وراثت کے مسائل اور افسوس ناک صورت حال

مولانا محمد سالم قاسمی

 دین اسلام خدا کا وہ دین ہے جو ہر اعتبار سے کامل ومکمل ہے، اس میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں پیش آمدہ مسائل کو اس انداز سے پیش کردیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی زندگی کو گود سے لے کر موت تک اسلامی تعلیمات وہدایات کی روشنی میں بسر کرسکتا ہے اور اسے کوئی بھی پریشانی نہیں ہوسکتی، یہ الگ بات ہے کہ بعض تعلیمات تفصیلی طور پر شریعت میں موجود ہیں، جب کہ ایک حصہ ایسا بھی ہے جس کو قواعد واصول کی روشنی میں حل کیا جاسکتا ہے، اور یہ بات تو طے ہے کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو زمان ومکان کی قید وبند سے آزاد ہے، کسی بھی زمانے اور جگہ میں اس کے اصولوں کے مطابق زندگی کو برتا جا سکتا ہے۔

 لیکن مسلمانوں کے مابین ایک بڑا المیہ ہے کہ وہ بعض اہم شعبوں میں اسلامی تعلیمات سے کنارہ کشی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انسانی زندگی کے اس مرحلہ میں شریعت کی کوئی تعلیم اور ہدایت موجود نہیں ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایسا ہی ایک اہم شعبہ ’’وراثت‘‘ ہے، جس میں مسلمانوں کی بے حسی اور لاپرواہی ناقابل بیان ہے، روزانہ اموات ہوتی ہیں، وراثت سے واسطہ پڑتا ہے، لیکن جہالت اور غلط فہمیاں پہلے ہی کی طرح جاری ہیں، اور اس پہلو سے اس حد تک بے اعتنائی برتی جاتی ہے کہ گویا ’’وراثت‘‘ شریعت کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، من مانی عام ہے، جو چاہے، جب چاہے اور جیسے چاہے جائیدا اور املاک کو ہڑپ کرلے، کچھ ہونے والا نہیں ہے، میراث کے مسائل سے بے توجہی اور اس سے متعلق من مانی پر سوائے آنسو بہانے کے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔خدا خیر فرمائیـ۔

 جب کہ اسلامی شریعت میں ’’وراثت‘‘ ہی وہ واحد مرحلہ ومسئلہ ہے جس کے بیشتر اجزاء کی تفصیل خود اللہ رب العزت نے بیان فرمائی ہے، جوکچھ بچا وہ صاحبِ شریعت جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاک اور مبارک ارشادات میں بیان فرمادیا ہے، اسی لیے متعدد احادیث میں اس کے حاصل کرنے کی اہمیت وفضیلت کو ارشاد فرمایا گیا ہے، بل کہ ایک حدیث میں اس کو ’’نصف علم‘‘ یعنی آدھا علم قرار دیا گیا ہے(ابن ماجہ) لیکن ان سب کے باوجود آئے دن میراث میں جھگڑے کے مسائل درپیش ہوتے ہیں اور عوام کا ایک بڑا طبقہ یا تو علماء ومفتیان کے پاس رجوع کرتا ہے، یا دنیا کی حرص ولالچ میں دنیاوی عدالتوں کا رخ کرتا ہے ، وراثت میں دوسرے ورثہ کا مال ہڑپنا، کم وکاست کرنا اور ظلم وزیادتی کرنامعیوب نہیں سمجھا جاتا، بل کہ آفت تو یہ ہے کہ اب لوگ اس کو ’’ہنر‘‘ اور ’’فن‘‘ سمجھنے لگے ہیں۔ فإلی اﷲ المشتکی

 جب کہ ضرورت ہے کہ میراث کے مسائل کو سیکھا جائے، وراثت کی تقسیم میں اسلامی اصولوں کو برتا جائے، علماء ومفتیان کی خدمات حاصل کی جائیں اور ظلم وزیادتی، تشدد وبربریت اور غصب وغیرہ سے بچا جائے، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ میراث کے مسائل اس وقت علماء سے پوچھتے ہیں جب کہ معاملہ پھنس چکا ہوتا ہے اور پوچھنے والے کو اپنا حصہ ڈوبتا نظر آتا ہے، ہاں کچھ افراد ایسے بھی مل جاتے ہیں جو واقعی میں میراث کو اسلامی اصولوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسے افراد آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

 میں نے ’’اسلامی وراثت‘‘ کے تعلق سے بعجلت غیر مرتب انداز میں چند معروضات اس امید پر پیش کی ہیں کہ شاید ہماری اس جانب توجہ ہوجائے، اور جو دھڑلے بازی اس میں ہورہی ہے اس کو روکا جاسکے، حق داروں کو ان کا حق دلایا جاسکے اور اس معاملہ میں کوتاہیوں اور غلط فہمیوں کو ختم کرکے معاشرہ کو اسلامی قانون وراثت پر عمل پیرا کیا جاسکے۔

 ارادہ ہے کہ آگے بھی ان شاء اللہ اس تعلق سے کچھ معروضات پیش کی جائیںگی، احباب سے بھی گزارش ہے کہ اس جانب توجہ دیں۔اللہ ہم سب کو علم وعمل کی توفیق عطا فرمائے اوراپنی مرضیات کے مطابق زندگی گزارنے کو توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین)

تبصرے بند ہیں۔