واہ رے پاکھنڈ

ڈاکٹر عابد الرحمن

بی جے پی نے بھوپال مدھیہ پردیش سے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ سادھوی مالیگاؤں بم دھماکوں میں ملزم ہے۔ فی الحال ضمانت پر رہا ہے، شہید وطن ہیمنت کر کرے کے ذریعہ کی گئی تفتیش میں ان کے متعلق کئی باتیں سامنے آئی تھیں اور ان کے خلاف کئی ثبوت ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا لیکن ہیمنت کر کرے کی ناگہانی موت کے بعد قومی تحقیقی ایجنسی (NIA) نے ان کے خلاف ثبوتوں کو ناکا فی قرار دیتے ہوئے انہیں کلین چیٹ دے دی تھی لیکن کورٹ نے ان کی مقدمہ خارج کر نے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف الزامات طے کردئے تھے۔ ضمانت کے بعد سادھوی کی کوئی خبر نہیں تھی نہ ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکلی تھی جو ان کے ہونے کی خبر دیتی اور نہ ہی ان کے حالی موالیوں نے ہی ان کے حوالے یا ان کے تعلق سے کوئی ایسی بات کی تھی۔ لیکن جب سے بی جے پی نے انہیں اپنا امیدوار بنایا ہے ان کی بے زبانی جیسے زبان درازی میں تبدیل ہو گئی ہے امیدوار بنتے ہی انہوں نے پہلے تو شہید قوم ہیمنت کر کرے کی تذلیل کی انہیں مکار، دیش دروہی اور دھرم ورودھی کہا اور یہ بھی کہا کہ کر کرے کی موت (شہادت ) ان کی بد دعا سے ہوئی تھی اس کے بعد انہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ بابری مسجد مسماری میں وہ بہ نفس نفیس موجود تھیں۔

یہ سب پاکھنڈ کے سوا کچھ نہیں ہے کہ دہشت گردوں سے لڑ تے ہوئے شہید ہوجانے والے کسی سلامتی اہلکار کی ایمانداری اور حب الوطنی پر سوال اٹھایا جائے اور وہ بھی کوئی ایسا آدمی اٹھائے جو خود دہشت گردی کا ملزم ہو، جس پر دہت گردی کا مقدمہ زیر سماعت ہو اور جسے خرابیء صحت کی بنا پر ضمانت دی گئی ہو۔ شہید ہیمنت کر کرے کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ ملک میں کسی شہید کی ایمانداری پر سوال اٹھایا گیا اور اسے دیش دروہی تک کہہ دیا گیا، اگر دہشت گردوں سے لڑنے والا یہ شہید دیش دروہی تھا توکیا دہشت گردوں کو دیش بھکت کہا جائے؟ یا پھر اس شہید پر انگلی اٹھانے والوں کو دہشت گردوں کا حمایتی، دوست اور اتحادی کہا جائے ؟ یہاں یہ سوال بھی تو اٹھتا ہے کہ کہیں دہشت گردوں کو سادھوی کی بددعا کی تکمیل کے لئے تو نہیں بلایا گیا تھا؟ کیا کر کرے کہ قتل میں دہشت گردوں کے نام کوئی بڑا ہاتھ بھی شامل تھا؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شہید وطن ہیمنت کر کرے کی تذلیل کر نے والی اور انہیں دیش دروہی قرار دینے والی اس سادھوی کی قومی تذلیل کی جاتی اس کی اصل دیش بھکتی پوچھی جاتی اور کر کرے کے قتل کے متعلق اسے سوالوں کے گھیرے میں لایا جا تا۔ لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا، دہشت گردی کا نام آتے ہی پورے ملک میں آسمان سر پر اٹھانے والے کچھ نہیں بولے، نہ دہشت گردی کے خلاف کڑے اقدامات کر نے اور دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنے کا شور مچانے والوں نے کچھ کہا، نہ دہشت گردی کے ملزمین اور ان کی پوری قوم کو بلا تامل آتنک وادی اور ان کے مذہب کو آتنک واد کا مذہب کہنے والے کچھ بولے اور نہ ہی یعقوب میمن کے جنازے میں شریک ہونے والوں کو ممکنہ دہشت گرد کہنے والوں نے دہشت گردی کی ایک ملزمہ کو ٹکٹ دینے والی بی جے پی کو دہشت گردی کی حمایتی اور اسے ووٹ دینے والوں کو ممکنہ دہشت گرد کہا !سادھوی کی عام مخالفت بھی اگر ہوئی تو اس کی نوعیت سیاسی ہی رہی کہ اس کے سیاسی حریف ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں، اخلاقی سماجی اور نظریاتی طور پر مخالفت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور یہ سب لوگ بھی اس کی مخالفت میں کورٹ نہیں گئے کورٹ گیا تو وہ جس نے اس دھماکے میں اپنا بیٹا کھویا جس کی یہ سادھوی ملزم ہے۔

بی جے پی کی سیاست سبھی کو معلوم ہے، دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوئے ہندو ملزمین سے اس کی رشتے داری بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن وہ اپنی سیاست کو اس قدر گرادے گی اور دہشت گردی کے ملزمین سے اپنی رشتے داری کواس طرح علی العلان اجاگر کرے گی اس کا بہت سوں کو اندازہ نہیں تھا۔ سادھوی کو ٹکٹ دیا جانا بھی دراصل بی جے پی کا پاکھنڈ ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم مودی جی شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف اس کو اپنا امیدوار بنا رہے ہیں جو ایک شہید کی ایمانداری پر سوال کر رہی ہے اور اسے دیش دروہی کہہ رہی ہے، ایک طرف مودی جی دہشت گردی کے خلاف ووٹ مانگ رہے ہیں ملک کی سلامتی کے لئے ووٹ مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف انہوں اسے اپنا امیدوار بنایا ہے جو خود دہشت گردی کا ملزم ہے جس پر ملک کی سلامتی کو شدید نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ ملزمین کو الیکشن لڑنے سے جب قانون نہیں روکتا تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن سادھوی جس جرم کی ملزم ہے وہ کوئی معمولی یا ذاتی قسم کا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ ملک کی سلامتی اور یکجہتی سے اس کا سیدھا لینا دینا ہے۔ سادھوی کو اپنا امیدوار بنا کر دراصل بی جے پی نے ہندوتوا کو ایک قدم آگے بڑھا یا ہے، وہ ہندوتوا جو ابھی تک مسلم مخالفت کرنے والے منھ زوروں کے ارد گرد گھومتا تھا اب مسلمانوں کے خلاف براہ راست بم دھماکے کرنے کے ملزمین تک پہنچا دیا گیا۔ شاید بی جے پی کو لگتا ہے کہ اس کے ذریعہ ورغلائے ہوئے اذہان روایتی ہندوتوا اور اس کے فائر برانڈ لیڈران سے اوب چکے ہیں وہ کسی’ عملی ہیرو‘ کو آگے بڑھائے بغیر مزید ورغلائے نہیں جا سکتے اس لئے اس نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی ملزمہ سادھوی کو آگے بڑھایا تاکہ نہ صرف بھوپال بلکہ پورے ملک میں اس کے ذریعہ کٹر ہندوتوا کارڈ کیش کیا جا سکے۔

سادھوی کی امیدواری دراصل امتحان ہے لوگوں کا کہ وہ بی جے پی کے پاکھنڈ کی اس سیاست میں کہاں تک پھنس چکے ہیں۔ اگر سادھوی جیت جاتی ہے تو سمجھئے ملک میں مثبت اور صحت مند سیاست ختم ہوچکی، لوگ پوری طرح دھرم کی پاکھنڈی سیاست کے یرغمال ہوگئے ان کی سوچنے سمجھنے پرکھنے اور مستقبل کی فکر کی صلاحیت پوری طر ح صلب کر لی گئی۔ اور جمہوریت نوآبادیاتی نظام کی طرح غلام بنا دی گئی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔