دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے!

عبدالعزیز

ہرش مندر (Harsh Mander) گجرات کے رہنے والے ہیں ۔ وہ مودی حکومت میں آئی اے ایس افسر تھے مگر 2002ء کے گجرات کے فسادات میں حکومت کا خونی رویہ دیکھ کر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور سماجی کارکن کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ آج وہ تشدد اور فساد سے متاثر افراد کیلئے کام کرتے ہیں ۔ غریب اور افلاس زدہ کیلئے بہتر زندگی کی جدوجہد کرتے ہیں ۔ بے گھر افراد اور راستہ کے بچوں کو بسانے کا کام بھی کرتے ہیں ۔ سنٹر فار ایکوٹی اسٹڈیز (Centre for Equity Studies) کے ڈائرکٹر ہیں ۔ ان کی عمر 62سال ہے۔ 17 اپریل 1955ء میں شیلونگ میں پیدا ہوئے۔ موصوف آر ایس ایس اور بی جے پی کے غیر انسانی نظریات کے سخت خلاف ہیں۔

 گزشتہ سال کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے سلور جبلی فنکشن کے موقع پر انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ طوفانوں سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اس کا بہتر اور اچھے ڈھنگ سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ انسانوں سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان میں بھلائی اور محبت کا جذبہ فساد اور فتنہ ، سازش اور لڑائی جھگڑے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے پھر انھوں نے اپنے کاموں کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ گودھرا میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے ترشول کے مظاہرہ کا اعلان کیا جس کے نتیجہ میں دو ڈھائی سو افراد جمع ہوئے۔ اس کے جواب میں انھوں نے احمد آباد کے ایک علاقہ میں محبت اور اخوت کے مظاہرے میں لوگوں کوشرکت کی دعوت دی۔ اس کے نتیجہ میں دو ڈھائی ہزار افراد اپنے ہاتھوں میں گلاب پھول لے کر شریک ہوئے۔

آج (24ستمبر) کے ’دی ٹیلیگراف‘ میں خبر ہے کہ ہرش مندر کو محکمہ انکم ٹیکس کی طرف سے نوٹس دیا گیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت دیا جارہا ہے جب وہ کاروانِ محبت لے کر ملک بھر میں ایسے لوگوں کے خاندان اور لواحقین سے ملنے کیلئے نکلے ہیں جو شرپسندوں کی سرگرمیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت موصوف ہریانہ اور راجستھان کے دورے پر ہیں ۔ ہریانہ کے ضلع الور کے شہید پہلو خان کے خاندان والوں سے چند دنوں پہلے ملاقات کی ہے تاکہ ان کو دلاسہ دے سکیں اور ان کی قانونی اور اخلاقی مدد بھی کرسکیں۔

 انھوں نے ایک بیان میں کہاکہ انھیں پہلو خان کے خاندان والوں سے ملاقات اور ایک ٹی وی ڈیبیٹ میں شرکت کے بعد محکمہ انکم ٹیکس نے نوٹس بھیجا ہے۔ ہریانہ کے پہلو خان دودھ کے کاروباری تھے۔ انھیں شرپسندوں نے دودھ دینے والی گائے خرید کر لے جانے کی پاداش میں قتل کردیا۔ اس وقت راجستھان اور ہریانہ کی پولس نے پہلو خان کی موت کے موقع پر دیئے گئے بیان Dying Decleration اور ایف آئی آر کے باوجود ان چھ لوگوں کو کلین چِٹ دے دیا ہے جن کا نام ایف آئی آر اور پہلو خان کے بیان میں شامل ہے۔

ہرش مندر نے یہ بیان دیا ہے کہ آر ایس ایس کے راکیش سنہا نے انھیں ٹی وی ڈیبیٹ کے دوران دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ میں آر ایس ایس کے فلسفہ کے خلاف ہوں ۔ میں نے زور دے کر کہا تھا کہ یقینا میں آر ایس ایس کی آئیڈولوجی کو ناپسند کرتا ہوں کیونکہ وہ ملک کے دستور کے علی الرغم ملک میں ہندو راشٹر (ہندوؤں کی حکومت) قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر سنہا نے کہا تھا کہ ’’آپ کے (ہرش مندر) ادارہ کی جانچ ہوگی۔ آج سنہا نے محکمہ انکم ٹیکس کی نوٹس پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہرش مندر نے اپنے ملازمین کے ساتھ غلط برتاؤ کیا ہے۔ کچھ لوگ آر ایس ایس کی مخالفت کرکے اپنے گناہوں اور غلطیوں کو چھپانا چاہتے ہیں ‘‘۔ سنہا نے اپنی بحث میں یہ بھی کہاتھا کہ جو لوگ پہلو خان کے قتل کا ذمہ دار سنگھ کے لوگوں کو ٹھہراتے ہیں اس پر ہمیں اپنا رد عمل ضرور ظاہر کرنا ہے۔

 ہرش مندر نے کہاکہ انکم ٹیکس کے نوٹسوں کا وہ جواب دیں گے اور تحقیق و تفتیش کے معاملے میں خوش دلی سے معاونت کریں گے۔ لیکن میں یہ اچھی طرح سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ایسی کسی بھی پارٹی یا ادارہ سے مصالحت نہیں کروں گا جو دستورِ ہند کے خلاف کام کر رہا ہے۔ میں ایسے ادارہ اور جماعت کی پالیسی اور آئیڈولوجی کی سختی کے ساتھ مخالفت کرتا رہوں گا۔ کوئی طاقت میری آواز کو بند نہیں کرسکتی۔

آر ایس ایس اور بھاجپا کو اپنی آئیڈولوجی کو عملی جامہ پہنانے کی طاقت مل گئی ہے، اس لئے ان کے حوصلے بلند ہیں ۔ جو بھی ان کی راہ میں آڑے آتا ہے اسے یا تو خرید لیتے ہیں یا حکومت کے کارندوں اور مشنری کے ذریعہ اس پر ہر قسم کا دباؤ ڈالتے ہیں تاکہ اس کی آواز بند ہوجائے۔ وہ خاموشی اختیار کرلے ۔ گجرات کی تیستا شیتلواد کے ساتھ بھی حکومت اور حکمراں جماعت کا یہی رویہ ہے مگر وہ خاتون ہوتے ہوئے بھی گزشتہ دو ڈھائی سال سے حکومت سے قانونی لڑائی لڑ رہی ہیں ۔ ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ اب ہرش مندر کو خاموش کرنے کی سرکاری کوشش شروع ہوگئی ہے۔

میرے خیال سے جو لوگ حیوانوں اور وحشیوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں ان کو اپنی جیت اور کامیابی پر یقین ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ’’دشمن قوی است مگر نگہ بان قوی تر است‘‘ (دشمن طاقت ور ہے مگر نگہبانی کرنے والا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے)، اس لئے ایسے لوگوں کے حوصلے پہلے سے بلند ہوجاتے ہیں ۔ کنہیا کمار اور ان کے دوستوں کی یہی مثال ہے۔ حکومت ان کو ان کے دوستوں کو جیل بھیج کر بھی ان کے حوصلے پر پانی نہیں پھیر سکی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ حوصلہ مند اور طاقتور ہوگئے ہیں اور حکومت اور حکمراں جماعت دفاع میں آگئی ہے۔ آج حکومت اور ان کے لوگوں کی نفرت اور کدورت کا مقابلہ محبت اور اخوت سے ہے۔

  آخر الذکر میں زبردست طاقت ہے ۔ اگر وہ جوش اور جذبہ میں بھر پور طریقہ سے آجائے تو نفرت اور کدورت کے خش و خاشاک کو بہا لے جاسکتی ہے اور اسے سمندر کی کھاڑی میں نیست و نابود کرسکتی ہے۔ تاریخ نے دنیا کو یہی سبق دیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔