اظہارِ غم اور اسلامی تعلیمات

مولانا محمد غیاث الدین حسامی

  اللہ تبارک و تعالی نے اس دنیا کو اضداد سے مرکب بنایا ہے، یہاں دن کی روشنی ہے تو رات کی تاریکی بھی، صبح کی ٹھنڈی ہوائیں ہیں تو دھوپ کی تمازت بھی، پھولوں کی لطافت ہے تو کانٹوں کی چبھن بھی، موم کی نرمی ہے لوہے کی سختی بھی، علم کی روشنی ہے تو جہالت کی تاریکی بھی، نیکی و ہدایت ہے تو بدی و ضلالت بھی، غرض یہ کہ اللہ نے دنیا کی چیزوں کو مختلف اضداد کا مجموعہ بنایا ہے، انہی میں سے خوشی اور غم بھی ہیں، خوشی اور غم انسانی زندگی کی دو حالتیں ہیں جو انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اللہ تبارک و تعالی نے زندگی کے توازن کو برقرار رکھنے کےلئےانسان کے اندر یہ دو حالتیں رکھی ہیں، انسان کا دل نعمتوں کے حصول پر خوشی و مسرت کی کیفیت سے اچھلتا اور کودتا ہے تو اس کی چھن جانے پراس کے دامن ِمسرت کے پھول مرجھاجاتے ہیں، خوشیاں زندگی میں بہار اور تازگی لاتی ہیں تو غم اس بہار کو خزاں میں تبدیل کردیتا ہے، انہی دو کیفیات میں زندگی گذار تے ہوئےانسان کبھی خوشی و مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے تو کبھی رنج وغم سے اپنے آپ کو ملول پاتا ہے، کبھی خوشیوں کے اسباب کو مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہےتو کبھی تکلیف و غم کے حالات کو دور کرنے کی فکر کرتا ہے، یہ دو حالتیں انسان کی آخری سانس تک اس کے ساتھ وفادار ساتھی کی طرح رہتے ہوئے اپنا کردار نبھاتے ہیں۔

 اِسلام دین ِفطرت اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، یہ دین انسانی فلاح و بہبود کا ضامن، دنیاوی زندگی میں امن و سکون اور اخروی زندگی میں راحت وآرام کا ذریعہ ہے،جس طرح اس نے زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی رہبری کی، وقت اور حالات کےتقاضوں کے مطابق احکامات دیئے اسی طرح رنج و راحت، خوشی اور غم کے وقت بھی رہنمائی کی ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالی نے یہ پیغام دیا ہے کہ خوشی اور غم کے وقت بندے کو چاہئے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرے اور یہ بات ذہن میں رکھے کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس طرح خوشی کے موقع پر اللہ کی محبت میں جذبات سے دل بھر آتا ہےاسی طرف غم کے موقع پر یہ دھیان رہےکہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا :ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے، اے محمد ﷺ صبرکرنے والوں کو خوشخبری دےدو( البقرۃ 155)اس خداوندی فرمان سے یہ ثابت ہوا کہ تکلیف اور غم کے حالات انسان کو پیش آئیں گے ایسے موقع پر صبر و استقامت کے دامن کو تھامے رکھنا اورزبان پر حرفِ شکایت نہ لانا اور غیر شرعی اعمال و حرکات سے بچتے ہوئے اسلامی حدود کی پاسداری کرنا ایک سچے اور حقیقی مومن کی علامت ہے، اس کے برخلاف غم کے اظہار کے لئے تھوڑی دیر خاموش رہنا‘ جھنڈے سرنگوں کرنا،سیاہ پٹیاں باندھنا،نوحہ کرنا، چلاّ چلاّ کر رونا، گریباں چاک کرنا، سینہ ٹھوکنا، گال نوچنا، اپنے کو زخمی کرنا، چوڑیاں توڑنا، ماتمی دھن بجانا وغیرہ ناجائز اور حرام ہیں. ان تمام باتوں سے اسلام سختی سے منع کرتا ہے ؛ ہاں اگر کسی کے غم میں غیر اختیاری یا فطری طور پر بے ساختہ آنسو نکل پڑیں تو صرف اس کی اجازت ہے، جیسا کہ آپ ﷺ کے فرزند حضرت ابراہیم کے وصال پر آپ ﷺکے آنکھوں سے جاری ہوگئے تھے، حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے ساتھ تھے جب ابن ِرسول ابراہیم کی روح پرواز کررہی تھی اورآپﷺ ابراہیم کو اٹھائے ہوئے تھے، آپ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہ رہے تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے کہا : یا رسول اللہ آپ بھی روتے ہیں تو حضور ﷺنے فرمایا: اے ابن عوف! یہ رحمت ہےپھر فرمایا: بے شک آنسو بہتے ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم وہی بات کہتے جس میں اللہ کی رضا ہو‘ اور اے ابراہیم تیری جدائی کی وجہ سے ہم غمگین ہیں (بخاری، باب انا بک لمحزونوں، حدیث نمبر1303)

 اسلام سے پہلے بھی لوگ سوگ وماتم کے کچھ ایسے طریقے ایجاد کرلئے تھے جو نہ صرف قدیم مذاہب کے لحاظ سےبلکہ انسانی فطرت کے اعتبار سے نامناسب اور ناپسندیدہ تھےمثلاً : نوحہ اور گریہ وزاری کرنا،کپڑے پھاڑنا اور رونا پیٹنا وغیرہ ؛لیکن اسلام کے آنے کے بعدآپ ﷺ نے ان تمام کاموں  سے منع کیااور سختی سے ارشاد فرمایا کہ جو ماتم کےلئے سر کے بال منڈالے،چلا کے روئے اور کپڑے پھاڑ لے،میں اس سے بری ہوں، (بخاری، باب ما ینہی من الحلق، حدیث نمبر۱۲۹۶) اسکے بجائے یہ حکم دیا گیا کہ مصائب اور پریشانی کے وقت صبر اور نماز کی طرف رجوع ہوجاؤ اور اسی کے ذریعہ اللہ کی مدد چاہوچنانچہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا :’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ (البقرہ۱۵۳) صبر و شکر ایک مسلمان کے اندر خوشی کے جذبات پیدا کرتا ہے، اس کے علاوہ جہالت و اخلاقی قدروں کی پامالی انسانی فطرت میں دکھ و غم کا باعث بنتی ہےاسلئے رسول اللہ ﷺ نے دکھ اور رنج، تکلیف و پریشانی میں اضافہ کرنے کے وہ تمام راستہ اور ذرائع مسدود کردیئےجو انسانی زندگی کو بے حس و جان بنادیتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺنےاپنی احادیث میں ارشادفرمایا:جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے، البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے (بخاری، باب احداد المرأۃ علی غیر زوجہا، حدیث نمبر ۱۲۸۰) اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ حضور ا نے شوہر کے علاوہ کسی کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں دی‘ صرف بیوی کو چار ماہ دس دن (عدت گزارنے) کے لئے شوہرکی وفات پر غم منانےکی اجازت دی ہے۔ (جدید فقہی مسائل‘ ج:۱‘ص:۳۰۶) نیز حضرت عبداﷲ بن عباسؓبیان کرتے ہیں کہ زینب بنت رسول اﷲﷺ کاجب انتقال ہوا تو عورتیں رونے لگیں، حضرت عمرؓنے انہیں سختی سے روکنے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ سےمنع کیا اور فرمایا: اے عمرانہیں چھوڑدو پھر فرمایا: اے عورتو! شیطانی آواز سے پرہیز کرنا پھر فرمایا:جس غم کا اظہار آنکھ اور دل سے ہو، وہ اﷲ کی طرف سے ہے اور رحمت ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو، وہ شیطان کی طرف سے ہے (مسند احمد، باب مسند عبدا للہ بن عباس، حدیث نمبر۳۱۰۳)

اسی طرح حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے، گریبان پھاڑے اور ایام جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے (بخاری، باب لیس منا من شق الجیوب، حدیث نمبر۱۲۹۴)اس حدیث میں آپ ﷺ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ مرنے والے کے غم میں اپنا چہرہ اور گالوں کو پیٹنا، کپڑے پھاڑنا، اللہ کے لئے نازیبا کلمات کہنا، بے صبری کا مظاہرہ کرنا یہ سب ہمارا طریقہ نہیں ہے،یہ تمام کام حرام اور ناجائز ہیں، ان کاکرنے والا سخت مجرم،حضرت ابو مالک اشعری ؓکہتے ہیں کہ پیارے حبیب ﷺ نے فرمایا:میری امت میں زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں ہیں جن کولوگ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسرے شخص کو نسب کا طعنہ دینا، ستاروں کو بارش کا سبب جاننا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن گندھک اور جرب کی قمیص پہنائی جائے گی (مسلم، باب التشدید فی النیاحۃ، حدیث نمبر ۲۹)

اسی طرح ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے تو یہاں تک ارشاد فرمایاکہ نوحہ کرنا کفر کی خصلت ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں، کسی کے نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا (مسلم حدیث 67، کتاب الایمان)اس حدیث میں نوحہ کو کفر قرار دیا گیا ہےلیکن علماء اس کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حلال سمجھ کر میت پر نوحہ کرنا کفر ہے اور اگر اس کام کو برا سمجھ کر کیا جائے تو یہ بھی حرام ہے،اسی طرح نوحہ اور ماتم کی آوازوں کو ناپسندیدہ آواز کہا گیا چنانچہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:دو آوازوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے، نعمت کے وقت گانا بجانا اور مصیبت کیوقت چلا کر آواز بلند کرنا یعنی نوحہ اور ماتم وغیرہ کرنا(مسندبزار، باب مسند ابی حمزۃ انس بن مالک، حدیث نمبر ۷۵۱۳)نیزفقہاء کرام نے بھی اس کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے‘ چنانچہ عبد الرحمن الجزیری لکھتے ہیں :مالکیہ اور احناف کے ہاں میت پر بلند آواز اور چیخ وپکار کے ساتھ رونا حرام ہے اور شافعیہ وحنابلہ نے اسے مباح قرار دیا ہے‘ ہاں بغیر چیخ کے آنسو نکلنا بالاتفاق مباح ہے اور اسی طرح ندب یعنی میت کے محاسن واجملاہ اور واسنداہ جیسے اقوال وغیرہ کے ذریعے بیان کرنا بھی ناجائز ہے (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ ج:۱‘ ص:۴۸۴)نیزفقہاء نے اس مقصد کے لئے سیاہ کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے، فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے:

وَلَا يَجُوزُ صَبْغُ الثِّيَابِ أَسْوَدَ أَوْ أَكْهَبَ تَأَسُّفًا عَلَى الْمَيِّتِ قَالَ صَدْرُ الْحُسَامِ لَا يَجُوزُ تَسْوِيدُ الثِّيَابِ فِي مَنْزِلِ الْمَيِّتِ، كَذَا فِي الْقُنْيَةِ.

میت پر ماتم کرتے ہوئے کپڑے کو سیاہ رنگ میں رنگنا جائز نہیں ہے،نہ یہ جائز ہے کہ میت کے گھر کے کپڑے سیاہ رنگ میں رنگ دیئے جائیں (فتاوی ہندیہ۵؍۳۳۳)

مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒتعزیہ اور دور جدید کے مرثیہ وغیرہ کے متعلق فرماتے ہیں :تابوت کی تعزیہ کرنا، مرثیہ پڑھنا‘ مرثیہ بنانا،مرثیہ سننا اور فریاد ونوحہ کرنا‘ چھاتی پیٹنا اور گلا نوچنا یہ سب ناجائز ہیں ( فتاوی عزیزیہ‘ ص:۱۹۵)ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ: مرثیہ وکتاب پڑھنا جس میں احوال واقعی نہ ہوں، ناجائز ہے اور ایسا ہی نوحہ کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے اور حدیث میں اس بارے میں وعید ہے۔ (فتاوی عزیزیہ‘ ص:۱۸۸)چنانچہ حدیث شریف میں ہے:حضرت ابو سعید خدریؒ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ لعنت فرمائی حضورﷺنے نوحہ کرنے والی پر اور اس عورت پر جو نوحہ سنے(مشکوٰة المصابیح‘ ‘ ص:۱۵۱)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ دور حاضر کے غیر شرعی اور رسمی طور پر اظہار غم کے طریقے مثلاً:، تھوڑی دیر خاموش رہنا،سیاہ پٹیاں باندھنا،جھنڈے سرنگوں کردینا وغیرہ اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے، پھر یہ کہ اوپر کی تمام آیات و احادیث اور فقہاءکرام کی عبارتیں عام میت کے بارے میں تھیں جب کہ شہداء کا مقام و مرتبہ اس سے مختلف ہے، شہداء کے لئے قرآن و حدیث میں بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، شہداء اللہ کے مہمان ہوتے ہیں، ان کے ساتھ بہت ہی اکرام و اعزاز کابرتاؤ کیاجاتا ہے، اور پوری جنت ان کے لئے کھول دی جاتی ہے، بڑے ہی آرام و سکون سے وہ جنت کی سیر کرتے ہیں، قرآن مجید میں شہداءکے اونچے مقام اور اطمنانی کیفیت کو اس طرح بیان کیا گیا:جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئےہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں (البقرۃ ۱۵۴)

ایک اور مقام پر شہید کی فضیلت بیا کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا :جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کےپاس کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں ان نعمتوں پر جو اللہ تعالی نے اپنے فضل سےان کو عطا فرمائی ہے اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتےہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے۔ ( آل عمران۱۶۹تا ۱۷۱)اور احادیث میں رسول اللہ ﷺنے شہدا ءکے فضائل ان الفاظ میں بیا ن کئے ہیں ؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے۔ ( مسنداحمد )

حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ان سے خون بہہ رہا ہوگا وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے پوچھا جائے گا یہ کون ہیں۔ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی ( مجموعہ الزوائد ) حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے فرمایا جب تمھارے بھائی احد کے دن شہید ہو گئے تو اللہ تعالی نے ان کی روحیں سبز پرندوں میں داخل فرما دیں وہ جنت میں نہروں پر اترتے ہیں اور جنت کے میوے کھاتے ہیں اور وہ عرش کے سائے کے نیچے سونے کی قندیلوں پر بیٹھتے ہیں جب انہوں نے بہترین کھانا پینا اور آرام گاہ پالی تو انہوں نے کہا کون ہے جو ہمارے بھائیوں کو ہماری خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور کھا پی رہے ہیں تاکہ وہ جہاد کو نہ چھوڑیں اور لڑائی میں بزدلی نہ دکھائیں اللہ تعالی نے فرمایا میں تمھاری خبر ان تک پہنچا دیتا ہوں جنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائی ولا تحسبن الذین قتلو فی سبیل اللہ امواتا  ( ابوداؤد۔ )

 مذکورہ تمام آیتوں اور احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ اسلام میں شہادت ایک اونچا رتبہ اور اعلی مقام ہے،اور شہادت کو وہ مقام حاصل ہے کہ (نبوّت و صدیقیت کے بعد) کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا،شہادت سے ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدہٴ عالم پر ثبت رہتا ہے، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھندلا سکتا، اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دُنیا تک قائم و دائم رہتے ہیں، شہداء کے ان اونچے مقام اور اعلی مراتب کے پیش نظر یہ بات کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہ ان کے ماتم کا اہتمام کیا جائے اور نوحہ کی مجلسیں سجائی جائیں، اگر کوئی مسلمان شریعت کے واضح احکامات کے باجود بھی ان غیر شرعی امور سے اجتناب نہیں کرتا تو پھر ایسے لوگوں پر حضورﷺ کایہ فرمان بالکل صادق آتا ہے کہ: ”من تشبہ بقوم فہو منہم“ یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے‘ لہذا جو اغیار کی رسم اپناتا ہے‘ وہ اغیار ہی میں سے شمار کیاجائے گا، اللہ تبارک و تعالی ہمیں حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی اور اسلامی حدود میں رہتے ہوئے اظہار غم کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔