وزیر اعظم کی قلابازی

حفیظ نعمانی

وزیراعظم نریندر مودی دو روزہ دورے پر اپنے حلقہ وارانسی آئے اور ایک ہزار کروڑ کے منصوبوں میں سے کسی کا افتتاح کیا اور کسی کا سنگ بنیاد رکھا اور اس پروگرام میں بڑودہ اور وارانسی کے درمیان چلنے والی نئی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھاکر روانہ کیا۔ یہ سارے پروگرام وارانسی میں ہورہے تھے اور ہم لکھنؤ میں تھے لیکن ٹی وی کی مہربانی سے ان پروگراموں کو دیکھنے اور وزیر اعظم کی باتیں سننے میں کوئی زحمت نہیں ہوئی۔

ہم نے اتنی دور ہوتے ہوئے بھی محسوس کیا کہ وزیراعظم کی آواز کی کڑک، چہرے کی چمک اور ہاتھوں کی حرکت میں دس مہینے کے اندر اتنا فرق آگیا ہے جتنا اگر وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے رہتے تو دس برس میں بھی نہ آتا۔ ان کی رنگ برنگی پگڑیوں کے شملے تو کیا پگڑی بھی سر پر نہیں تھی ان کی ہر بات اور ہر حرکت سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ سب کچھ اس لئے کررہے ہیں کہ پروگرام پہلے سے بن گیا ہے۔ وزیراعظم نے غریبوں اور ان کی غربت دور کرنے اور ان کی آنے والی نسلوں کو غریبی سے پاک کرنے کا ذکر تو کیا لیکن وہ گرمئی گفتار اس لئے نہیں تھی کہ ان کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے غریبوں کی تعداد میں اتنا اضافہ کردیاہے کہ اگر حالت یہی رہی تو خوشحال لوگوں کو چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑے گا۔

آج جبکہ ہر طرف سے آواز آرہی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو پوری طرح حکومت نے مٹھی میں لے لیا ہے ایسی حالت میں وہ دکھا رہے ہیں کہ ٹرانسپورٹر جن کے کروڑوں کے ٹرک بیکار کھڑے ہیں ان سے لے کر کباڑیوں تک سب بے روزگار ہوکر غریبوں کے خانے میں آتے جارہے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں سابقہ حکومت پر طنز کے تیر برسانا کیسا ہے؟ یہ بھی مودی جی کو سوچنا چاہئے۔ ایک ہزار کروڑ کے منصوبوں پر فخر کرنا اور ایسی حالت میں جبکہ پورے ملک کی ریل لائنیں جگہ جگہ ٹرینوں کو پٹری سے اتار پھینک رہی ہیں ایک لاکھ دس ہزار کروڑ بلٹ ٹرین پر خرچ کرنا کیسا فیصلہ ہے۔ اس پر بھی غور کرنا چاہئے؟

وزیراعظم مودی اتنا بدل گئے ہیں کہ وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کو مندر کا درجہ دیا اور اس میں داخل ہونے سے پہلے اس کی سیڑھی پر ماتھا ٹیکا۔ اور اندر جاکر سینٹرل ہال میں جو تقریر کی اس میں سب سے زیادہ زور اس پر دیا کہ ان پانچ سو ممبروں میں جو داغی ممبر ہیں ان میں کا ہر خطاکار ایک سال کے اندر جیل میں ہوگا اور جو پاک صاف ہیں وہ پارلیمنٹ کی رونق بڑھائیں گے۔

اس بات کو تین سال سے بھی زیادہ عرصہ ہوگیا۔ آج ہمارے سامنے ایک اخبار ہے جس میں ایک کنارے پر چھوٹی سی خبر ہے جس کی سرخی ہے ’’داغی ممبران کو بچانے کیلئے مودی حکومت کمربستہ؟‘‘ خبر میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے گذارش کی ہے کہ جن اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کو فوجداری کے مقدمہ میں مجرم قرار دیا جاتا ہے انہیں نااہل قرار دیئے جانے سے پہلے اپنی بات کہنے کا ایک موقع ضرور دیا جانا چاہئے۔

یہ تو یاد ہوگا کہ جب یہ قانون آیا تھا تو منموہن سرکار نے اس کے خلاف نوٹیفکیشن کابینہ میں پاس کیا تھا اور دستخط کے لئے صدر جمہوریہ کی خدمت میں بھیج دیا تھا۔ اس وقت سب سے زیادہ بی جے پی نے ہی ہنگامہ کیا تھا اور غالباً ونکیا نائیڈو کی قیادت میں پارلیمنٹ کے ممبروں کا ایک بہت بڑا وفد صدر کے پاس گیا تھا کہ اسے منظور نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی غیرکانگریسی پارٹیوں نے کانگریس پر طنز کئے تھے۔ اب یہ تو نہیں معلوم کہ سونیا گاندھی کے اشارہ سے یا خود راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں اس کے خلاف ایسا شور مچایا جیسے یہ ان کی پارٹی کا نہیں حزب مخالف کا فیصلہ ہے انہوں نے ہی کہا کہ اسے پھاڑکر پھینک دینا چاہئے۔ جس وقت راہل گاندھی اس کے خلاف بول رہے تھے اس وقت وزیراعظم منموہن سنگھ امریکہ میں تھے اور صرف آدھے گھنٹے کے بعد صدر اوبامہ سے ملنے والے تھے۔

وزیراعظم جب واپس آئے تو پھر کابینہ نے اسے واپس لینے کا فیصلہ کیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ کانگریس کے ایک پرانے ساتھی قاضی رشید مسعود کی راجیہ سبھا کی رکنیت ختم ہوگئی اور انہیں جیل بھی جانا پڑا اور اسی قانون کی وجہ سے لالو یادو چھ سال کے لئے الیکشن لڑنے کے نااہل قرار دیئے گئے۔

آج وزیراعظم اپنی ہر کمان سے کانگریس حکومت پر طنز کے تیر پھینک رہے ہیں اور خود کا یہ حال ہے کہ جس تقریر پر انہیں پورے ملک نے مبارکباد دی تھی اور سب کی آنکھیں لگی تھیں کہ دیکھیں کہ کون کون ممبر داغی قرار دے کر جیل جاتا ہے وہ سب کے سب اب دیکھ رہے ہیں کہ نریندر مودی نام کے پاک صاف لیڈر پارلیمنٹ کے داغی ممبروں کے گوموت سے بھری ہوئی چادریں لپیٹے کھڑے ہیں اور انہیں پارسا ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں۔

اگر مودی جی نے وہ تقریر جذبات میں کردی تھی اور بعد میں کسی نے توجہ دلائی تھی کہ جب داغی جیل چلے جائیں گے تو آپ کس کے بل بوتہ پر وزیراعظم رہیں گے تو پھر خاموش ہوجانا بھی کم درجہ کا گناہ نہیں تھا لیکن یہ تو آخری درجہ کی بات ہے کہ اب لاٹھی لے کر ان داغی ممبروں کی حمایت میں سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہیں اور ان کی وہ تقریر جو سونے کے پانی سے لکھنے والی تھی اسے بھی کالے دھن میں سے پندرہ پندرہ لاکھ ہر کھاتہ میں جانے والا انتخابی جملہ جیسا مذاق بنائے دے رہے ہیں اور ایک منٹ کے لئے بھی یہ نہیں سوچ رہے کہ جو مخالفت ان کی ہر بات کو جھوٹ ثابت کررہے ہیں ان کے ہاتھ میں مودی نے سب سے خطرناک ہتھیار دے دیا اب 2019 ء میں ان کی کسی بات پر کون یقین کرے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔