چھلنی بھی بولی جس میں 72 چھید

حفیظ نعمانی

حکمراں پارٹی بی جے پی کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ اس کا صدر پورے ملک میں صرف جملے اُچھالتا پھر رہا ہے اور ملک کے وزیراعظم کے سر پر 500  اُمیدواروں کا الیکشن تھوپ دیا ہے۔ ابھی الیکشن کے تین رائونڈ ہی ہوئے ہیں اور وزیراعظم کا میگزین خالی ہوگیا۔ آواز میں بھی دم نہیں رہا اور عوام کو کانگریس کی کمزوریاں، بے ایمانیاں اور ناکامیاں گناتے گناتے ختم ہوگئیں۔ اب ہر جگہ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے بالاکوٹ کی کہانی سنائی جارہی ہے۔

اکثر لوگوں سے سنا ہے کہ مودی جی تقریر اچھی کرتے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ ہندوستان میں تقریر کے پرکھنے والے بھی ختم ہوگئے۔ اور مودی جی جو سوال جواب اور ہاں ناں مجمع کے ساتھ کرتے ہیں اور مجمع ان کے جملوں پر سیٹی بجاتا ہے اسے اچھی تقریر کہا جاتا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آچاریہ نریندر دیو یا چودھری چرن سنگھ کی تقریر نہیں سنی۔ وہ تین تین گھنٹے بولتے تھے اور لاکھوں کا مجمع سانس بھی نہیں لیتا تھا۔ مقرر کا حاضرین سے کہنا کہ بتائو کیسی حکومت پسند ہے اور کیسا پردھان منتری پسند ہے۔ وہ جو اینٹ کا جواب پتھر سے دے یا وہ جو شرافت کا مظاہرہ کرے؟ حیرت ہے کہ مقرر مجمع سے معلوم کرے جبکہ کامیاب مقرر وہ ہے جو اپنی بات دلوں میں اتار دے۔

وزیراعظم مودی ملک کی ترقی کے ساتھ اس کی سیکورٹی کی بہت فکر کرتے ہیں۔ ان کی تقریر کا زیادہ حصہ ترقی کے بجائے سیکورٹی کی تفصیلات پر ہوتا ہے۔ پارٹی کے صدر امت شاہ کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے وہ بس مودی جی کی تقریر کے ٹکڑوں سے کام چلا لیتے ہیں۔ انہوں نے غازی پور میں تقریر کرتے ہوئے مودی جی کی کاپی کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی ترقی کے ساتھ اس کی سیکورٹی سب سے اہم ہے۔ ہر ملک کو اپنے پڑوسیوں سے خطرہ ہوتا ہے۔ ہندوستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے پڑوسی بنگلہ دیش ہے شری لنکا ہے نیپال ہے پاکستان ہے اور چین۔ ان میں صرف چین ایسا ہے جس کا مقابلہ نہ ہم آج کرسکتے ہیں اور نہ کل اس کے علاوہ تمام پڑوسی وہ ہیں جن کے لئے ہم چین جیسے ہیں۔ اب اگر سیکورٹی پر آنکھ بند کرکے لٹایا جائے تو ملک کی ہر چیز فروخت کردینے کے بعد بھی ہم چین کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو پھر ان چھوٹے چھوٹے ملکوں کے لئے رافیل جیسے مہنگے جہاز خریدنے کا کیا جواز ہے؟

پاکستان جب بنا تھا تو کچھ تھا اندرا گاندھی نے جب سے اسے آدھا کردیا ہے اور وہاں بھی وہ ساری برائیاں آگئی ہیں جو ملک کو کھوکھلا کردیتی ہیں تو اس وقت سے وہ بنگلہ دیش اور شری لنکا جیسا ہوگیا ہے۔ پاکستان کی پوری طاقت ایٹم بم ہے جس کے بارے میں پرویز مشرف نے کہا تھا کہ اسے چھیڑنے کی غلطی نہ کرنا جتنی دیر میں تم دو بم ماروگے بھارت اتنی دیر میں 20  بم مارکر پورے پاکستان کو ختم کردے گا۔ مشرف صاحب وہ ہیں جو فوج کی طاقت سے بھی واقف ہیں اور حکومت کی طاقت سے بھی اور اس بم کے بنوانے میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ اور یہ مشرف صاحب کی اس نصیحت کا نتیجہ تھا کہ پلوامہ کے بعد ہندوستان کے تیور دیکھ کر عمران خان نے سنجیدگی سے کہا تھا کہ وزیراعظم مودی ہمیں ایک دن کا وقت دیں۔ ہم معلوم کریں گے۔ اور یہ عمران خان نے ہی کہا تھا کہ مسعود اظہر کہتے ہیں کہ یہ انہوں نے نہیں کیا اور وہ ہم سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔

امت شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے عہد میں دہشت گرد ہندوستان میں گھس کر حملہ کرتے تھے اور جوانوں کے سر کاٹ کر لے جاتے تھے۔ لیکن وزیراعظم مودی کی حکومت نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ان ہی کے گھر میں گھس کر ان کا منھ توڑ جواب دیا۔ یہ بات وزیراعظم کہتے ہیں تو اپنے جملوں میں لپیٹ دیتے ہیں۔ اور امت شاہ نے صرف ڈاکٹر منموہن کو نیچا دکھانے کیلئے گھر میں گھس کر منھ توڑ جواب کہہ دیا جبکہ وزیر خارجہ سوشما سوراج کہتی ہیں کہ فضائیہ کے جوانوں کو تاکید کردی گئی تھی کہ اس دوران کسی بھی پاکستانی فوجی یا شہری کی موت نہیں ہونا چاہئے۔ اور دوسرے مرکزی وزیر سردار اہلووالیہ نے کہا تھا کہ بالاکوٹ پر حملہ کا مقصد انسانی ہلاکتیں نہیں تھا بلکہ یہ دکھانا تھا کہ ہم اندر گھس کر بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ یہی بات دنیا بھر کے میڈیا نے کہی کہ نہ کسی کی جان گئی اور نہ کوئی مکان تباہ ہوا۔ رہا اندر گھس کر حملہ کرنا تو پہلے بھی سرجیکل اسٹرائک ہوچکا تھا۔ کم از کم پارٹی کے صدر امت شاہ اپنی پارٹی کے وزیروں کے بیان ہی پڑھ لیں بعد میں منموہن سنگھ، سونیا اور راہل پر انگلی اٹھائیں۔

ہماری فضائیہ کے جوانوں نے اگر مسعود اظہر اور حافظ سعید کے تمام ٹھکانوں کو ختم کردیا ہوتا تو سب سے زیادہ خوشی ہمیں ہوتی۔ جس طرح ہندوستان میں ہندو دہشت گردوں نے زعفرانی لباس پہن کر مذہبی بزرگوں کی شکل بنالی ہے اسی طرح پاکستان میں دہشت گرد بڑی بڑی داڑھیاں لمبے کرُتے اور دین کی باتیں کرکے وہی کرتے ہیں جو پرگیہ ٹھاکر اور ان کے ساتھی کرتے ہیں۔ اور جیسے ہندوستان میں بے وقوف بنتے ہیں ایسے ہی پاکستان میں جاہل مسلمان بے وقوف بن جاتے ہیں ضرورت اس کی ہے کہ دونوں جگہ ان ڈھونگیوں کو ختم کردینا چاہئے لیکن جب بڑے بڑے ان کی پناہ لیں گے تو اُن سے سماج کیسے پاک ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔