ن۔ م۔ راشد ؔ کی نظم ’’سمندر کی تہ میں ‘‘ کی تشریح

سہیل ؔ ارشد

ن۔م۔راشدؔ اردو کے نظم گو شعراٗ میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔’’سمندر کی تہہ میں‘‘ راشدؔ کی بہترین علامتی نظموں میں سے ایک ہے جس میں انہوں نے ایک مذہبی موضوع کو علامتوں اور استعاروں کے پردے میں بڑی فنکاری سے پیش کردیاہے۔ نظم کے مفہوم پر بحث سے پہل ذیل میں نظم پیش ہے۔
سمندر کی تہہ میں
سمندر کی سنگین تہہ میں
ہے صندوق۔۔۔۔۔
صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا
میں ڈبیا
میں کتنے معانی کی صبحیں
وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بند
اپنی شعاؤں میں جکڑی ہوئی
کتنی سہمی ہوئی!
(یہ صندوق کیوں کر گرا؟
نہ جانے کسی نے چرایا؟
ہمارے ہی ہاتھوں سے پھسلا؟
پھسل کر گرا؟
سمندر کی تہہ میں مگر کب؟
ہمیشہ سے پہلے
ہمیشہ سے بھی سالہاسال پہلے؟
اور اب تک ہے صندوق کے گرد
لفظوں کی راتوں کا پہرہ
جو دیووں کی مانند۔۔۔!
پانی کے لسدار دیووں کی مانند!
یہ لفظوں کی راتیں
سمندر کی تہہ میں تو بستی نہیں ہیں
مگر اپنے لاریب پہرے کی خاطر
وہیں رینگتی ہیں
شب وروز
صندوق کے چارسو رینگتی ہیں
سمندر کی تہہ میں!
بہت سوچتاہوں
کبھی یہ معانی کی پاکیزہ صبحوں کی پریاں
رہائی کی امید میں
اپنے غواص جادوگروں کی
صدائیں سنیں گی؟
اس نظم کو سمجھنے سے پہلے شاعر کے شعری نظریات سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ ن۔م۔راشدؔ کے مضمون ’’حلقہ ارباب ذوق ، زبان و ادب کے مسائل ‘‘میں علامہ اقبال سے متعلق ان کا قول ہے :
’حالیؔ اور آزادؔ کے بعد اکبرؔ اور اقبالؔ جدید شاعر تھے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اردو کے ان عظیم شاعروں نے بھی محض قدامت کا ایک جامہ اتارکر دوسرا پہن لیاتھا ۔ وہ شعر کو پوری زندگی کا عکاس نہیں بلکہ قومی، اخلاقی یا اسلامی نظریات کی ترویج اور احیاء کا ذریعہ سمجھتے تھے ۔‘
یعنی راشدؔ شاعری کو صرف نعرے بازی ، سماجی اصلاح کے ہتھیار یا پھر اسلامی نظریات کی اشاعت کا ذریعہ سمجھنے کے مخالف تھے ۔ان کی نگاہ میں شاعری کا مقصد انسانی ذہن کو وہ آزادی بخشنا ہے جو از خود اس کے اندر زندگی کی لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور پیدا کرکے اس کی رفعت کا باعث ہو۔‘‘
لہذٰا، راشد ؔ اگر کسی مذہبی یا اسلامی موضوع پر بھی قلم اٹھائینگے تو اسے اسلامی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ فن کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے ایک عام انسانی موضوع بناکر پیش کرینگے تاکہ ان پر سماجی مصلح یا دینی مبلغ ہونے کا الزام نہ لگے کیونکہ وہ ایک فنکارہیں اور فنکار مذہبی تعصبات سے پاک ہوتاہے ۔’’سمندر کی تہ میں‘‘ میں راشدؔ نے ایک اسلامی موضوع کو پیش کیاہے مگر اسے علامتوں کے پردے میں دیومالائی فضامیں لپیٹ کر اس طرح پیش کیاہے کہ مذہبی موضوع پر لکھی گئی یہ نظم ایک سیکولر فن پارہ بن گئی ہے۔
اس نظم کے کلیدی الفاط مندرجہ ذیل ہیں:
صندوق، معانی کی صبحیں، رسالت، لفظوں کی راتیں، لاریب ، معانی کی پاکیزہ صبحیں اور غواص جادوگروں کی صدائیں۔
دراصل جیسے ہی قاری لفظ رسالت پر پہنچتاہے اسے یقین ہوجاتاہے کہ یہ ایک اسلامی موضوع ہے اور رسالت کا در بند ہونے کے ذکر سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ مسئلہ ختم المرسلین سے متعلق ہے۔پھر آگے چل کر لفظ ’’لاریب ‘‘ قرآن کے سورہ بقرہ کی پہلی سورت میں لفظ لاریب کی طرف توجہ مبذول کرتاہے۔اس طرح یہ بات یقینی ہوگئی کہ نظم قرآن او ر رسالت سے متعلق کسی موضوع یا فکر یا خیال پر مبنی ہے۔راشدؔ ؔ نے اگر ایک اور لفظ کا استعمال کرلیا ہوتا تو مفہوم کافی حد تک واضح ہوجاتا مگر انہوں نے اسی ایک لفظ کو شعوری طور پر چھپالیا اور وہ لفظ تھا ’’صحیفہ ‘‘ (قرآن)۔ اس لفظ (صحیفہ ) کی بجائے انہوں نے لفظ صندوق کا استعمال کیا۔صندوق کا کھوجانا بھی موسیٰ علیہ السلام کے تابوت سکینہ کی طرف ذہن کو لے جاتاہے۔ کہاجاتاہے کہ تابوت سکینہ میں حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے تبرکات تھے جنہیں یہودیوں نے اپنی غفلت کی وجہ سے کھودیا۔اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے قرآن یعنی قرآن کے اصلی مفاہیم کو کھودیا۔
یہاں صندوق قرآن کا استعارہ ہے۔وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ وہ کہتے ہیں
’’صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا میں ڈبیا‘‘
قرآن میں سورتیں، سورتوں میں رکوع ، رکوع میں آیتیں۔ یعنی صندوق میں ڈبیا میں ڈبیا میں ڈبیا۔
اس کے بعد راشد ؔ کہتے ہیں کہ ڈبیا میں معنی کی صبحیں۔ آیتوں میں معنی چھپے ہوئے ہیں جن کو سمجھنے کے بعد انسان کا ذہن صبح کی طرح روشن ہوجاتاہے۔مگر ان معانی کی صبحوں پر رسالت کے در بند ہوچکے ہیں ۔ یعنی قرآن کی سورتوں کے مفہوم در رسالت کے بند ہوتے ہی کھوچکے ہیں اور الفاظ جو معانی کی سمت رہنمائی کرتے ہیں خود ان معانی پر پہرہ لگائے ہوئے ہیں۔ معانی کا یہ گنجینہ جہالت اور گمراہی کے لسدار سیاہ دیو یعنی جہالت کے سمندر میں ہماری غفلت یا غلطی سے گر گیاہے یا پھر شیطان نے چرالیاہے ۔اور یہ کب ہواہے ؟ ہمیشہ سے سالہا سال پہلے۔یہاں ’ہمیشہ‘ قیامت کااستعارہ ہے۔قیامت کے بعد کی زندگی ابدی زندگی ہوگی اس لیے قیامت کو راشدؔ نے ’ہمیشہ‘ کہاہے۔ در رسالت کے بند ہونے کے بعد قیامت کتنے برسوں بعد ہوگی یہ کسی کو نہیں معلوم ۔اس لئے انہوں نے کہا کہ ہمیشہ (قیامت )سے سالہاسال پہلے۔ اگر یہ معلوم ہوتا کہ در رسالت کے بندہونے کے چودہ سو سال بعد قیامت ہوگی تو راشدؔ لکھتے :
’ہمیشہ سے چودہ سو سال پہلے‘‘
یعنی نبی کے وصال بعد ہی ہم نے صحیفے کے صحیح معانی و مفاہیم کو اپنی غفلت اور غلطیوں کی وجہ سے کھودیا اور اب جہالت اور گمراہی کے باعث صحیح رہنمائی سے محروم ہیں۔ہم نے نبی کے جانے کے بعد قرآن کو چھوڑدیا یا ترک کردیا اس لئے اس کے مفاہیم بھیہم نے کھودئیے ۔
لہذا، اب کوئی غواص جادوگر ہی اس گنجینہ ء معانی کو ڈھونڈ کر نکال سکتا ہے او ر پھر جہالت کی رات سے معانی کی صبحیں نمودار ہوسکتی ہیں۔یہاں معانی کی صبحوں کو پاکیزہ صبحیں کہہ کر اس یقین کو تقویت بخش دی گئی کہ کسی مقدس صحیفے سے متعلق ہی بات کہی جارہی ہے۔ نبیوں کو منکرین حق جادوگر بھی کہتے تھے ۔ اسلئے اب ایسی ہی نبی صفت شخصیتوں یا مجددین دین کی دنیا کو ضرورت ہے جو دین کا احیاء کریں اور قرآن کے صحیح مفاہیم کی روشنی میں دنیا کی رہنمائی کریں اور دنیا بھی ان غواص جادوگروں کی صدائیں سنے، اپنے کانوں میں انگلیاں نہ ڈال لے جیسا کہ منکرین حق کرتے تھے۔
غالباً یہ نظم تقسیم کے بعد کے تشدد اور فسادات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے جب مذہب کے نام پر خصوصاًپاکستان میں فرقہ وارانہ اور مسلکی منافرت عروج پر تھی اور اسلام کے نام مسلم سیاسی تنظیمیں اپنے سیاسی اور مسلکی مخالفین پر نہ صرف فتوے لگارہی تھیں بلکہ مسلکی تشدد بھی بھڑکارہی تھیں۔یہ سب قرآن کی غلط تاویلات کی بنیاد پر ہورہاتھا جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اس لحاظ سے یہ نظم آج بھی اتنی ہی معنویت رکھتی ہے کیونکہ آج اسلام کے نام پر گمراہی ، تنگ ذہنی ، ظلم و تشدد،فرقہ وارانہ اور مسلکی نظریات اور دقیانوسی خیالات و نظریات کونہ صرف عین اسلام بناکر پیش کیاجارہاہے بلکہ ان پر پوری شدت سے عمل بھی کیا اور کرایا جارہاہے۔پاکستان، افغانستان اور عرب کے موجودہ حالات اس کے گواہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔