وارانسی کی محفوظ وکٹ  پر کمل کی گھبراہٹ؟

ڈاکٹر سلیم خان

سیاست کی بساط پر سادھوی پرگیہ سنگھ کا منہ توڑ  جواب دینے کے لیے جب سماجوادی پارٹی نے  سابق   بی ایس ایف جوان  تیج بہادر کو وارانسی کے میدان میں اتارا تو مودی جی کے پسینے چھوٹ گئے۔  اس   مہابھارت میں تیج بہادر نے   بہت دیر سے  قدم رکھا مگر  مگر آتے ہی سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ  پرچھاگیا۔ دیکھتے دیکھتے  وارانسی کے اس مسترد شدہ  امیدوار نے  مقبولیت میں اروند کیجریوال تو دور نریندر مودی کو بھی  پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس معمولی نوجوان کی آمد سے اچانک  مودی جی کا سنگھاسن ڈولنے لگا اور دباو بناکر اس کے کاغذات مسترد کرائے گئے۔ وارانسی بی جے پی کے لیے ایک نہایت محفوظ حلقۂ انتخاب ہے۔ ۱۹۸۹ ؁ سے بی جے پی وہاں پر ۷ مرتبہ کامیاب ہوچکی ہے۔ اس بیچ صرف ۲۰۰۴ ؁ کو چھوڑ کر جبکہ کانگریس کے راجیش کمار مشرا کو کامیابی ملی تھی ہر بار  بی جے پی کو فتح حاصل ہوئی۔ مشرا جی کو ہرانے کے لیے ۲۰۰۹ ؁ میں  بی جے پی نے اپنے قدآور رہنما مرلی منوہر جوشی کو میدان میں اتارا اور براہمنوں کے مہا سنگرام  میں کمل پھر سے کھل گیا ۔

مرلی منوہر جوشی کی اس جیت کا سہرا دراصل  مایا وتی کے سر ہے اس لیے کہ انہوں نے ۲۰۰۹؁ میں  وارانسی سے مختار انصاری کو ٹکٹ دے دیا تھا۔  انصاری  کو ہرانے کے لیے سارے براہمن  جوشی کے پیچھے متحد ہوگئے۔  اس کے نتیجے میں مرلی منوہر جوشی کو ۲ لاکھ ۳ ہزار اور مختار انصاری  ایک لاکھ ۸۶ ہزار ووٹ ملے۔ راجیش کمار مشر۶۶ ہزار پر سمٹ گئے۔ تیسر ےنمبر پر سماجوادی پارٹی کے اجئے رائے تھے جنہیں ایک لاکھ ۲۳ ہزار ووٹ ملے۔ اس  مرتبہ  اپنا دل نے وجئے کمار جیسوال کو اپنا امیدوار بنایا تھا اور انہیں بھی تقریباً ۶۶ ہزار ووٹ مل گئے تھے۔   ۲۰۱۴ ؁ میں نریندر مودی نے پہلی بار قومی انتخاب لڑنے کی جرأت کی تو بڑودہ کے ساتھ وارانسی سے بھی پرچۂ نامزدگی داخل کیاکیونکہ ۳۴۵ سال بعد  بھی  کسی پسماندہ ذات کے رہنما  کو اقتدار سنبھالنے کی خاطر براہمنوں کا آشیرواد  اسی طرح لازمی تھا جیسے شیواجی کو گئو براہمن پرتیپالک بننے کے لیے ضروری تھا۔ اتفاق سے  شیواجی کے راجیہ ابھیشیک (تاجپوشی) کے لیے بھی   گاگا بھٹ کو کاشی یعنی وارانسی سے بلایا گیا تھا۔

  ۲۰۱۴ ؁ کے اندر یوپی کی حدتک تو یقیناً  مودی لہر تھی نیز وارانسی ایک طاقتور علاقائی جماعت اپنا دل بھی بی جے پی کی حلیف بن گئی تھی۔ بی ایس پی نے دیکھا کہ اپنا دل نے وجئےپرکاش  جیسوال  کا ٹکٹ کاٹ دیا ہے تو اس نے مختار انصاری  کا ٹکٹ کا ٹ کر وجئے پرکاش  پر داوں لگا دیا۔ کانگریس نے  اپنے مشراجی کی چھٹی کرکے سماجوادی پارٹی سے اجئے کمار کو درآمد کرکے اپنا امیدوار بنا لیا۔ ان لوگوں کو توقع رہی ہوگی کہ ان امیدواروں کے ساتھ ان کے رائے دہندگان بھی آجائیں گے لیکن یہ بھول گئے کہ جن کا ٹکٹ کاٹا جارہا ہے ان کے رائے دہندگان چلے بھی جائیں گے اس طرح حساب برابر ہوجائے گا۔ سماجوادی پارٹی نے  جعلی چائے والے کے سامنے اصلی  پان والے  کیلاش چورسیا کو میدان میں اتار دیا  لیکن اس وقت کے سپر اسٹار  اروند کیجریوال نے اپنا پرچۂ نامزدگی داخل کرکے سارا حساب کتاب الٹ پلٹ دیا اور بی جے پی کو فکر مند ہوگئی۔

اس سیاسی اتھل پتھل اور ابن الوقتی   کا زمینی  حقائق پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ وارانسی میں کل ۱۰ لاکھ۳۱ ہزار رائے دہندگان نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ اس میں سے ۵۶ فیصد یعنی ۵ لاکھ ۸۱ ہزار بی جے پی امیدوار نریندر مودی کے حصے میں آئے۔ اروند کیجریوال نے بھی ۳۰ فیصد یعنی ۲ لاکھ۹ ہزار ووٹ حاصل کیے۔ اس کے بعد کانگریس کے  اجئے رائےتھے جنہیں ۷۶ ہزار ووٹ ملےاور پھر ۶۱ ہزار ووٹ پانے والے بی ایس پی کے امیدوار  جیسوال تھے۔ سماجوادی پارٹی کو جو اس وقت صوبے کے اندر برسرِ اقتدار تھی  صرف ۴۵ ہزار ووٹ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ ان اعدادو شمار کو اس لیے پیش کیا گیا تاکہ یہ معلوم ہوجائے وارانسی کے حلقہ میں سماجوادی پارٹی  کی حیثیت کیا ہے؟    وہ تو کبھی دوسرے نمبر پر بھی  نہیں آسکی۔ جملہ  ۸ میں سے صرف ایک مرتبہ تیسرے پر اور اس کے علاوہ ہمیشہ اور بھی نیچے رہی ہے۔ اس مرتبہ بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کے سبب دونوں کے ووٹ ملالیے جائیں تب بھی ایک لاکھ ۶ ہزار ووٹ بنتے ہیں  لیکن فرق یہ ہے کہ پہلے مودی وزیراعظم نہیں تھے اس بار ہیں۔

ان حقائق کے چلتے مودی جی میں  کمال خود اعتمادی اور  بے خوفی ہونی چاہیے  تھی لیکن حیرت ہےکہ  وہ  سماجوادی پارٹی کے غیر معروف  امیدوار تیج پال سے ڈر گئے اور اس کا پرچۂ نامزدگی خارج کروادیا۔ تیج پال کے کاغذات میں اگر کوئی نقص تھا تب بھی اسے لڑنے دیا جانا چاہیے تھا اس لیے کہ کیا کرلیتا ؟ نیز اس کا وارانسی کی حدود میں رہنا کم نقصان دہ ثابت ہوتا۔ اب تو اکھلیش اس کو صوبے   کے ان ساری نشستوں پر لے کر جائیں گے جہاں پولنگ ہونی ہے۔ ایک معمولی برخواست شدہ  بی ایس جوان سے سے ۵۶ انچ کی چھاتی والے ہندو ہردیہ سمراٹ ڈرجانا بتاتا ہے کہ ان کاغذ کے شیروں میں صرف ہوا بھری ہوئی ہے۔ تیج بہادر نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر  غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ ’’میری نامزدگی غلط طریقے سے رَد کی گئی ہے۔ مجھے اگلی  شام  تک ثبوت پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا، ہم نے ثبوت پیش کر دیا۔ اس کے باوجود میری نامزدگی رَد کر دی گئی۔‘‘ تیج بہادر کا کہنا ہے کہ انتخابی کمیشن نے ان کے ساتھ غلط سلوک  کیا ہے اس لیے ’’ وہ  اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک جائیں گے۔ عوام کی عدالت سے بڑا کوئی نہیں ہوتا ہے، وہاں بھی اپنی لڑائی لڑیں گے۔‘‘

وزیراعظم پر سماجوادی پارٹی کے امیدوار کی تنقید توقع کے عین مطابق ہے لیکن ان سے تو اکھل بھارتیہ رام راجیہ پریشد کے  شری بھگوان داس ویدانت آچاریہ بھی ان سے ناراض ہیں  کیونکہ  انتخابی کمیشن نے ان کا بھی  پرچہ نامزدگی  خارج کر دیا۔ تیج پال تو خیرکل یگ کا  جوان ہے اس نے سوچا الیکشن کمیشن کے سامنے ہنگامہ کرنے سے زیادہ مفید یہ ہے کہ کیمرے کے سامنے شور شرابہ کیا جائے   تاکہ دور دراز تک اس کی  آواز پہنچےلیکن   رام راجیہ پریشد کے شری بھگوان داس ویدانت آچاریہ اب بھی ست یگ میں جی رہے ہیں۔  اس لیے انہوں نے کلکٹریٹ دفتر میں ہی ہنگامہ آرائی شروع کردی۔  بعد میں اخبار ی نمائندوں سے بات کرتے ہوئے  وہ بولے ’’ہمارا پرچہ جو خارج کیا جا رہا ہے وہ پی ایم مودی کے دباؤ میں کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت(لوک  شاہی)  کا قتل ہوا ہے، یہ آمریت (تاناشاہی)  ہے اور  بہت غلط بات ہے‘‘۔ راون راج میں اگر سوامی جی یہ الزام لگاتے تو چل جاتا لیکن مودی راج میں  سنگھ پریوار نے سوچا بھی نہیں ہوگا  کہ ایسا بھی ہوسکتا۔  و یسے سنگھ پریوار کو معلوم ہونا چاہیے کہ  ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ یعنی کچھ بھی ممکن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔