اردو کے فوجی کم اور سپہ سالار زیادہ: خدا محفوظ رکھے اس زباں کو

صفدر امام قادری

  اردو اور اقلیت کے مسائل کچھ ایسے گتھم گتھا اور الجھے ہوئے ملتے ہیں کہ ماہرین بھی نتائج تک پہنچنے میں بہت کچھ صحیح راستے کی تلاش کرنے میں معذور نظر آتے ہیں ۔ مسئلہ وہاں سب سے پیچیدہ نظر آتا ہے جب ہر شخص کو دوسرا مجرم اور گنہ گار نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو اپنی پاک دامنی کے جادو میں گرفتار ہمیں دوسروں میں کھوٹ ہی کھوٹ دیکھنے کی عادت راس آگئی ہے۔ اس لیے اردو کی جس تقریب میں جائیے یہ عجیب و غریب صورت حال سامنے آتی ہے کہ جو فیصلہ کُن مقامات پر متمکن ہیں ، ان کی نگاہ میں عام لوگ یا ان کے علاوہ دوسرے افراد اردو کے بہی خواہ یا حقیقی محبت دار نہیں ہیں ۔ سارا قصور سامنے والے کا ہے ۔ قیادت کرنے والے مضمحل اور دُکھی ہیں کہ عوام اردو کے تئیں سنجیدہ نہیں ۔

 ملوکیت کے زمانے کا بڑا مشہور فقرہ ہے کہ بادشاہ سلامت ہمیشہ راست پر ہوتا ہے۔ اردو کے پورے ملک میں موجود عہدے داروں اور حکومت یا سماج کے عربوں روپے اردو کے نام پر خرچ کرنے کے ذمہ دار افراد کی زبان سے اردو کے احوال پر ان کی گل افشانیِ گفتار سنیے تو معلوم ہوگا کہ اردو کے لوگ ان کے کاموں کے قدرداں نہیں ۔ ان کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اردو والے اپنی زبان کے سچے خدمت گار نہیں ہیں اور اس سے انھیں محبت نہیں ہے۔ جب بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ ایسے سوال اٹھائیں تو اگر بادشاہت کا زمانہ ہوتا تو کس کو اس سے انکار کی ہمت ہوتی۔ مگر دو صدیوں سے زیادہ پہلے سے دنیا میں جمہوری نظام کی دھمک مخالف ہوائوں کے باوجود اتنی بااثر ثابت ہوئی کہ آج ہم بادشاہوں کو بار بار عوام کی جوتیوں سے روندتے ہوئے اور ملیا میٹ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔

 سوال یہ ہے کہ اردو کے ہر معاملے پہ مسند نشیں حضرات کو عام اردو والوں سے شکایت کیوں ہوتی ہے۔ ملک کا وزیر اعظم یا صدر روزانہ یہ کہنے لگے کہ ملک کی غریبی اور مفلوک الحالی کے ذمہ دار عام عوام ہیں تو اندازہ کیجیے کہ اگلے الیکشن میں اسے بھیک کے کٹورے میں بھی ایک ووٹ نہیں ملے گا۔ قیادت کے یہ معنی ہوئے کہ آپ آگے تک نظر دوڑائیں ، حقیقی مسائل پر نگاہ ہو، علاج کا واضح تصور ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو افادہ کے لیے انھیں ساتھ لے کر چلنے کی قوت پیداکریں ۔ مگر یہاں صرف قائد کو اپنی قیادت کی فکر ہے۔ قائد کو یہ عادت ہوگئی ہے کہ دوسروں پر بے جا تنقید کا نشانہ سادھے مگر اپنے کاموں کا نہ خود احتساب کرے اور نہ ہی دوسرے کے احتساب کو نگاہ میں رکھے۔

 ملک میں سارے شعبہ ہاے اردو رفتہ رفتہ اس وجہ سے زوال کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں کیوں کہ ان کے پاس یہ بات ہمیشہ بتانے کی ہوتی ہے کہ آج کی نسل اردو سے بے رغبتی میں مبتلا ہے۔ انھیں اپنی زبان سے محبت نہیں ہے۔ مگر ان شعبہ ہاے اردو کے سربراہوں کو یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ بے رغبتی کو دور کرنا اور مادری زبان سے محبت کا شعور پیدا کرنا بھی انھی کی ذمہ داری تھی۔ اکثر اردو اکادمیاں اس کام کے لیے شہرت رکھتی ہیں کہ سرکار سے حاصل شدہ عوام کی گاڑھی کمائی کی رقم ادھر ادھر تقسیم کرکے خیر خواہی کا فریضہ ادا کرلیں ۔ کچھ ناکارہ اردو اکادمیاں تو ایسی ہیں کہ انھیں چند ادبی، سیاسی، نیم سیاسی لوگوں کو انعامات دے کر دم سادھ لینا ہی اپناکام معلوم ہوتا ہے۔

   قومی اردو کونسل نے جب سے بڑے پیمانے پر کتابوں کی اشاعت کا کا م اپنے ذمے کر لیا اس کے بعد اکثر و بیش تر اردو اکادمیاں اس طرح کے اچھے کاموں سے خود کو دور کرتی چلی گئیں ۔ اتر پردیش اردو اکادمی جو کبھی اپنی درسی کتابوں اور بہترین مطبوعات کے لیے شناخت رکھتی تھی، اس کی سرگرمیاں بھی ایک خاصی مدت سے تقریباً منجمد ہیں ۔ بہار اردو اکادمی، مدھیہ پردیش اردو اکادمی، راجستھان اردو اکادمی اور کرناٹک اردو اکادمی کی تھوڑی بہت معقول سرگرمیاں نظر آتی ہیں مگر یہاں بھی غیر جمہوری طریقۂ کار کی وجہ سے ہر علاقے میں کچھ نہ کچھ سوالات قائم ہوتے رہتے ہیں اور ذاتی پسند ناپسند کو کچھ اس طرح ضابطے کا سرنامہ بنادیا جاتا ہے جہاں سے پھر ڈھلان شروع ہوجاتی ہے۔

  بہار اردو اکادمی کی خواتین کانفرنس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ناول نگار ثروت خاں نے اکیسویں صدی کی نسائیت کی اس دانش ورانہ جہت کو عام کرنے کی کوشش کی جس کی رو سے بیسویں صدی کے ابتدائی دور کی رقیق القلبی اور عورتوں کی روتی بسورتی، ایک دوسرے سے جھگڑتی تصویر کشی معدوم ہوگئی اور یہ بات سمجھ میں آئی کہ اردو معاشرے کی نئی عورتیں اسی طرح فکر و خیال کے پروں سے حدِ پرواز سے آگے اُڑ رہی ہیں جس طرح دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور زبانوں کی لکھنے والیاں ہیں۔ حقائق اور فکر و خیال کی ٹھوس زمین پر اپنے تخلیقی اور تنقیدی کارناموں سے اردو کی نئی خواتین اتنی مستحکم نظر آتی ہیں جیسے دوسرے مرد لکھنے والے۔ آج کے نسائی شعور کی یہ وہ عبارت ہے جو فصیلِ وقت پر روشن تر نظر آرہی ہے۔

  بہار اردو اکادمی کے اس جلسے کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز نقاد، محقق اور انشاپرداز شخصیت، بہار اردو اکادمی کے نائب صدر اور پٹنہ یونی ورسٹی کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر اعجاز علی ارشد نے آر کے کرنجیا کے اقلیت آبادی کے بارے میں پیش کردہ ایک قول کو دہراتے ہوئے اس کا انطباق اردو پر اس طرح کیا کہ ہماری زبان میں سپہ سالار زیادہ ہوگئے ہیں اور فوجی کم ہیں ۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بہار اردو اکادمی یا ایسے دوسرے اداروں کے کام کاج پر نشانہ بنانے والے لوگ بڑھ گئے ہیں جبکہ زبان سے محبت کرنے والے افراد کم ہوگئے ہیں ۔ بات سادگی میں بے حد معقول معلوم ہوتی ہے مگر اداروں کے سربراہ جمہوری دور میں تنقید اور تبصرے پر طنز و طعن کریں تو اس کا یہ مطلب صاف ہے کہ ان میں کشادہ قلبی اور تبادلۂ خیال یا مباحثہ اور مجادلہ سے گریز کا کوئی نہ کوئی رویہ گھر کر گیا ہے۔ جس کی سرحدیں ضد، بے انصافی اور بالآخر ادارے کی بے اعتباری تک پہنچتی ہیں ۔

 دنیا کے کسی بھی نظام میں عام لوگوں پر یہ شبہ کرنا کہ وہ اپنی مادری زبان کے شیدائی نہیں اور اس سے حقیقی محبت نہیں کرتے، یہ ایمان کی بات نہیں ۔ قیادت کا یہ عجیب مسئلہ ہے کہ اسے سامنے والا ہمیشہ نامعقول ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات بہار سے لے کر تمل ناڈو تک اور کشمیر سے لے کر مہاراشٹر تک کے اردو اداروں پر آپ نافذ کرسکتے ہیں ۔ آپ اگر اچھا کام کررہے ہیں تو دس بیس تعریفیں بھی ہوں گی مگر اس میں کوئی کھوٹ ہے تو اس کی نشاندہی پر جز بز ہونے کی ضرورت کیا ہے۔ پھر آپ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی دوسرا سپہ سالار یا قائد پیدا ہی نہیں ہوگا۔ اللہ کا حکم ہے کہ اپنے دین کی حفاظت وہ کسی سے بھی کرالے گا اور اسی لیے صنم خانے سے بھی کعبے کے پاسباں مل جاتے ہیں ۔اس لیے اگر آپ قیادت کی بے کھوٹ ذمہ داری ادا نہیں کرسکتے تو کوئی نیا قائد عام لوگوں کی صفوں سے نکل آپ کے برابر یا آپ سے آگے جا سکتا ہے۔ یہ قانونِ قدرت اور ہر شعبۂ حیات کا حقیقی اصول ہے۔

اردو اور اقلیت کے معاملات میں دو اصول ہم نے ایمان کی طرح سے آزمائے ہیں ۔ اپنے مجموعی حالات پر ماتم کرنا اور عام عوام یا اپنے معاشرے پر طنز کے تیر چلانا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب خواتین کے ادب کے اصولی پہلوئوں سے گفتگو ہورہی ہو اور ان کی دانش ورانہ جہات پر غور و فکر کا ایک خوش گوار ماحول بن رہا ہو، ایسی محفل میں بھی وہی طنز و طعن اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی مہم یہاں بھی چل رہی ہے۔ بہار اردو اکادمی کی ایک تاریخی حیثیت ہے اس لیے اس کی بڑی تقریبات میں ایسے سوال و جواب اور طنز و طعن لازم نہیں ۔ پورے ملک کے افراد کو بلا کر مقامی سیاست کے سوالوں کے عوامی جواب پیش کرکے بڑے کاموں کے وقار میں تخفیف کا یہ عمل کسی جہت سے بھی پسندیدہ نہیں مانا جانا چاہیے۔

بے شک اردو کا ہر طالب علم اگر خود کو استاد اور سپہ سالار اور بادشاہ سلامت سمجھ رہا ہے تو اس میں وہ کس کا حق مار رہا ہے کہ جبینوں پر شکنیں پیدا ہورہی ہیں ۔ اچھا تو یہ ہے کہ سب پیادوں کو ہمارے اساتذۂ کرام ایسی تربیت دیں کہ وہ فوجی تو ہوں ہی، فوج کی قیادت کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوجائے اور جب ان کی مقدر کی تختی پر بادشاہت کا تمغہ آویزاں ہونے کی نوبت آئے تو وہ اسے بھی کامیابی کے ساتھ نبھاسکتے ہوں ۔ اب نئی قیادت کا وقت آیا چاہتا ہے۔ اقبال کہتے کہتے رخصت ہوگئے: ’’تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور+ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر‘‘ اور وہ قوم کے بکھراو کا سبب بھی بتا گئے: ’’کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے+کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی‘‘۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ عام صفوں سے لے کر قائدین تک میں یہ ہنر آجائے : ’’نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز+یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے‘‘ ۔

تبصرے بند ہیں۔