واشنگ مشین (آخری قسط)

ادریس آزاد

اَب اسے مشین کی آواز لتا کی آواز سے زیادہ اچھی نہیں لگتی تھی۔ لیکن اب تو وہ لتا کی آواز بھی نہ سن سکتی تھی۔ بچوں کی چیخ و پکار میں کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی تو پھر لتا کا کیا کام۔ ایک روز مظہر نے وہی گانا لگا دیا:

’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے
محبت کرکے بھی دیکھا محبت میں بھی دھوکا ہے‘‘

شازیہ، مشین چھوڑ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے گھٹنوں میں سردے لیااور رونے لگی۔ مظہر نے فوراً گانا بند کردیا۔ لیکن شازو روتی رہی۔ اسے گزرے دن یاد آگئے تھے۔ مشین کی قسطیں توکب کی ادا ہو چکی تھیں ، اب تو فریج کی قسطیں چل رہی تھیں ۔ لیکن شازو مشین کی قسطیں ابھی تک دے رہی تھی۔ سب سے بھاری قیمت اسے خود چکانی پڑی تھی۔ ہر روز اترنے والے میلے کپڑے گویا اس کے دل پر اترتے تھے۔ ایک کپڑا = ایک بوجھ۔

چھٹی کے دن تک درجنوں بوجھ اس کے ذہن پر جمع ہوجاتے۔ وہ ایک رات پہلے ہی پریشان ہو جاتی۔ ہربات سے کپڑے دھونے کی بات نکال لیتی:

’’دیکھو!…تم صبح ہی صبح اٹھ جانا…اور سٹور میں جاکر سو جانا، صبح میں نے کپڑے دھونے ہیں۔‘‘

مظہر سعادت مندی سے سر ہلاتا۔ وہ میلے کپڑوں کے ساتھ ساتھ خود کو تیار کرتارہتا اور ایک رات پہلے تو وہ حاضر جناب بچوں کی طرح سعادت مندی کا مظاہرہ کرتا۔ وہ پھر کہتی:

’’اور ہاں !صبح بیدا ہوتے ہی، سب سے پہلے کپڑے بدلنا، سات دن ہوگئے ہیں تم نے کپڑے نہیں بدلے، میں تمہارے سرہانے پرانی شلوار اور بنیان لٹکا دوں گی۔ مجھے تنگ مت کرنا، چپ چاپ کپڑے بدل لینا، میں نے تمہارا سوٹ بھی دھونا ہے۔ تمہاری سستی کی وجہ سے رہ جاتاہے۔‘‘

مظہر پھر سعادت مندی سے سرہلاتا اور آنے والے دن کی پریشانی لے کر چھت پر چڑھ جاتا۔  شادی کے پہلے سال گھر میں گیلے کپڑے لٹکانے کے لیے ایک تار تھی۔ دوسرے سال دو، تیسرے سال تین اور اب تو مظہر کو صحن میں سے گزرتے ہوئے قطار در قطارلٹکے کپڑوں میں سے یوں گزرنا پڑتا تھا گویا کسی جنگل میں سے، لون، کاٹن، لٹھہ، ململ اور چھیٹ کی جھاڑیوں کو ہٹاتے گزررہا ہو…چھٹی کے دن اس کا گھر کپڑے رنگنے کی فیکٹری دکھائی دیتا تھا۔ فرش پر دور دور تک پانی پھیلا ہوتا۔

گھر کی تمام ٹوٹیوں پر صابن کی جھاگ لگ جاتی، دو بالٹیوں میں نچڑے ہوئے کپڑے لٹکائے جانے کے منتظر پڑے ہوتے اور ایک پرات میں نیل ملا پانی سفید کپڑوں ، چادروں ، پردوں او ر بنیانون کو ڈبونے کے لیے پڑا ہوتا۔ نعیم سے بڑا سکندر تھا۔ اس کی عمر ساڑھے تین برس تھی۔ وہ نیل کی ڈبیہ اٹھا لیتا اور گیلی انگلی سے چھوٹے بھائی کی مونچھیں اور داڑھی بنانے لگتا۔ دونوں کلکاریاں مارتے ہوئے مشین سے جاٹکراتے۔

مشین کے جام پہیے اسے ہلنے بھی نہ دیتے البتہ ربڑ کی ٹوٹی ہوئی ہُک کے ساتھ نصب میلے پانی کو خارج کرنے کا پائپ ’’چھٹک‘‘ کی آواز کے ساتھ مشین سے الگ ہو کر نیچے گر پڑتا۔ چلتی ہوئی مشین میں سے صابن اور میل ملا پانی خارج ہونے لگتا۔ جب تک شازو کو پتہ چلتا۔ تمام پانی مشین کے ٹب سے نکل چکا ہوتا۔ ایک روز شازیہ نے مظہر سے کہا:۔

’’اب ہمیں نئی مشین لے لینی چاہیے۔ کپڑے زیادہ ہوتے ہیں اور اس کا ٹب بہت چھوٹا ہے۔‘‘

اس دن شازو کپڑے دھو رہی تھی۔ چنانچہ مظہر نے انتہائی سعادت مندی سے جواب دیا:

’’بے شک !بے شک!…فریج کی قسطیں ختم ہوتے ہی مشین لے لیں گے۔‘‘

شازو کپڑے دھو، اور لٹکا کر فارغ ہوتی تو ربڑ کے پائپ سے گھر کا سارا فرش، نکاسیء آب کے تمام راستے، غسل خانہ، لیٹرین حتیٰ کہ ڈیوڑھی اور ڈیوڑھی کے آگے تک، شپ شپ جھاڑو چلاتے چلی جاتی۔ مظہر کو جھاڑو کی شپ شپ سے بہت نفرت تھی۔ خشک فرش پر پھر بھی جھاڑو کی آواز قابل برداشت تھی۔ لیکن گیلا فرش، اُف توبہ!…وہ جھاڑوسے فرش پر لڑھکتے پانی کو اِدھر سے اُدھر پلٹتی تو مظہر کے اَعصاب چٹخنے لگتے۔ وہ سٹور سے بھی نکل آتااور پانی کے مختلف چھوٹے چھوٹے تالاب پھلانگتا گھر سے باہر نکل جاتا۔

ایک روز مظہر نے ایک خوبصورت سپنا دیکھا۔ اُس نے دیکھا کہ وہ جنت میں ہے، ہر طرف پرندے چہچہا رہے ہیں ۔ پھلوں سے لدے پیڑوں کی رنگارنگ شاخیں ہوا میں رقص کررہی ہیں ۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے۔ ایک طرف پھولوں کی خوشنما روش کے ساتھ ساتھ رنگ برنگے لباس لٹک رہے ہیں ۔ بالکل ویسے، جیسے اس کی گھرکے صحن میں ہوتے تھے،وہ تیزی سے پھولوں کی روش کی جانب بڑھا، قریب گیا تو اس نے دیکھا کہ ’’شازو‘‘ ایک تخت پر بیٹھی ہے۔ اُس کے سر پر سونے کا تاج ہے اور بدن پر عمدہ لباس۔ معاً شازو کی نظر اپنے شوہر پر پڑتی ہے تو وہ اِرد گرد کھڑے فرشتوں کو حکم دیتی ہے:۔

’’اُس آدمی کو پکڑ کر لے آؤ۔ اور اسے حکم دو کہ یہ تمام جنتیوں کے کپڑے دھوئے۔ انہیں نیل لگائے، اور پھولوں کی روش کے ساتھ ساتھ لٹکا دے۔‘‘

مظہر ہڑبڑا کہ اُٹھ بیٹھا۔ یہ درحقیقت ایک ڈراؤنا سپنا تھا۔ اُس نے بیدار ہوتے ہیں فیصلہ کیا کہ وہ شازو کو سچ مچ نئی مشین لا کر دے گا۔

اور پھر اگلی چھٹی کے روز مظہر اور شازو دونوں ایک ساتھ بیدار ہوئے، مظہر کو آج اپنی بیوی کے لیے نئی واشنگ مشین لینے کے لیے جانا تھا۔ اور شازو کو حسب معمول سارے گھر کے کپڑے دھونے تھے۔ مظہر جلدی جلدی تیار ہو کر باہر نکل گیا، وہ جھاڑو کی شپ شپ تک نہیں رک سکتا تھا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ اس نے قسطوں والے سے بات کرلی تھی۔ وہ خوش تھا کہ اس کی بیوی نئی مشین دیکھ کر کتنا اچھلے گی۔ وہ پہلے کی طرح شکرانے کے نفل پڑھے گی اور سارا دن خوشگوار موڈ کے ساتھ رہے گی۔

وہ شازو کا خوشگوار موڈ دیکھنے کے لیے پچھلے سولہ سال سے اسی طرح کے جتن کرتا آیا تھا۔ اس طرح اسے خوشی ملتی تھی۔ وہ قسطوں والی دکان پر آیا، دکان بند تھی۔ اس پر ایک چارٹ لگاتھا۔

’’دکان بوجہ فوتگی بند ہے۔‘‘

مظہر کا منہ لٹک گیا۔ آج چھٹی بری طرح غارت ہونے والی تھی، اسے معلوم تھا کہ دن بھر شازو’’شپ شپ ‘‘ کرتی رہے گی۔ آج بچوں کی خیر نہیں ، ہانڈی جل جائے گی، دودھ اُبل کر برتن سے باہر آلپکے گا۔ نعیم اور سکندر مل کر باہر سے مٹی کے ڈھیلے اٹھا لائیں گے، جو پانی میں حل ہونے کے بعد فرش پر کیچڑ بن جائے گا، دونوں بڑے، “جنگ جنگ” کھیلیں گے اور بانس کی جھاڑو کے تمام تنکے اُن کے تیر ہونگے، دو بجے دوپہر جب کپڑے سوکھ چکے ہوں گے، استری سے پہلے بجلی چلی جائے گی، یہی وقت ہوگا جب شازو دو پل آرام کرسکے، لیکن غضب کی گرمی میں وہ خود پر ڈائجسٹ کا پنکھا جھلے گی اور ساتھ ساتھ بجلی والوں کو ہلاکت اور غارت گری کی خوفناک بددعائیں دیتی جائے گی۔

درمیان والی ’’حنا‘‘ جو مظہر کی اکلوتی بیٹی تھی، اپنا بستہ گود میں اٹھائے برآمدے میں ایک طرف بیٹھی ہوم ورک کرنے میں مصروف ہوگی، لیکن دونوں چھوٹے اس کی ربڑ چھین کر ببل کی طرح چبا جائیں گے، وہ فرش پر لیٹ کر رونے لگے گی۔ شازو، اُسی کی کتابوں سے اُسے دھپ دھپ پیٹے گی اور ساتھ ساتھ بولے گی:۔

’’جاؤ ! باپ کے سر پر جاکر مرو!…میرے سرہانے مت بھونکو! ورنہ گلا گھونٹ کے مار دوں گی، سونے بھی نہیں دیتے، دوپل آنکھ لگ جاتی تو کچھ چین آجاتا، کپڑے دھو دھو کر بدن کا ایک ایک انگ دکھنے لگا ہے۔ ادھر یہ بجلی والے، اللہ انہیں غارت کرے، حرامزادے !دوپہر کو بجلی بند کرد یتے ہیں ۔ آنے دو آج تمہار ے ابو کو…میں کہتی ہوں میرے سر پر کیا مصیبت ہے یہ؟‘‘…وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘

لیکن ایسا کچھ نہ ہوا…وہ گھر آیا مگر ہر طرف خاموشی تھی، اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، یااللہ یہ کیا ماجرا ہے؟ہنگامہ کیوں نہیں ، شور کیوں نہیں ، مشین کی گھررگھرر، واٹر پمپ کی ٹھک ٹھک ٹھک، پنکھوں کا زور، بچوں کا واویلا، جنگجوؤں کی آوازیں ، حنا کی چیخ و پکار اور شازو کی پھٹکار…کچھ بھی تو نہیں تھا۔ نہ جانے کیوں وہ ڈر گیا۔ اپنے گھر میں اتنا سکون دیکھ کر اس کے دل میں ہول اٹھنے لگے۔

’’کہیں شازو کو تو کچھ ہو نہیں گیا…کہیں مشین کے کرنٹ نے کسی کو!!!…‘‘

وہ اس سے آگے کچھ نہ سوچ سکا۔ ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا، صحن خالی پڑا تھا۔ جھاڑو کا ایک بھی تنکانہیں تھا۔ مظہر نے تیزی سے باتھ روم کی جانب نظر دوڑائی تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ وہاں نہ تو کوئی کپڑے تھے اور نہ ہی واشنگ مشین……وہ گھبرا کر پلٹا اور صحن میں لگی تاروں کی جانب متوجہ ہوا…صرف دو جوڑے جھول رہے تھے۔ اس نے برآمدے میں وہاں دیکھا، جہاں واشنگ مشین کھڑی ہوتی تھی۔ مشین نہیں تھی۔

مظہر کے دل میں نہ جانے کیوں یہ خیال آیا گویا کوئی بلا ٹل گئی۔ کمروں کے دروازے بھیڑے ہوئے تھے، وہ آہستہ قدموں سے کمرے میں داخل ہوا، اس کے بچے میٹھی نیند سو رہے تھے۔ بجلی نہیں گئی تھی۔ شازو ایک چارپائی پر نعیم اور سکندر کے درمیان پڑی مزے سے خراٹے لے رہی تھی۔ مظہر کی جان میں جان آئی۔ وہ کچھ نہ سمجھا، لیکن اپنے گھر میں اتنا سکون دیکھ کر اسے یک گونہ اطمینان ہوا، اس نے دل کھول کر لمبی لمبی سانسیں لیں اور اپنے کمرے میں جاکر مزے سے سو جانے کے خواب دیکھنے لگا اور پھر کچھ دیر بعد اس کی آنکھ لگ گئی۔ آج وہ مدتوں بعد چھٹی کے دن گھر میں مزے سے سورہا تھا۔ وہ گہری نیند سو گیا اور شام سے کچھ دیر پہلے اچانک اس کی آنکھ کھل گئی، گھر سے گھرر گھرر کی آوازیں آرہی تھیں، ہر طرف شور تھا، چیخ و پکار اور برتن گرنے کی آواز… ان آوازوں میں جھاڑوں کی شپ شپ بھی شامل ہوگئی۔ وہ ابھی بستر پر ہی لیٹا تھا کہ شازو آگئی۔

’’تم ابھی تک سو رہے ہو!……آج مجھے دیر ہوگئی، مشین اچانک بند ہوگئی تھی۔ میں نے پڑوسیوں کے لڑکے سے کہہ کر مستری کے پاس بھجوادی۔ اب آگئی ہے تو میں نے سوچا آج کاکام کل پر نہ چھوڑوں۔ آج تو فرش بھی ساتھ ہی دھو رہی ہوں۔ سارے کپڑے رہ گئے تھے لیکن اب شکر ہے میں نے سب کام نمٹا لیا…بس شام تک فارغ ہو جاؤں گی۔ تم جلدی جلدی اپنے کپڑے اتارو اور مجھے تھماؤ…پھر رہ جاتے ہیں ۔ ہر وقت ایک سوٹ پہنے رہتے ہو۔ جب سے مشین آئی ہے، تم نے تو کپڑے بدلنے ہی چھوڑ دیے ہیں۔ دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ اچھا !اب جلدی کرو!…شام ہونے والی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔