وزیر اعظم مودی کے منہ سے بدگوئی

  کہتے ہیں کہ صحبت اور سنگت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ اگر انسان برے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا دل بھی برے لوگوں کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور برائی اور بری چیز اسے اچھی لگنے لگتی ہے۔ اس کی آواز اور چلت پھرت نشست و برخاست سب بری صحبتوں کی عکاسی کرنے لگتی ہے، اس میں جھوٹ اور جہالت کی عادت بھی جڑ پکڑلیتی ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اچھی چیز نہ اس کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ بری چیز باہر نکلتی ہے۔ دل صرف سیاہی مائل ہی نہیں ہوتا بلکہ دل سیاہ ہوجاتا ہے۔

یہی کچھ حالات ہمارے ’’ہر دل عزیز‘‘ وزیر اعظم کا ہے جو فرقہ پرستوں کے محبوب اور مقبول لیڈر ہوگئے ہیں۔ وہ انھیں قدرتی تحفہ سے بھی تعبیر کرنے لگے ہیں، یہاں تک کہ خوشامدی کہنے لگے ہیں کہ ’’مودی بھارت ہیں اور بھارت مودی‘‘۔ ایک وقت کانگریس کا بھی خوشامدیوں کا ایسا ہی آیا جب وہ اندرا کو انڈیا اور انڈیا کو اندرا کہنے لگے تھے، جس کی وجہ سے وہ آمریت کی طرف کشاں کشاں چل پڑی تھیں اور پھر پورا ہندستان ایمرجنسی اور نس بندی کی جبر سے کراہنے لگا تھا مگر بہت جلد ایمرجنسی کے بعد جو نتائج سامنے آئے اس سے مسز اندرا گاندھی کا دماغ درست ہوگیا تھا مگر مسز گاندھی ایسے لوگوں کے اندر پلی اور بڑھی تھیں کی ان کی زبان اپنے مخالفوں کیلئے کبھی فروتر انداز نہیں اختیار کرتی تھی۔ انداز مہذب اور شائستہ ہوتا تھا لیکن مودی جی کی بدقسمتی ہے، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ چائے کی دکان میں کام کرتے تھے اور چائے والے تھے۔

ایک چائے والے کی صحبت جیسے لوگوں سے ہوتی ہے سب پر عیاں ہے۔ ان کی عادت اور خصلت چائے والے کی ذہنیت سے قریب ہوتی گئی یا ایسے ہی لوگوں کی صحبت میں ان کا دل جہالت اور جھوٹ سے رنگتا چلا گیا۔ آج وہ پارلیمنٹ یا لوک سبھا کے لیڈر ہوگئے ہیں۔ جب وہ داخل ہوئے تھے تو اسے لوک تنتر (جمہوریت) کا مندر سمجھ کر اس کے دروازے پر سجدہ ریز ہوئے تھے مگر آج اسی مندر میں ایسی زبان کا استعمال منموہن سنگھ جیسے شریف اور شائستہ فرد کیلئے کرنے لگے ہیں کہ لوک سن کر دنگ رہ جاتے ہیں کہ اتنی اونچی کرسی تک پہنچنے کے باوجود شائستگی اور تہذیب انسانی سے محروم نظر آتے ہیں۔ انھیں اس کا بھی احساس نہیں ہوتا ہے کہ وہ کہاں بول رہے ہیں اور کتنے لوگ ان کی آواز سن یا دیکھ رہے ہیں۔

 اسی پارلیمنٹ میں مسٹر اٹل بہاری باجپائی تھے اور مسٹر ایل کے ایڈوانی ہیں جس کے مودی جی چیلے ہیں۔ یہ دونوں بھی بھاجپا کے ہی لیڈر اور رہبر رہے ہیں مگر ایسی غیرمہذب اور غیر شائستہ زبان ان لوگوںنے کبھی نہیں اپنایا۔ مسٹر ایڈوانی بھی اپنے چیلے یا شاگرد کے انداز سے خوش نظر نہیں آتے مگر چیلا جب گرو کی بزرگی اور عظمت کو نظر انداز کرنے لگا تو انھیں اپنی عزت بچانی پڑی، وہ خاموش رہنے لگے۔ کبھی کبھار ہی اشارے اور کنائے سے چیلے کو اس کی انسانیت یاد دلاتے ہیں مگر مودی جی کی ذہنیت سیدھی ہونے کا نام نہیں لیتی۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو مسلمانوں کو ایک کتے کے پلے سے تشبیہ دی تھی جو ناگہانی طور پر کسی گاڑی کے نیچے آجاتا ہے اور زخم خوردہ ہوجاتا ہے اس سے نریندر مودی جیسے سنگدل فرد کو بھی ہمدردی ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو میاں میاں کہتے تھے۔

مسلمانوں کو مسلمان بھی کہنا ان کو گوارا نہ تھا۔ یہ بھی کہتے تھے کہ ان کے چار اور پچیس، اس طرح کا طعن و تشنیع ان کی عادت میں شامل ہے جسے وہ اونچی سے اونچی کرسی بھی بیٹھنے کے باوجود چھوڑ نہ سکے جب کسی کے اندر یہ عادت پیدا ہو جاتی ہے تو چوٹیںکرنا، پھبتیاں کسنا، الزام دھرنا، اعتراض جڑنا، عیب چینی کرنا، کھلم کھلا یا زیر لب اشاروں سے نشانۂ ملامت بنانا اس کا محبوب ترین مشغلہ بن جاتا ہے۔ وہ انسانی رشتہ اور تعلقات کا پاس نہیں کرتا ہے بلکہ فسق و فجور میں ناموری پیدا کرنے کے جوش میں بہت آگے بڑھ جاتا ہے۔ غیر تو غیر اپنوں کو نہیں بخشتا۔ جب گجرات میں بی جے پی کے اندر باہمی کشمکش پیدا ہوئی تھی تو واگھیلا جو کبھی بی جے پی کا لیڈر تھا اس کے کپڑے تک بی جے پی کے ایم ایل اے اور ایم پی نے اتار لئے تھے۔ اسے بالکل ننگا کر دیا تھا جو تہذیب سے گری ہوئی حرکت تھی۔

دوسروں پر زبانی لعن طعن کرنے والا در اصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کی زبان دوسروں کے خلاف بدگوئی کیلئے اس وقت نہیں کھلتی جب تک اس کے دل میں برے جذبات کا لاوا خوب پک کر پھوٹ پڑنے کیلئے تیار نہ ہوگیا ہو۔ اس طرح ان جذبات کی پرورش کرنے والا دوسروں سے پہلے اپنے نفس کو بدی کا آشیانہ بنا چکتا ہے پھر جب دوسروں پر چوٹ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے اوپر چوٹیں کرنے کیلئے دوسروں کو دعوت دے رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے منموہن سنگھ جیسا کوئی شخص اپنی شرافت کی بنا پر اس کے حملوں کو ٹال جائے مگر اس نے تو اپنی طرف سے یہ دروازہ کھول دیا کہ وہ شخص بھی اس پر حملہ آور ہو جس کو اس نے اپنی زبان کے تیروں کا ہدف بنایا۔

ہمارے ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ملک کا کوئی وزیر اعظم نریندر مودی جیسا ہو جسے دوسروں کو اپنی زبان کے تیروں سے ہدف بنانے میں  مزہ ملنے لگا ہو جب کسی کی جھوٹ اور جہالت کے ماحول میں پرورش ہوئی تو وہ نہ اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانتا ہے اور نہ دوسروں کے مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھتا ہے۔ ایسے لوگ عام طور پر برائی میں نام پیدا کرنا ہی اپنے لئے کمال سمجھتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔