فکر میں ہماری صبح بھی ہوتی ہے اور شام بھی، اور شاید اسی فکر میں ہماری زندگی تمام بھی ہوجائے، ترقی کے مدارج طے کرنے کے چکر میں ہم اپنے بچوں کی بھی نگہداشت نہیں کرپاتے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باپ کے رہتے ہوئے بھی بچہ اپنے آپ کو یتیم محسوس کرنے لگتاہے اور اس احساس ِیتیمی کی وجہ سے یا تو وہ احساس ِکہتری کاشکار ہوجاتاہے یاپھرسیدھے ڈگر سے ہٹ جاتاہے۔

 ترقی کی راہ پر جب قدم پڑتے ہیں توجدت طرازی آہی جاتی ہے، ہرہرچیزمیں نئے پن کی تلاش شروع ہوجاتی ہے، لباس وپوشاک میں جدت، ماکولات ومشروبات میں انوکھاپن، گفتار میں نیا ڈھنگ، کردارمیں نیارنگ، چال میں لچک، گال میں ڈھہک،لہجہ میں بدلاؤاورطریقہ میں رکھ رکھاؤ، غرض ہرچیز میں ایک محسوس کیاجانے والافرق، اور یہ فرق عُجب پسندی اورخود غرضی پیداکردیتاہے، اپنے اندر( نہ ہونے کے باوجود)  بڑا ہونے کا احساس اُبھارتاہے، نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دوسروں کو(جودولت کے اعتبارسے کم درجہ کا ہو ) ہم حقارت کی نظرسے دیکھنے لگتے ہیں، اسی جدت پسندی کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی احکامات Out of date معلوم ہونے لگتے ہیں۔

  ترقیوں ہی کاایک نتیجہ یہ ہے کہ بڑوں کی عظمتیں خاک میں مل گئی ہیں، ایک زمانہ وہ تھا کہ والدبزرگوارکے سامنے بیٹھنے کی کے لئے بھی ہمت جُٹانی پڑتی تھی؛ لیکن آج اُن کے سامنے ٹانگ پرٹانگ رکھ کرسگریٹ کے َمرغولے اُڑانے میں بھی باک محسوس نہیں کیاجاتا،کسی زمانہ میں ’’سلطنت ِدار‘‘ کی باگ ڈوروالدصاحب کے ہاتھ میں ہواکرتی تھی، جس کی وجہ سے بچے من مانی کرنے سے ڈرتے تھے؛ لیکن آج اس سلطنت کے مالک ناخلَف لوگ( بیٹے، بیٹیاں، بیوی وغیرہ) بن گئے ہیں، لہٰذاوالد صاحب کے ساتھ گھرکے اندر بس وہی سلوک روا رکھاجاتاہے، جوایک فاتح بادشاہ مفتوح قوم کے ساتھ رکھتاہے،چنانچہ خدانخواستہ اگر کبھی والد صاحب کسی کی غلطی پراُف کی آواز بھی نکالیں تویہ نا خلَف اولاد ’’دربدری‘ ‘ کے سزادینے سے بھی گریز نہیں کرتی اوراُنھیں اٹھاکر’’بوڑھوں کے گھر‘‘ (Old age home) میں قید ِتنہائی کی زندگی گزارنے پرمجبور کرتے ہیں کہ ’نہ رہے بانس، نہ باجے بانسری‘۔

 ترقیوں کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ ہمارااصلی سرمایہ ہم سے چِھن گیا، ہم تہی دست وتہی دامن ہوگئے، ہماری مثال اس پرندہ کی طرح ہوگئی، جس کے پَرکاٹ دئے گئے ہوں، اس شیر کی طرح ہوگئی، جس کے دانت توڑ اورناخن تراش لئے گئے ہوں، بساط ِزیست پرہماری قدر بس اتنی؛ بل کہ اس سے بھی گئی گزری ہوگئی ہے، جتنی قدر ایک یتیم کی لئیم کی دسترخوان پر ہوتی ہے، دنیاکالالچ دے کر ہم سے ہمارادین چھین لیاگیا، دولت کی حرص پیداکرکے ہم سے ہماراایمان سلب کرلیاگیا، لالچ بُری بلاہوتی ہے، لالچ میں آکر ہم نے اپنا دین کھودیا، جب دولت کی طرف ہمارے قدم بڑھے، تو اس نے کسبی کا روپ دھارکے دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’رنڈی کا یار، سداکاخوار‘‘ ہوتاہے، ہم دین کے اعتبار سے تو ذلیل ہوئے ہی، دنیا کے لحاظ سے خوارہوگئے، اِدھر دین کوہم نے جداکیا، اُدھردنیانے ہم کولات ماردیا، ہمیں نہ توصنم کا وصال نصیب ہوا، اور ہی خدا کا دیدار ہی ہمارے حصہ میں آئی:

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

نہ اِدھرکے رہے نہ اُدھر کے رہے

 اِن معکوسی ترقیوں کودیکھ کر ایک صاحب ِاسلام کادل روئے نہیں توپھرکیاکرے؟علامہ اقبال نے ٹھیک ہی کہاہے:

خوش توہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

تبصرے بند ہیں۔