مسلمانوں کی معاشی بہتری کا معاملہ

 ہندستانی مسلمانوں کی معاشی بہتری کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے تو تعلیم کے بعد سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ کی کمی بتائی جاتی ہے۔ اس استدلال کی نوعیت مختصراً درج ذیل ہے:

 ’’چونکہ مسلمان غریب ہے اس لئے وہ زراعت یا صنعت یا تجارت میں سرمایہ نہیں لگا سکتا۔ نہ کارخانے قائم کرسکتا ہے، نہ مشینیں خرید سکتا ہے اور نہ ان ضروریات کیلئے عمارتیں تعمیر کرسکتا ہے۔ ان وجوہ سے سرمایہ کی فراہمی کو اولین اہمیت حاصل ہے، مگر سرمایہ یا تو نجی سرمایہ کاروں سے مل سکتا ہے (مثلاً بینک وغیرہ) یا پھر حکومت وقت سے۔ دونوں راستے غریب مسلمانوں کیلئے عملاً مسدود ہیں۔

بصورت موجودہ تجارتی اور صنعتی بینکوں سے سرمایہ ان کو ملتا ہے جو ضمانتیں فراہم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا جن کے قبضۂ قدرت میں پہلے سے وسائل موجود ہوتے ہیں ان کو مزید سرمایہ ملتا ہے۔ سماج کے ایسے افراد کیلئے نجی بینکوں کے دروازے بند ہوتے ہیں، جو محض صلاحیت اور ہنر سے بہرہ مند ہوں لیکن ضمانتیں فراہم نہیں کرسکتے۔ یہ نظام سرمایہ داری کی اساسی حکمت عملی ہے۔ مسلمان اس شمار ہی میں نہیں آتے۔ ان کو صرف حکومتی امداد یا ایسے قرضوں پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے جن کو حکومت کی طرف سے ضمانت دی گئی ہو، مگر سیاسی اور فرقہ وارانہ امتیازات کی وجہ سے یہ راستہ بھی تقریباً مسدود ہے۔

ان وجوہ سے مسلمانوں کی معاشی بہتری کی سمت میں سب سے اہم قدم یہ ہے کہ انھیں سرمایہ فراہم کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے ایک طرف حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اقلیتوں کیلئے رعایتی شرحوں پر سرمایہ فراہم کرے اور دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے بینک اور سرمایہ کاری کی کمپنیاں قائم کرنا چاہئے‘‘۔

استدلال کا نقص: مذکورہ بالا استدلال کئی جہتوں سے ناقص ہے۔ اس میں سچ اور جھوٹ کی ایسی آمیزش ہے کہ سچ دب گیا ہے یا سچ میں اتنا مبالغہ کیا گیا ہے کہ وہ بھی جھوٹ بن گیا ہے۔ یہ استدلال اپنی اصل کے اعتبار سے معاشیات کی ایک دیرینہ تھیوری کی بازگشت ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ چونکہ غریب ملک بچت نہیں کرسکتے اس لئے وہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتے۔ بغیر سرمایہ کاری کے معاشی صورت حال میں بہتری ممکن نہیں ہے۔ اس لئے وہ غریب ہی رہیں گے جب تک کہ خارج سے ان کو سرمایہ نہ فراہم کیا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو ایک عرصے تک ان کو پیٹ کاٹنا ہوگا اور تنگی کی زندگی گزارنا ہوگا مگر اس طریقہ علاج کی بنیادی خامی یہ ہے کہ جس مریض کیلئے نسخہ تجویز کیا جاتا ہے اس کی مالی حالت پہلے ہی سے خستہ ہوتی ہے۔

اس دلیل میں ایک دوسرا نظریہ معاشیات بھی مضمر ہے۔ وہ یہ کہ مشینوں اور دوسرے آلات پیداوار اور پیداواری سہولتوں کی ایک معقول اور ضروری مقدار میں فراہمی کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ترقی یافتہ اس لئے ہے کہ اس کے پاس بہترین مشینیں، وسائل حمل و نقل اور اطلاعات کا موثر ترین نظام موجود ہے، اسی طرح دوسرے ترقی یافتہ ممالک مثلاً جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔

 یہ بات صرف ملکوں او ر قوموں کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ افراد اور گروہوں پر بھی راست آتی ہے۔ ان دونوں نظریات کا ماحصل یہ ہے کہ سرمایہ انسان اور اس کی صلاحیتوں پر مقدم ہے۔ یہ نظام زرداری کا نقطہ نظر ہے۔ سرمایہ دارانہ طرز فکر کا غماز ہے، جس نے ایک ادھوری اور جزوی صداقت کو کلی اور بنیادی صداقت بناکر پیش کیا ہے اور اپنے ہزارہا خدام، ریسرچ، درس و تدریس، نظریات سازی اور یونیورسٹیز کے شعبہ جات کے ذریعہ پوری دنیا میں اس طرح پھیلایا ہے کہ عوام و خواص اس کے گرویدہ ہوگئے۔ اس کے مبلغ بن گئے اور اس کے مخالف نقطہ نظر کی تحقیر اور استخفاف پر آمادہ ہوگئے۔ اس طرز فکر میں انسان اور اس کی جدوجہد کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے اور مشینیں اور سرمایہ کو اولین مقام دیا جاتا ہے۔ اس کا پرتو عصر جدید کے تمام سماجی علوم پر پڑا ہے۔ یہی وہ زاویہ نظر ہے جو انسان کی آبادی کو محض بوجھ قرار دیتا ہے۔ اس کی فطری پیداواری استعداد کو نظر انداز کرتا ہے اور مسئلہ آبادی کو غریب ممالک کا سنگین ترین مسئلہ بناکر پیش کرتا ہے۔

اس طرز استدلال کا مغالطہ یہ ہے کہ سرمایہ اور مشینیں اور دوسری پیداواری سہولتیں پہلے آتی ہیں اور معاشی ترقی بعد میں؛ جبکہ تاریخ اس کو جھٹلاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سرمایہ اور مشینیں معاشی جدوجہد کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوتی اور اس جدوجہد کے دوران ان میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی نمایاں مثال جاپان ہے، جہاں خام مواد مثلاً لوہااور کوئلہ تک نہیں پایا جاتا تھا لیکن معاشی جدوجہد کے نتیجہ میں مشینیں بھی بنیں اور پیداواری سہولتیں بھی فراہم ہوئیں اور آج یہ ملک مالی استحکام اور معاشی ترقی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے ترقی یافتہ معیشتوں کے بالمقابل ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ریاست ہائے امریکہ میں جب معاشی جد وجہد کا انیسویں صدی میں آغاز ہوا تو وہاں پیداواری سہولتیں اور سرمایہ پہلے سے موجود نہ تھے بلکہ معاشی سفر کے دوران ان میں اضافہ ہوتا گیا۔

اس کے برخلاف تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جس وقت یورپ نے معاشی اور سائنسی ترقی کی طرف تیز رفتاری سے قدم اٹھائے اس وقت شرق اوسط کے مسلمان ممالک اپنے دیرینہ سرمایہ کے اعتبار سے ان سے کہیں آگے تھے۔ ہندستان بھی قدیم نظام معیشت کی وجہ سے سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور یورپ کی نگاہ طمع و حرص اس پر پڑتی تھی، جس کا اختیار حکومت انگلستان کی سیاسی فتح پر ہوا، لیکن سرمایہ کی موجودگی کے باوجود یہ ممالک معاشی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے۔ اس لئے تدابیر تنظیم اور مینجمنٹ کے محاذوں پر وہ کوتاہ کار تھے۔ انھوں نے ماقبل سرمایہ کو اپنی حماقت سے برباد کیا۔ دور اندیشی سے کام لے کر قائم اور موجود نظام معیشت کو نہ وقت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور نہ ان کی استعداد میں اضافہ کی جدوجہد کی۔ اس کے برعکس پس ماندہ یورپ نے حسن تدبیر اور سخت کاوش کے ذریعہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترقی نہیں دی بلکہ یورپ کی پیداواری صلاحیتوں میں حیرت انگیز اضافہ کیا۔

 سرمایہ اہم ہے مگر اقدم نہیں: یہ مختصر اشارے محض اس اصولی حقیقت کو واضح کرنے کیلئے کئے گئے ہیں کہ حسن انتظام اور تدابیر کو معاشی ترقی میں بھی وہی اہمیت حاصل ہے جو سیاسی اور عسکری برتری کیلئے لازم سمجھی جاتی ہے۔ معاشی بہتری کیلئے حسن انتظام اور تدبر کو جدید اصطلاح میں مینجمنٹ کہتے ہیں جو صنعت اور تجارت اور فرد کی معاشی بہتری میں سرمایہ سے کمتر اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ سرمایہ اہم ضرور ہے لیکن وہ اقدم نہیں ہے بلکہ انسانی کاوش اور اس کا حسن انتظام اور اس کی تدابیر اقدم ہیں۔ یہ بات دور حاضر کے تجربوں سے مزید واضح ہورہی ہے۔ ملیشیا، سنگا پور اور ہندستان کا معاشی ترقی کا سفر تقریباً ایک ساتھ شروع ہوا تھا مگر ہماری بے بصیرتی اور بد انتظامی سے ہندستان اب بھی تیسری دنیا کے کمزور ممالک میں شمار ہوتا ہے جبکہ اول الذکر دونوں ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار کئے جاسکنے کے قابل ہورہے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال ملکوں نے اپنی دولت او ر اقتصادی نظام کا جس طرح تیا پانچا کیا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ اربوں ڈالر کمانے کے بعد بھی وہ ایک مستحکم اور خود اعتبار (Self Reliant) معیشت کو جنم نہ دے سکے۔

یہ حقیقت جس طرح ملکوں کے بارے میں واشگاف ہوچکی ہے اسی طرح افراد اور خاندانوں کے بارے میں بھی اس کے مظاہر ہر قدم پر ملتے ہیں۔ کتنے ہی افراد آپ کو اس سماج میں ایسے مل جائیں گے جنھوں نے حقیر سرمایہ کو اپنی راہ کا روڑا نہیں بننے دیا اور اپنی ذہانت، تدبیر اور حوصلہ سے معاشی ترقی کے مراحل طے کرلئے۔ اس کے برخلاف کتنے ایسے ملیں گے جنھوں نے اپنی حماقت آمیز تعیش پسندی اور اسراف بے جا سے وراثت میں پائے ہوئے سرمایہ کو ضائع کر دیا۔ زمین داری ختم ہونے کے بعد جاگیر داروں کی ناخلف اولاد نے بانڈس بیچ بیچ کر ایک مختصر عرصے میں ہی غربت اور افلاس کے کھنڈروں میں پناہ لے لی، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے انھیں بانڈس کی قیمت سے زراعتی صنعتیں قائم کرلیں، ٹرانسپورٹ کمپنیاں بنا لیں اور اوسط درجے کی مصنوعات کے کارخانے قائم کئے اور اب وہ اپنے آباء و اجداد سے بہتر حال میں ہیں۔

 معاشی بہتری اور استحکام کیلئے بڑے بڑے کارخانے، قیمتی مشینیں اور مہنگا خام مواد ضروری ہیں، جن کیلئے کثیر سرمایہ درکار ہوتا ہے مگر ناگزیر شرائط نہیں ہیں کہ ان کیلئے کثیر سرمایہ فراہم کرنا لازم قرار پائے۔ مذکورہ تمام چیزیں بڑی صنعتوں اور وسیع پیمانہ پر ایسا کاروبار کیلئے جو عصر جدید کی ٹیکنالوجی سے مسابقت کرسکے، نہایت قلیل سرمایہ کی ضرورت ہے بلکہ ان مصنوعات کو بہتر طریقے سے چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں بنایا جاتا ہے۔ بعض ضمنی مصنوعات ایسی بھی ہوتی ہیں جو بڑی بڑی کمپنیاں دوسروں سے خریدنا بہتر سمجھتی ہیں۔ بعض اس مقصد کے تئیں کارخانے بھی قائم کرتے ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی قومی آمدنی کا ایک تہائی حصہ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔

جدید معیشت: اس ملک میں بھی بعض پیداواری کام ایسے ہیں جن میں سرمایہ یا تو بہت کم درکار ہوتا ہے یا ان میں پہلے سے موجود سرمایہ کی ضرورت نہیں ہوتی، ان کی ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ ہندستان میں بعض مخلص افراد نے ایسے رسالے جاری کئے ہیں جن میں ایسی مصنوعات کی تفصیل اور ان کو بنانے کی ترکیب شائع ہوتی ہے (مثلاً روزگار، کلکتہ) حکومت کے مختلف انسداد غربت پروگرام بھی اس طرح کی اسکیمیں چلارہے ہیں۔ ان کا بغور مطالعہ کرنے سے ایسی متعدد راہیں واضح ہوسکتی ہیں جن سے مسلمان اپنی معاشی حالت مستحکم کرسکتے ہیں اور دوران جدوجہد ضروری سرمایہ بھی پیدا کرسکتے ہیں۔

جدید معیشت میں علم و ہنر اور ٹیکنالوجی کو جو اہمیت حاصل ہے وہ ڈھکی چھپی حقیقت نہیںہے۔ پروفیشنل اور ٹیکنیکل ایجوکیشن بہت مہنگی ہے۔ اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اس نظام سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے، لیکن یہ بھی ادھوری حقیقت ہے۔ کتنے ہی ہنر مند اور کتنی ہی مہارتیں (Skills) ہی ایسی ہیں جن میں سرمایہ کی ضرورت بہت کم ہوتی ہے۔ اگر ایک غریب پروفیشنل کالجز میں داخلہ لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر نہیں بن سکتا تو وہ نرسنگ کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ یہ معمولی سرمایہ سے زرعی مصنوعات کا ماہر بن سکتا ہے۔ غذائی مصنوعات کی پروسیسنگ کرسکتا ہے۔ کمپیوٹر ٹریننگ حاصل کرسکتا ہے اور علیٰ ہٰذا لقیاس متعدد فنی علوم بھی حاصل کرسکتا ہے جو اگر چہ ضمنی ہوتے ہیں مگر ان کے بغیر نظام معیشت ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔

اس صورت حال کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ مسلمان کاریگروں کا ایک بہت بڑا حصہ، چیرہ دست اور ظالم سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے لیکن خود تنگ دستی کی زندگی گزارتا ہے۔ فیروز آباد کی شیشہ سازی ہو یا علی گڑھ کی تالہ کی صنعت یا لکھنؤ کی چکن کاری یا مدراس کے بیڑی کارخانے، ان تمام جگہوں پر پشتہا پشت سے مسلمان صرف تنگ دست کاریگر کی صورت میں زندہ ہیں۔ یہاں بہتری اور انسداد غربت صرف دانش مندانہ تدبیر، مارکیٹ کو متاثر کرنے کی قدرے بہتر صلاحیت اس المناک صورت حال کو بہتر کرنے کیلئے کافی ہے۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ معاشی جدوجہد چاہے کتنی قلیل سرمایہ سے کیوں نہ شروع کی گئی ہو،  حسن تدبیر کے نتیجہ میں وہ سرمایہ، پیداواری سہولتوں اور مشینوں میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ اضافہ قلیل مدت میں بھی ہوسکتا ہے اور نسبتاً زیادہ مدت میں بھی، مگر ابتدائی سرمایہ کی قلت نہ تحصیل ہنر میں ناقابل عبور رکاوٹ بن سکتی ہے اور نہ ہی زیادہ سرمایہ میں ۔ بہتر مینجمنٹ کی ایک صورت باہمی تعاون بھی ہے مگر سرمایہ کی غیر معمولی اہمیت کے قائل حضرات کی نگاہیں بالعموم کریڈٹ سوسائٹیز یا اِنوِسٹمنٹ کمپنیوں پر مرکوز رہی ہیں۔ اس پہلو پر بہت کم توجہ کی گئی ہے کہ کو آپریٹیو سوسائٹی کے ذریعہ فنی مہارت کا حصول اور راست سرمایہ کاری بھی ممکن ہے، چھوٹے سرمایہ کاروں کا مارکیٹ اور طلب و رسد سے متعلق فنی معلومات بھی کم قیمت پر فراہم کئے جاسکتے ہیں۔

مگر افسوس ہے کہ ہمارے مخلص قائدین کی توجہ اس حقیقت کی طرف کم ہی مبذول ہوتی ہے، وہ عظیم الشان اسکیموں، مہتم بالشان فنی اداروں اور فارمل سیکٹر پر توجہ دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں مسابقت کا اصل میدان اعلیٰ ترین اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول ہے؛ حالانکہ وسیع پیمانہ پر کام کرنے والی صنعتیں بہت سے اہم اور کلیدی شعبوں میں چھوٹی چھوٹی صنعتی کوششوں پر انحصار کرنے کیلئے مجبور ہیں۔ اسی طرح اعلیٰ فنی مہارت سے آراستہ ڈاکٹر، انجینئر، ذرائع ابلاغ کے ماہرین، صنعتی اداروں کے صدور سب ہی متعدد گوشوں میں نسبتاً کم تعلیم یافتہ عاملین (Work Force) انحصار کرنے کو مجبور ہیں۔ بڑے سائنسداں فی الواقع اپنے سے جونیئر ریسرچ اسکالرس کی محنت اور جدوجہد سے مستفید ہوتے ہیں اور نئے انکشافات پر اپنی مہر لگا دیتے ہیں۔

 حکومت ہند کی نئی معاشی پالیسی اور نئے عالمی رجحانات: حکومت کی نئی معاشی پالیسی اور نئے عالمی رجحانات نے بھی مسلمانوں کیلئے بعض نہایت اہم راستے کھولے ہیں۔ ان کا بھی تجزیہ ضروری ہے اور اس کے پیش نظر نئی راہوں میں پیش قدمی بھی مفید ہوگی۔

حکومت ہند کی نئی پالیسی کے نتیجہ میں ایک طرف تو بین الاقوامی تجارت کی راہ میں سیاسی اور فرقہ وارانہ عصبیت پر مبنی ضوابط کی رکاوٹوں کے دور ہونے کی وجہ سے اب مسلمان صنعت کاروں،  چھوٹے اور نسبتاً بڑے کیلئے بین الاقوامی بازار کو تلاش کرنے اور اپنی مصنوعات کیلئے مانگ پیدا کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور اگر یہ پالیسیاں جاری رہیں جیسا کہ امکان قوی ہے تو ان کی معاشی بہتری کے امکانات بھی بڑھ جائیں۔ بین الاقوامی تجارت میں پیش رفت کیلئے مارکیٹ کا تجزیہ اور بہتر ذرائع اطلاع اور ابلاغ سے استفادہ کرنا،  مسابقت کیلئے ضروری ہے مگر مسلمان تاجر، صنعت کار بالعموم اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر مسلمان دانشور اور سائنسداں ایسی سوسائٹیاں اور ادارے قائم کرسکیں جن کا کام ماہرانہ معلومات کی فراہمی اور مارکیٹ کے متعلق کی لاگت پر اطلاعات اور تجزیات کی فراہمی ہو تو وہ کم سرمایہ رکھنے والے چھوٹے مسلمان تاجروں کی ایسی خدمات انجام دے سکتے ہیں جو نفس سرمایہ سے کہیں زیادہ مفید اور بار آور ہوگی۔

اسی طرح نئی معاشی پالیسی اور بین الاقوامی کے رجحان کے نتیجہ میں لیبر مارکیٹ بھی ملکی حدود سے تجاوز کرکے بہت بڑی حد تک عالمی نوعیت حاصل کررہی ہے۔ قومی اور ملکی بازار میں سیاسی اور فرقہ وارانہ امتیازات کی وجہ سے مسلمانوں کو آج بھی بے روزگاری کا سامنا ہے۔ ان کے خلاف تفریق اور کھلی ہوئی جانب داری کے واقعات محتاج ثبوت نہیں ہیں۔ ان کی وسعت بھی غیر معمولی ہے، لیکن بین الاقوامی بازار میں ان تعصبات اور امتیازات کے اثرات نسبتاً کم ہوتے ہیں، وہاں مہارت اور فنی استعداد بالعموم فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس بدلتی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھی سرمایہ کو کلیدی اہمیت نہیں حاصل ہے۔ اس کے برعکس ملت کے تعلیمی اداروں کو اپنے کورسز سلیبس کو اس طرح ترتیب دینا ہوگا کہ وہ مستقبل کی مانگ کے مطابق ہوں۔ دوسری طرف شہر میں ایسے ادارے قائم کرنا چاہئے جو جدید ترین اطلاعات، کیریئر گائیڈنس فراہم کرسکیں۔ اگ ان دونوں اور کا کما حقہ لحاظ کیا جاسکا تو نئی معاشی پالیسی مسلمانوں کیلئے کئی جہت سے خیر ثابت ہوسکتی ہے۔

اس ساری گفتگو کا مقصد سرمایہ کی اہمیت کا یکسر انکار نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس صحیح اور متوازن اسلامی نقطہ نظر کو اجاگر کرنا ہے کہ ہر ترقی اور ہر نوعیت کی تعمیر او ر تشکیل کیلئے انسان اس کی جدوجہد، اس کا حسن انتظام، اس کی علمی اور فنی استعداد فیصلہ کن امور ہیں۔ سرمایہ اور مشینیں اور مادی وسائل مددگار ضرور ہوتے ہیں، اصل نہیں۔ تاریخ میں اس سے بڑا علمی جھوٹ بہت کم بولا گیا ہوگا جس نے انسان کو تابع اور وسائل کو متبوع قرار دیا ہوگا۔ تمدن کی ظاہری چمک دمک، ہیبت ناک، وسیع الجثہ مشینوں سریع رفتار ذرائع حمل و نقل اور حیرت ناک وسائل ابلاغ و ترسیل، دہشت زدہ ضرور کر دیتے ہیں لیکن یہ خود سے پیدا نہیں ہوگئے۔ نہ یہ اپنے ساتھ قوت خرید لے کر آئے تھے بلکہ یہ انسانی جدوجہد کے ثمرات ہیں اور اپنی کارکردگی کیلئے انسانی حسن تدبیر اور فراست کے محتاج ہیں۔ آپ چاہیں تو انھیں مزید ترقی دیں اور چاہیں تو انھیں ضائع کردیں۔ اس طرح آپ کے صوابدید پر یہ بھی منحصر ہے کہ اس کو انسان کی عام منفعت کیلئے استعمال کریں یا اس کی بربادی ظلم و استحصال کے فروغ کیلئے۔

 ہندستانی مسلمانوں کو بالعموم اور ان کے دردمند قائدین اور مصلحین کو اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز نہ کرنا چاہئے۔ امت مسلمہ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ فارمل اور خالص مادی تصور مینجمنٹ کو وہ انسانی اور اخلاقی نقطہ نظر عطا کرے جس کیلئے مادی وسائل سے بھرپور یہ دنیا آج بری طرح ترس رہی ہے۔ اگر آج کا انسان شرو فساد پر آمادہ ہوجائے تو وہ ایسی تباہی لاسکتا ہے جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ مادی تباہی اور بربادی کی داستانیں تو سنتے رہتے ہیں لیکن ظلم، جبر اور حیوانیت کے واقعات سے اس وقت پوری دنیا کراہ رہی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی… ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔