گاندھی جی کی یوم پیدائش پر خصوصی مضمون

دو گاندھی اور ایک مشن

رحمت کلیم امواوی

یہ سچ ہے کہ آج بھی انسانی تاریخ کے اوراق عظیم انسانوں کے گراں قدر خدمات سے منور ہیں ۔یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے انسانی زندگی کی بقا اورترقّی کیلئے اپنی حیات کو قربان کردیا۔ ان تاریخ ساز شخصیات میں دو نام ایسے ہیںجنہیں کبھی بھی کسی صورت میں فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔موہن داس کرم چند گاندھی اور سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان ،یہ دو ایسانام ہے جنہیں رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا۔ موہن داس کرم چند گاندھی آج کون نہیں جانتا ۔دنیا کے کونے کونے میں اعلی سے ادنی ،چھوٹا بڑااور بچہ بچہ ا ٓج گاندھی جی کی شخصیت سے بخوبی واقف ہے۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور گراں قدر کارناموں نے انھیں بابائے قوم اور مہاتما گاندھی کے نام سے مقبولیت کا تاج پہنایا۔ عام آ دمی کے ذہن میں مہاتما گاندھی کی شخصیت کا پہلا تاثر ایک بے سر و ساماں درویش کا ہے جنہوں نے اپنے نظریہ عدم تشدّد کی بنیاد پر جنگِ آ زادی کا صور پھونکا اور اس ملک میں قدم جما چکے فرنگیوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔گاندھی جی کی شخصیت کے اس انقلابی پہلو سے قطع نظر ہم ان کے خیالات و افکار کا اگرجائزہ لیں تو ان کے یہاں ہمیں ایک جامع اور مربوط نظامِ زندگی کے شواہد ملتے ہیں۔ مہاتما گاندھی ایک قابل رہنما ،بہترین انسان اور مفکّر بھی تھے وہ فلسفی نہ تھے لیکن انھوں نے دنیا کے سامنے ایک ایسا طرزِ زندگی اور مسائلِ حیات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایسا موثّر طریقہ کار تجویز کیا جس کی افادیت دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔ گاندھی جی کے نظریات میں سب سے اہم اہنسا یعنی عدم تشدّد ہے جسے انھوں نے باضابطہ ایک طریقہ حیات قرار دیا ہے۔تشدّد آج نہ صرف قومی پیمانے پر بلکہ عالمی سطح پر ایک بھیانک مسئلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس لئے ایسے وقت میں گاندھی جی کے اس نظریے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔یاد رہے کہ گاندھی جی نے ذات،مذہب علاقائیت ،رنگ و نسل اور لسانی سطح پر مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی ایک دیانت دارانہ کوشش کی تھی۔ قومی یکجہتی کا یہی نظریہ ان کی فکر کا بنیادی پتّھر ہے جس پر وہ ایک خوشحال قوم کی تعمیرِ کر نا چاہتے تھے۔ گاندھی جی کی آ فاقی فکر نے لوگوں کو رنگ و نسل ،ذات وبرادری اور علاقائیت کے امتیازات سے اوپر اٹھ کر سوچنے پر مجبور کیا تھااور مطلق انسان دوستی کی ایک نئی فضا قائم کرنے کی سعی کی تھی ۔ شاید اسی لئے اردو کے مشہور شاعر مجاز لکھنوی نے گاندھی جی کے انتقال پر ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انساں کی جستجو میں ایک انساں چلا گیا
اس حقیقت سے کو ئی انکار نہی کر سکتا کہ مہاتما گاندھی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ان کی پوری زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کے مانند ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ہر کوئی باپو جی کی شخصیت سے بہت حد تک آگاہ و باخبر ہے۔
مہاتما گاندھی کے ہم خیال اور پوری طرح انسانیت کے نام اپنی زندگی قربان کردینے والے خان عبد الغفار خان جنہیں باچا خان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور ان کے عمدہ کارناموں کی وجہ سے انہیں سرحدی گاندھی کا بھی خطاب دیا گیا ہے ،آج اس مناسبت سے انہیں بھی یاد کرنا انتہائی ضروری ہے۔ایمانداری کے ساتھ اگر بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہاتما گاندھی کو لوگوں نے تاریخی حوالے سے مناسب عزت دی لیکن اس سرحدی گاندھی کے ساتھ بعد کے مصنفین نے انصاف نہیں کیا۔بطور خاص پاکستان کے وہ جانب دار مصنفین جنہیں اس بات سے سخت ناراضگی رہی کہ باچا خان نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کیوں کی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں باچا خان کا نام لینا اور ان کو اپنی تحریروں میں شامل کرنا،ان کے بے پایاں خدمات کو سراہنا ایک طرح سے گناہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔بہر کیف ہم گاندھی جینتی کی مناسبت سے جہاں مہاتما گاندھی کو یاد کر رہے ہیں وہیں سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان کو بھی یاد کرتے چلیں۔باچا خان 6فروری 1890کو چارصدا ،(موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کی نشو و نما ہوئی۔ آپ نے بچپن سے جوانی تک عوام الناس کو آزادی کیلئے جنگ کرتے دیکھا ۔ باچا خان کے خاندان کی داستان حریت بہت قدیم ہے۔ ان کے پر دادا عبیداللہ خان نے افغانستان کے درانیوں کی راہ روکی تھی اور پھانسی کی سزا پائی تھی۔ دادا سیف اللہ خان کو انگریزوں نے رام کرنے کی بہت کوشش ، مگر وہ قابو میں نہیں آئے۔ والد بہرام خان ترقی پسند انسان تھے۔ ایک طرف تعلیم کی سہولت نا پید اور دوسری طرف ایسے فتوے تھے کہ انگریزی تعلیم حرام اور حاصل کرنے والے جہنمی ہیں۔ مگر بہرام خان نے ہمت نہ ہاری اور اپنے دونوں بیٹوں کو پڑھا یا۔ بڑے عبدالجبار خان المعروف ڈاکٹر خان صاحب نے تو برطانیہ سے میڈیسن میں ڈگری اور چھوٹے عبدالغفار خان علی گڑھ تک گئے۔
ایک ایسے وقت میں جب عالمی برادری شدت پسندی سے متاثرہ ممالک افغانستان اور پاکستان کے لیے پالیسی مرتب کر رہی تھی تو ایک سوال با رہا اٹھایا جارہا تھا کہ پشتون آبادی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟عام طور پر پشتونوں کو ان کی جنگجویانہ فطرت اور جنگی تاریخ کی وجہ سے یاد کیاجاتا ہے۔لیکن انہوں نے بیسویں صدی کی کامیاب ترین عدم تشدد تحریک (خدائی خدمتگار تحریک) بھی چلائی جس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کی۔ باچا خان، فخر افغان اور سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور ایک اصلاح پسند رہنما تھے جن کا مشن اپنے پشتون بھائیوں کی اصلاح کرنا اور انہیں متحد کرنے کے ساتھ ساتھ زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔خان عبدالغفار خان نے1929ء میں خدائی خدمتگار کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا مقصد پشتون اکثریتی علاقوں اور غیر منقسم ہندوستان کو ہڑتالوں، جلوسوں اور تشدد سے پاک اختلاف کے ذریعے برطانوی تسلط سے آزاد کرانا تھا۔عدم تشدد کی اس تحریک میں تقریبًا تین لاکھ افراد شامل ہوئے اور یہ عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھنے والی دنیا کی پہلی فوج تھی۔ اس فوج نے بھارت کی تحریک آزادی میں بدترین صعوبتیں اٹھائیں۔ ایک جگہ باچا خان کی خود نوشت سوانح میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ’وہ پٹھان جو سارا وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ اپنے بھائی کا گلا کیسے کاٹا جائے، اس جیسے تشدد و طاقت کے ماحول میں پلے پٹھان کو عدم تشدد کا پیروکار بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں مہاتما گاندھی ہندوستان میں ظلم و جبر کے خلاف امن و سکون اور بھائی چارگی کا علم لے کر آگے بڑھ رہے تھے وہیں افغان میں باچا خان اس کیلئے جد وجہد کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے جہاں دونوں نے انگریزوں کے خلاف مورچہ کھولا وہیں اپنے اپنے خطے میں جاہلانہ رسوم و رواج ، خاندانی دشمنیوں ، خون خرابے کے خلاف بھی تحریک چلائی۔باپو کو جیل بھی جانا پڑا اور انگریز کے خلاف باچا خان کی سیاسی جد وجہد کا سبب ‘‘فرنٹیئر کرائمزریگولیشن ایکٹ’’ بنا۔ جس کے تحت پولیس جسے چاہتی چودہ برس کے لئے جیل بھجوا سکتی تھی۔ باچا خان اور ان کے پیروکاروں نے اس کالے قانون کو چیلنج کیا اور بڑی تعداد نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ خان اپنی خود نوشت سوانح میں لکھتے ہیں کہ ‘‘فرنگی کے مظالم کیخلاف سب سے پہلے رابطہ ہم نے مسلم لیگ سے ہی کیا تھا۔ وہاں شنوائی نہ ہوئی تو ہم مجبوراً کانگریس کے پاس گئے۔ جس سے ہماری کوئی جان پہچان نہ تھی۔ بس ڈوبتے کو تنکے کاسہارا والی بات تھی۔ ہم نے مدد مانگی ، تو جواب ملا کہ اس کے لئے ہمارے ساتھ ہندوستان کی جنگ میں شریک ہونا ہوگا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ معاملہ جرگہ میں گیا او رہم کانگریس میں شریک ہوگئے … آزادی ہم بھی چاہتے تھے۔ مگر تقسیم کے خلاف تھے۔ ہم کانگریس کے اتحادی تھے ، مگر ہندوستان کی تقسیم قبول کر کے اس نے بھی ہمارے ساتھ زیادتی کی‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں۔ ’زندگی کے پندرہ برس انگریز کی جیل میں گزارے اور تقریباً اتناہی عرصہ آزادی کے بعد بھی پابند سلاسل رہا‘۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بٹوارے کے بعد پاکستان نے بھی باچا خان اور ان کی تحریک سے وابستہ کارکنان پر مظالم کے پہاڑ توڑے،ان کو طرح طرح سے نشانہ بنایا گیا۔ اپنی سوانح عمری میں گلہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیںکہ ’’بٹوارہ ہوچکا تو میں نے کہا کہ اب جب کہ پاکستان بن چکا او رکانگریس و مسلم لیگ نے تقسیم مان لی، تو ہم غیر مشروط طور پر ملک و ملت کی خدمت کرناچاہتے ہیں۔ ہم پاکستان کے شہری اور وفادار ہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرناچاہتے ہیں۔ مگر حکومت پاکستان نے کوئی نوٹس نہ لیا، الٹامجھ پر الزام لگا دیا کہ میں تعمیر کی آڑ میں تخریب چاہتاہوں‘‘گاندھی جی کی طرح غفار خان بھی عدم تشدد کے پرچارک تھے۔ کہ کسی بھی قیمت پر متشددنہیں ہونا، ہتھیار نہیں اٹھانا۔ بہر صورت برداشت کرنا ہے، خواہ دوسرا تمہاری عزت نفس ہی مجروح کیوں نہ کر رہا ہو۔ خان عبدالغفار خان زندگی بھر عدم تشدد کے حامی رہے اور مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے۔ ان تمام حقائق کے باجود پاکستان نے اس عظیم انسان کے ساتھ جو سلوک کیا اس کو باچا خان برداشت نہیں کر سکے اور شاید یہی اسباب تھے کہ خان عبدالغفار خان سرحدی گاندھی نے پاکستان کے بجائے جلال اباد افغانستان میں تدفین کی وصیت کی تھی ۔اور پاکستان کے قیام کے وقت صوبہ سرحد کے حوالے سے یہ مشہور جملہ کانگریس سے مخاطب ہوکر شکایت کے لہجے میں کہا تھا کہ ” تم ہمیں بھیڑیوں کے حوالے کررہے ہو۔
بہر کیف دونوں گاندھی کا مشن اور مقصد پوری طرح واضح تھا ۔دونوں نے امن و سکون اور آپسی بھائی چارگی کیلئے اپنی زندگی وقف کردی ،لیکن باچا خان کے ساتھ قلم کاروں بطور خاص پاکستانیوں کا جو رویہ اب تک دیکھنے کو ملا ہے اسے کسی بھی ناحیے سے مناسب اور جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتاہے،آج جب کہ ہندوپاک کے مابین تنا تنی کا ماحول ہے ۔دونوں ملکوں کے مابین جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے،دونوں طرف سے عوام کا خون بہہ رہا ہے۔تشدد کا بازار پھر سے گرم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر موقع ملتے ہی ٹوٹ پڑنے کی کوشش میں لگے ہیں ،ایسے میں آج پھر کسی ایسے گاندھی کی ضرورت ہے جو ان دونوں ملکوں کے مابین امن شانتی اور دوستی و بھائی چارگی کیلئے علم لیکر آگے آئے اور پیار و محبت کی ایک نئی فضا قائم کرے۔یہ گاندھی جینتی کا موقع ہے،ایسے میں ہماری طرف سے باپو جی کوسب سے بہتر خراج عقیدت یہی ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے سب سے مضبوط اور اہم نظریہ ’عدم تشدد‘کو فروغ دینے کیلئے پہل کریں اور سکون کا ماحول قائم کرنے کی کوشش کریں ۔مہاتما گاندھی کی جینتی پر مودی سرکار کی جانب سے خصوصی صفائی یعنی’سوچھ بھارت مہم‘اپنے آپ میں ایک بہتر خراج تحسین ہے چونکہ گاندھی جی صاف صفائی کو لیکر بھی بہت سنجیدہ تھے اور اس کیلئے خود آگے بڑھ کر لوگوں کو صفائی ستھرائی بحال رکھنے کیلئے راغب کرتے تھے۔گاندھی جینتی پر سوچھ بھارت کے ساتھ ساتھ عدم تشدد کو بھی از سر نو بحال کرنے کی اگر کوشش کی جاتی تو یقینامہاتما گاندھی اور سرحدی گاندھی کی روح کو آج بڑا سکو ن ملتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔