واقعہ معراج: مقصد اور پیغام

محمد اخترعادل گیلانی

 (عالم گنج، پٹنہ)

اسلامی تاریخ میں دو راتیں بہت ہی فضیلت اور اہمیت رکھتی ہیں ۔ ایک وہ رات جس میں نبی رحمت حضرت محمد ﷺ پر قرآن کا نزول شروع ہوا، جس کو شب قدر سے جانا جاتا ہے۔ دوسری وہ رات جس میں آپؐ کو معراج شرف حاصل ہوا۔ حدیث اور کتبِ سیرت کی مستند روایات کے مطابق سفرِ طائف کے بعد اور ہجرت سے ایک سال قبل ۱۲؍ نبویؐ میں واقعہ معراج پیش آیا۔

مکہ میں توحید کی دعوت بلند کر تے ہوئے ۱۲؍ سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ مکے والوں کی مخالفت، دشمنی اور ظلم و تشدد کا بازار گرم تھا۔ انہیں حالات میں ۵؍ نبویؐ میں پہلی ہجرتِ حبشہ واقع ہوئی۔ ۷؍ نبویؐ میں مکہ والوں نے آپؐ اور خاندان بنو ہاشم کا سماجی بائیکاٹ شروع کیا۔ آپؐ تین سالوں تک ’’شعب ابی طالب‘‘ میں محصور رہے۔ محصوری ختم ہونے کے بعد۱۰؍ نبویؐ میں پہلے آپؐ کے چچا، سرپرست اور پشتیبان حضرت ابو طالب کا انتقال ہوا۔ پھر چند ماہ بعد ہی آپؐ کی رفیقۂ حیات اور غمگسار حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا۔

حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد مکہ والوں کی ہمت اور بڑھ گئی۔ اب وہ لوگ آپؐ کو جلا وطن یا قید یا قتل کر دینے تک کی سوچنے اور سازش کرنے لگے۔ ظاہراًحالات بہت ہی سخت، حوصلہ شکن اور صبر آزما تھے۔ آپؐ تو مکے والوں سے مایوس ہو چکے تھے۔ طائف میں امید کی ہلکی سی جھلک نظر آئی۔ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے ایک ماہ بعد زیدؓ بن حارثہ کو لے کر مکے سے ساٹھ میل دور طائف گئے۔ طائف والے دعوتِ حق کو قبول کیا کرتے انہوں نے آپؐ کوایسی جسمانی تکلیف اور اذیت پہنچائی اوروہ وحشیانہ سلوک کیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ آپؐ دل برداشتہ ہو کر مکہ واپس آئے۔

ان حالات میں آپؐ کی دلجوئی، دلجمعی اور اطمینان اور سکون قلب کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو معراج کا شرف بخشا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد(الاقصیٰ) تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے ‘‘۔ (بن اسرائیل : ۱)

عام روایت کے مطابق معراج کا یہ واقعہ ۲۷؍ رجب کو پیس آیا۔ یہی واقعہ، معراج اور اِسریٰ کے نام سے مشہور ہے۔ قرآن کے مطابق یہ مسجدِ حرام(بیت اللہ) سے مسجدِ اقصیٰ(بیت المِقدس) تک تھا جس کو اسریٰ کہا گیا۔ اور بیت المِقدس سے آسمان تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ بیت المقدس سے آسمان تک کا یہ سفر سیڑھی کے ذریعہ ہوا۔ سیڑھی کو عربی میں معراج کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ معراج کے نام سے موسوم ومشہور ہوا۔ معراج(بیت المقدس سے آسمان تک جانے) کی تفصیل قرآن مجید میں نہیں ملتی ہے۔ لیکن اس واقعہ کی تفصیلات ۲۸ ؍ہنعصر راویوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں ۔ ان میں سات راوی وہ ہیں جو خود معراج کے زمانے میں موجود تھے اور ۲۱؍ وہ جنہوں نے بعد میں نبیﷺ کی اپنی زبانِ مبارک سے اس کا قصہ سنا۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ سفر کی حیثیت کیا تھی۔ یہ عالَم خواب میں پیش آیا یا بیداری میں ؟جسم کے ساتھ ہوا یا روحانی؟اس میں کسی شک و شبہ اور اعتراضات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آپؐ کو معراج حالتِ بیداری میں اور جسمانی طور پر ہوئی۔ بیشتر انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے ان کی منصب اور مرتبے کی مناسبت سے علم ویقین کا مشاہدہ کرایا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰؑ ؑ اورحضرت عذیرؑ کے ساتھ ہوا۔

سفرِ معراج: سفرِمعراج کی جو تفصیلات احادیث میں ملتی ہیں ان سب کو یکجا کرنے پر جو نقشہ بنتا ہے وہ یہ ہے:

ایک رات پیارے نبیﷺ ہند بنت ابو طالب، جو کہ اُم ہانیؓ کے نام سے مشہور تھیں ، کے گھر سوئے ہوئے تھے۔ دوسری روایت کے مطابق آپؐ حرم شریف میں آرام فرما تھے۔ یکایک حضرت جبرئیلؑ نے آپ کو جگایا اور اللہ کا پیغام سنایا۔ جبرئیلؑ آپؐ کو زمزم کے پاس لے گئے، سینہ مبارک چاک کیا، زمزم کے پانی سے اس کو دھو یا، پھر اسے حلم، بردباری، دانائی اور ایمان و یقین سے بھر دیا۔ ا س کے بعد آپؐ کی سواری کے لیے ایک جانور پیش کیا جس کا رنگ سفید اور قد خچر سے کچھ چھوٹا تھا۔ برق(بجلی)کی رفتار سے چلتا تھا اور اسی مناسبت سے اس کا نام’’براق‘‘ تھا۔ یہ اس سے پہلے انبیاء کی بھی سواری رہی تھی۔

آپؐ اس پر سوار ہوئے اور جبرئیلؑ آپؐ کے ساتھ چلے۔ پہلی منزل مدینہ منورہ کی تھی جہاں اتر کر آپؐ نے نماز پڑھی۔ جبرئیلؑ نے کہا’’اس جگہ آپؐ ہجرت کرکے آئیں گے۔ دوسری منزل طور سینا تھی جہاں خدا حضرت موسیٰؑ سے ہم کلام ہوا۔ تیسری منزل بیت اللحم(جس کو آج کل یروشلم کہا جاتا ہے، اور اسرائیل کے نا جائز قبضے میں ہے) تھی جہاں حضرت عیسیٰؑ پیدا ہوئے۔ چوتھی منزل پر بیت المقدس تھا جہاں براق کا سفر ختم ہوا۔

بیت المقدس پہنچ کر آپؐ براق سے اتر گئے۔ اور اسی مقام پر اسے باندھ دیا جہاں پہلے انبیاء اسے باندھا کر تے تھے۔ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوئے تو ان سب پیغمبروں کو موجود پایا جو ابتدائے آفرینش سے اُس وقت تک دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔ آپؐ کے پہنچتے ہی نماز کے لیے صفیں بندھ گئیں ۔

سب منتظر تھے کہ امامت کے لیے کون آگے بڑھتا ہے۔ جبرئیلؑ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا دیا اور آپؐ نے سب کو نماز پڑھائی۔ پھر آپؐ کے سامنے تین پیالے پیش کیے گئے۔  ایک میں پانی، دوسرے میں دودھ، تیسرے میں شراب۔ آپؐ نے دودھ کا پیالا اٹھا لیا۔ جبرئیلؑ نے مبارک بادی دی کہ آپؐ فطرت کی راہ پا گئے۔  اس کے بعد ایک سیڑھی آپؐ کے سامنے پیش کی گئی اور جبرئیلؑ اس کے ذریعہ سے آپؐ کو آسمان کی طرف لے چلے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے عربی زبان میں سیڑھی کو معراج کہتے ہیں اور اسی منابت سے یہ سارا واقعہ معراج کے نام سے مشہور ہے۔ پہلے آسمان پر پہنچے تو دروازہ بند تھا۔ محافظ فرشتوں نے پوچھا :کون آتا ہے؟جبرئیل نے اپنا نام بتایا پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبرئیلؑ نے کہا محمد(ﷺ)۔ پوچھا کیا انھیں بلایا گیا ہے؟کہا ہاں !تب دروازہ کھلا اور آپؐ کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا۔ یہاں آپؐ کا تعارف فرشتوں اور انسانی ارواح کی اُن بڑی بڑی شخصیتوں سے ہوا جو اس مرحلہ پر مقیم تھیں ۔ جبرئیلؑ نے آدمؑ سے ملاقات کرائی اور بتایا کہ یہ آدمؑ ہیں ، آپؐ کے مورث اعلیٰ۔

مقصدِ معراج:

پھر آپؐ کو تفصیلی مشاہدہ کا موقع دیا گیا۔ ایک جگہ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھیتی کاٹ رہے ہیں اور جتنی کاٹتے ہیں اتنی ہی زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پوچھا یہ کون ہیں ؟کہا گیا:یہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں ۔ پھر دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے سَر پتھروں سے کچلے جا رہے ہیں ۔ پوچھا یہ کون ہیں ؟ کہا گیا:یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر کی گرانی ان کو نماز سے اٹھنے نہ دیتی تھی۔ کچھ اور لوگ دیکھے جن کے کپڑوں میں آگے اور پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھا س چَر رہے تھے۔ پوچھا:یہ کون ہیں ؟ کہا گیا: یہ وہ ہیں جو اپنے مال میں زکوٰۃ وخیرات کچھ نہ دیتے تھے۔ پھر دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اور ہونٹ قینچیوں سے کترے جا رہے ہیں ۔ پوچھا یہ کون ہیں ؟کہا گیا: یہ غیر ذمہدار مقرر ہیں جو بلا تکلف زبان چلاتے اور فتنہ برپا کرتے تھے۔

ایک جگہ دیکھا کہ ایک پتھر میں ذرا سا شگاف ہوا اور اس سے ایک بڑا موٹا سا بیل نکل آیا۔ پھر وہ بیل اسی شگاف میں جانے کی کوشش کرنے لگا، مگر نہ جا سکا۔ پوچھا:یہ کیا معاملہ ہے؟کہا گیا: یہ اس شخص کی مثال ہے جو غیر ذمہ داری کے ساتھ ایک فتنہ انگیز بات کرجاتا ہے، پھر نادم ہو کر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے مگر کر نہیں سکتا۔ ایک مقام پر کچھ لوگ تھے جو اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ پوچھا :یہ کون ہیں ؟ کہا گیا:یہ دوسروں پر زبان دارازکرتے تھے۔ کچھ اور لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کے مشابہ تھے اور وہ آگ کھا رہے تھے۔ پوچھا:یہ کون ہیں ؟کہا گیا:یہ یتیموں کا مال ہضم کر تے تھے۔ انہی کے قریب کچھ اور لوگ تھے جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے۔

پوچھا: یہ کون ہیں ؟کہا گیا:یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرتے اور ان کی عزت پر حملے کرتے تھے۔
پھر دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے پیٹ بے انتہا بڑے اور سانپوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ آنے جانے والے ان کو روندتے ہوئے گذر جاتے ہیں ۔ مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے۔ پوچھا:یہ کون ہیں ؟کہا گیا:یہ سود خوار ہیں ۔ پھر کچھ اور لوگ نظر آئے جن کے ایک جانب نفیس چکنا گوشت رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا گوشت جس سے سخت بدبو آ رہی تھی۔ وہ اچھے گوشت چھوڑ کر سڑا گوشت کھا رہے تھے۔ پوچھا: یہ کون ہیں ؟کہا گیا:یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے حلال بیویوں اور شہروں کے ہوتے ہوئے حرام طریقے سے اپنی خواہش نفس پوری کی۔ پھر دیکھا کچھ عورتیں اپنی چھاتی کے بل لٹک رہی ہیں ۔ پوچھا :یہ کون ہیں ؟ کہا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جنھوں نے اپنے شوہروں کے سر ایسے بچے منڈھ دئیے جو اُن کے نہ تھے۔ پھر آپؐ کو دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا۔

اس مرحلہ سے گذر کر آپؐ دوسرے آسمان پر پہنچے۔ یہاں یحییٰؑ اور عیسیٰؑ سے ملاقات ہوئی۔ تیسرے پر یوسفؑ، چوتھے پر ادریسؑ، پانچویں پر ہارونؑ، چھٹے پر موسیٰؑ اور ساتویں پر ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی۔ پھر آپؐ سدرۃالمنتہیٰ پر پہنچے۔ اسی مقام کے قریب آپؐ کو جنت کا مشاہدہ کرایا گیا۔ سدرۃالمنتہیٰ پرجبرئیلؑ نے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپؐ تنہا آگے بڑھے۔ ایک بلند ہموار سطح پر پہنچے تو بارگاہِ جلال سامنے تھی۔ ہم کلامی کا شرف بخشا گیا۔ اور چند دوسری باتوں کے ساتھ ہی پچاس وقت کی نماز کا تحفہ عطا کیا گیا۔

واپسی پرآپؐ نیچے اترے، تو حضرت موسیٰؑ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے روداد سن کر کہا آپؐ کی امت پچاس وقت کی نمازوں کی پابندی نہیں کر سکتی۔ جاےئے اور کمی کے لیے عرض کیجےئے۔ آپؐ گئے اور اللہ جل شانہ‘ نے ۱۰؍ نمازیں کم کردیں ۔ پلٹے تو موسیٰؑ نے پھر وہی بات کہی۔ اُن کے کہنے پر آپؐ بار بار اُوپر جاتے رہے اور ہر بار ۱۰؍ نمازیں کم کی جاتی رہیں ۔ آخر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اور فرمایا گیا کہ میرے یہاں حکم بدلا نہیں جاتا۔ یہ پانچ وقت کی نمازیں پچاس کے برابر ہیں ۔ پنجوقتہ نماز کا عظیم تحفہ لے کر آپؐ واپس ہوئے۔ واپسی کے سفر میں آپؐ اسی سیڑھی سے اتر کر بیت المقدس آئے۔ یہاں پھر تمام پیغمبر موجود تھے۔ آپؐ نے ان کو نماز پڑھائی، جو غالباً فجر کی تھی۔ پھر براق پر سوار ہوئے اور  مکہ واپس پہنچ گئے۔

نماز کا تحفہ، فرضیت اور اہمیت: نماز ایک ایسا فریضہ ہے جس کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے رسولِ اکرمﷺ کو آسمان پر بلایا گیا اور بڑی عزت و اکرام کے ساتھ نماز کا تحفہ عطا کیا گیا۔ قرآن مجید میں تقریباً دو سو مقامات پر نماز کی تاکید، اس کے ادا کرنے پر خوشخبری اور نہ پڑھنے پر عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندئی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔ (النساء :۱۰۳)یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت: ۴۵)اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔ (طٰہٰ :۱۲۳)

رسول اللہﷺ نے فرمایا:نماز دین کا ستون اور مومن کی معراج ہے۔ نماز جنت کی کنجی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز ایمان و کفر میں فرق کرنے والی چیز ہے۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا ہی حساب و کتاب ہوگا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اس سے غافل اور لا پرواہ ہے۔ لوگ شبِ معراج بڑے دھوم دھام اور اہتمام سے مناتے ہیں مگر ان میں بیشتر کی زندگی نماز جیسی اہم ترین عبادت سے خالی ہوتی ہے۔ معراج کے موقع پر واقعہ معراج کو عظیم معجزہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے(بے شک یاد کیا جانا چاہئے)، لیکن اس کے مقصد اور پیغام پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔

پیغام: معراج کے اس سفر کی واپسی میں ’’سورہ بنی اسرائیل‘‘ کی شکل میں آپؐ کو دوسرا بہترین تحفہ ملا۔ جس میں اور باتوں ، نصیحتوں اور ہدایتوں کے علاوہ وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔ یہ ۱۵؍ اصول ہیں جو آیت نمبر ۲۳؍ سے ۳۷؍ تک میں دی گئی ہیں جو سلسلہ وار اس طرح ہیں :

۱؂ اللہ کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرو،

۲؂ والدین کے ساتھ حسن سلوک، عزت و احترام کے ساتھ پیش آؤ، انہیں اُف تک نہ کہو اور ان کے حق میں دعا خیر کرتے رہو۔

۳؂ خاندانی، اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں مدد، تعاون، ہمدرد ی کا سلوک کیا جائے اورایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی جائے۔

۴؂ مال و دولت کو غلط طریقے سے ضائع نہ کرو۔ فخر، ریااور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور نہ کریں ، ایسے لوگ شیطان کے بھائی ہیں ۔

۵؂ مال کے خرچ میں ، چاہے اپنی ذات ہی پر کیوں نہ ہو، اعتدال برتا جائے۔ نہ بخل و کنجوسی کر مال جمع کیا جائے اور نہ فضول خرچی کیا جائے۔

۶؂ اللہ نے جن مصلحتوں کے تحت رزق کی تقسیم میں جو تفاوت رکھا ہے اس کو مصنوعی طریقے اور تدبیروں سے بدلنے کی کوشش نہ کی جائے۔

۷؂ غربت اور مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل نہ کرو، یہ بہت بڑاگناہ ہے۔ جواللہ تم کو رزق دیتا ہے وہی اس کو بھی دے گا۔

۸؂ زنا کے قریب بھی نہ جائے۔ یہ بہت ہی برا فعل اور طریقہ ہے۔

۹؂ کسی انسان کو ناحق قتل نہ کرو۔

۱۰؂ مالِ یتیم کو غلط طریقے سے نہ کھاؤ۔ سن شعور کے پہچنے تک ان کے مال کی حفاظت کرو۔

۱۱؂ عہد و پیمان(وعدہ وعید) چاہے ایک فرد سے ہو یا پوری قوم یا ملک سے، پوری ایمانداری کے ساتھ اس کو نبھایا جائے۔ بد عہدی نہ کی جائے۔

۱۲؂ ناپ تول میں کمی و بیشی نہ کی جائے۔ اوزان اور پیمانے ٹھیک رکھے جائیں ۔

۱۳؂ کسی چیز کی ٹوہ اور تجسس میں نہ لگو۔ یاد رکھوآنکھ، کان اور دلوں کے خیالات، نیتوں اورارادوں کا بھی اللہ کے یہاں حساب دینا ہے۔

۱۵؂ زمین میں جباروں ، متکبروں کی چال نہ چلو۔ تم اپنی اکڑ سے نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ اپنے غرور میں پہاڑوں کی بلندی کو چھو سکتے ہو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ معراج کے تحفے نماز کی پابندی کی جائے۔ اس موقع سے جہم کا تمثیلی انداز میں جو نقشہ کھیچا گیا ہے وہ ہر وقت نظر کے سامنے رہے۔ اورخاص کر اس موقع پر سورہ بنی اسرائیل میں جو ہدیتیں اور اصول بیان کیے گئے ہیں اس پر چلنے کی کوشش کی جائے یہی معراج کا مقصد اور پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو دین کی صحیح سمجھ اور شعور اور قرآن و سنت پر خلوص دل کے ساتھ چلنے کی بھی ہدایت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔