واہ!سرجیکل اسٹرائیک……

ہندوستانی فوج کی جرأت کو سلام

ڈاکٹراسلم جاوید

19ستمبر 2016کی گہری اور تاریک را ت میں انڈ یا آ رمی نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں واقع دہشت گردوں کے متعد د ٹھکانوں پر حملے کئے ،جس لگ بھگ 38 دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا نے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے ،ادھر پاکستان سے ملنے والی خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ سرجیکل اسٹرائک میں دوپاکستانی فوجی بھی مارے گئے ہیںاورجمعہ کے روز یعنی 20ستمبر2016کو ہی انہیں دفنادیا گیا۔بہر حال اڑی حملہ کا بدلہ لینے کیلئے ہندوستانی فوج نے’’سر جیکل اسٹرائیک ‘‘چلانے کی تصدیق کی ہے۔ حالا ں کہ پی او کے میں عوامی سرگرمیوں اور خوف و بے قراری کی بجائے ،معمول کی زندگی میں چہل پہل اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ ’سرجیکل اسٹرائک‘ جیسا کوئی آ پریشن یہاں ہوا ہی نہیں ہے۔اڑی حملہ پر ہندوستان کے بعض جہاندیدہ سیاسی قائدین نے محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان کے دعوے پر زیادہ تبصرہ سے گریز کیاہے ، جہاں تک دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا سوال ہے تواس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ جنہوں نے بھی اُری حملہ انجام دیا ، انہیں سبق سکھانا چاہئے اوریہ ضروری بھی تھا ۔ یہ کام تو اُری حملہ کے فوری بعد ہونا چاہئے تھا، لیکن حکومت نے ایک ماحول تیار کیا اور جوابی کارروائی کیلئے عوام کی جانب سے بڑھتے دباؤ کے بعد ’’سرجیکل اسٹرائیک ‘‘کوانجام دیاگیا۔قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے خلاف ہندوستان نے 40 برس بعد اس طرح کی کارروائی کی ہے ، اس کارروائی میں فوجی ہیلی کاپٹر کا استعمال بھی کیا گیاہے ،ایسادعویٰ ہندوستان کی جانب سے کیا جارہا ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوجی ہیلی کاپٹر کا فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنا آسان ہے ؟ زمینی راستہ سے پھر بھی حملہ کیا جاسکتا ہے، لیکن ہیلی کاپٹرس کے استعمال کے بارے میں مختلف سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ سرحد پر کشیدگی کا ماحول ہونے کی وجہ سے حملہ کو حقیقی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔بادی النظر میں یہی بات مناسب بھی لگ رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب شرد یادو سے اس کارروائی پر تبصرہ مانگا گیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ فوج کا کام ہی سرحد کی حفاظت کرنا ہے جو کہ اس نے کیا ہے ۔
’آرمی اپریشن‘کی صبح جمعرات کے روزحکومت ہند نے اس موضوع پر کل جماعتی اجلاس طلب کیا،جس میں لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتوںنے اس کارروائی کے لئے ہندوستانی فوج کو مبارک باد دی ،ہماری فوج کی جرأتمندانہ کارروائی واقعی اس لائق تھی کہ اسے سلام کیاجائے۔اور ملک بھر سے فوج کی جرأت و ہمت کی تعریف وتحسین بھی کی جا رہی ہے ۔دریں اثناء ملک کی مؤقرتعلیم گاہ اورعالمی طورپر مسلم ایشیا کی عظیم الشان اسلامی دانشگاہ دارلعلوم دیو بند نے بھی اس موقع پر دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے چلائی جانے والی کارروائی پرانڈین آرمی کو خوب دادو تحسین سے نوازا ہے۔دارلعلوم دیوبند نے اپنے عمل سے فرقہ پرست عناصر کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہندوستان کے مسلما ن کسی بھی قیمت پر اپنی سرزمین پر انتشاروتشدد یا دہشت گردی پھیلانے والوںکو قطعی برداشت نہیں کر سکتے۔ حکومتیں ،بیوروکریسی اور نفرت کاکاروبار چلانے والے سیاسی لیڈران اگرچہ ہندوستان کے دینی مدارس کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہوں اوردینی علوم کے ان آبشاروں کو نیست نابود کرنے کی سازشیں بھی انجام دیتے ہوں ، دینی مدارس پر یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہوں کہ ان تعلیم گاہوں میں ملک مخالف اسباق پڑھائے جا تے ہیںاور حب الوطنی کا کوئی موضوع مدارس اسلامیہ میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس غلیظ فکر کے حامل طبقہ کو دارالعلوم دیوبندکے سپاسنامہ نے یقینا آ ئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔
دارالعلوم دیوبندکے کے ساتھ ملک کی متعدد مسلم تنظیموں نے بھی ہماری فوج کا حوصلہ بڑھانے،انہیں مبارکباددینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے اوراپنے وطن کی سلامتی و بقا کیلئے جسم میں موجود لہو کا آ خر ی قطرہ تک بہادینے کا عہد کیا ہے۔علاوہ ازیں جمعرات کے دن سے ہی پورے ملک میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ رہی ہے اور حکومت ہند سمیت آر می کی شجاعت پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔اجمالاً اتنا سمجھ لیجئے کہ اڑی حملہ کا بدلہ لینے کی غرض سے انجام دی جانے والی کارروائی کو پورے ملک کی تائیدو حمایت مل رہی ہے، لیکن دوسری طرف بین الاقوامی برادری میں’سرجیکل اسٹرائیک پر تشویش کا اظہارکیا جارہا ہے، کیونکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ایٹمی اسلحوں سے لیس ہیں۔ امریکہ نے صاف الفاظ میں تحمل برتنے کا مشورہ دیا ہے۔مگرامریکہ اپنے قول و عمل میں کتنا بڑامنافق ثابت ہواہے،اس سے پوری دنیا واقف ہے۔تاہم ہندوستان اس بات کو بحسن و خوبی جانتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جنگ چھیڑنے کا اس کا ارادہ بھی نہیں ہے ۔ حکومت ہند نے واضح بھی کر دیا ہے کہ’’آپریشن‘‘ فی الحال ختم ہو گیا ہے۔ہندوستان کی اس کارروائی کا مقصدپاکستان کیخلاف جنگ کا اعلان کرنا نہیں ہے،بلکہ ہم سرحد پار سے ہمارے ملک میں داخل ہو کردہشت گردانہ واردات انجام دینے والے عناصرکا سرکچلنے کے مقصد سے آپریشن کیلئے مجبور ہوئے ہیں۔ہندوستان نے ویسی ہی کارروائی ہے، جیسی گزشتہ سال میانمار کی سرحد میں کی تھی، جب ہندوستانی فوج نے اڑتیس ناگا باغیوں کو مار گرایا تھا۔کارروائی کا مقصد پاکستان کو اپنی فطرت سے باز آنے کے لئے متنبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے لوگوں کو یہ بھروسہ دلانا بھی رہا ہو گا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے حکومت کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ یہ بات محل غور ہے کہ پاکستانی نظام محض فوجی جنرلوں اور نواز شریف جیسے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں ہی نہیں ہے، بلکہ پاکستانی نظام کا تیسرا جز جہادی عناصر ہیں جوہوش سے زیادہ جوش سے کام لیتے ہیں۔ یہ عناصر ہندوستان دشمنی پر ہی زندہ ہیں، اگر وہ ہندوستان کے آگے دب گئے تو پھر اس کا کوئی مصرف ہی نہیں رہ جائے گا۔ ان حالات میں پاکستانی نظام کے جہادی عناصربھلے ہی ابھی خاموش ہوں اور جھوٹ بول کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کریں، لیکن ان قلب و ذہن میں ہندوستان کے خلاف بے چینی ضرورہوگی،اور وہ کسی زخمی سانپ کی طرح انتقام کی آگ میں تپ رہے ہوں گے۔ پڑوسی ملک پاکستان کے یہی عناصر ہندوستان میں دہشت گردانہ حملے کرواتے ہیں۔ لہذا آنے والے وقتوں میں پاکستان کی جانب سے کسی دوسرے دہشت گردانہ حملے کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے واضح کردیا ہے کہ اگر پاکستان نے شرارت کی تو ہم منہ توڑ جواب دیں گے، بھلے جنگ ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے ابھی فی الحال ہندو پاک جنگ ٹل جائے، لیکن مودی کے دور حکومت میں ہند ۔ پاک جنگ کا خطر ہ مستقل منڈلاتا رہے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ جنوب ایشیا کے پڑوسی ممالک جیسے نیپال ،برما،افغانستان اور بنگلہ دیش کے ذریعہ تنہا کئے جانے کے بعد وقتی طور پر پاکستان نے مصلحت کی چادر اوڑھ لی ہو،مگر اس کی خاموشی کو ہمیں نظرانداز نہیں کرنا چاہئے،اس لئے کہ وہ کبھی بھی اپنی خفت مٹانے کیلئے جارحانہ رخ اختیار کرسکتا ہے۔ ہندوستان کو جنوری 2004 میں ہی پاکستان نے بھروسہ دلایا تھا کہ وہ ہند کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے اپنی زمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔مگر اس اعلان کے باوجود سرحد پار سے دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا،جس کے نتیجے میںہندوستا ن دہشت گردی کے زخم پر زخم جھیلتا رہا۔بلکہ آخر تک یہ کوشش جاری رہی کہ کسی طرح بھی پاکستان دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں دیانتداری کا مظاہرہ کرے۔مگر ہندوستان کی جانب سے تمام ثبوت سونپے جانے کے بعد بھی پاکستان نے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کوئی قابل اعتماد کارروائی نہیں کی۔البتہ ’’سرجیکل اسٹرائیک ‘‘ کے بعدبین الاقوامی برادری کی تشویش واجب ہے، مگر اس کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی سر زمین سے چلنے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بند کرنے کا بھروسہ کون دلائے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔