وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کا جائزہ!

اشرف بستوی

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے ہندوستان دورے کے فورا بعد وزیر اعظم نریندر مودی کے مشرق وسطیٰ کے دورے کو سفارتی معاملات کے بعض  تجزیہ کار بہت کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ یہ  اس لیے نہیں کہ اس دورے میں بڑے اہم تجارتی معاہدے ہوئے ہیں۔  کسی بھی ملک کے وزیر اعظم کے دورے میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہاں کی حکومت سے کن کن امور پر بات ہونی ہے اور کیا  تجارتی معاہدہ کرنا ہے۔ اس دورے کو زیادہ اہم اس لیے قرار دیا جارہا ہے کہ مودی تجارتی معاملات کے ساتھ ساتھ ثقافتی رشتے قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ فلسطین کی جانب سے وہاں کے سب سے بڑے ایوارڈ  ‘طوق کبیر’ سے سرفراز ہونا اور ابوظہبی میں ہندو مندر کا سنگ بنیاد رکھنا اس دورے کی یہ دو چیزیں میڈیا میں کافی توجہ کا مرکز رہیں۔ اس درمیان ہونے والے تجارتی معاہدوں سے  ہندوستان کو کیا ملا اور آئندہ اس کے کیا نتائج ہونگے یہ چیز ثانوی حیثیت سے دیکھی گئی۔ اس سے قبل جب وزیر اعظم نے دوبئی کا دورہ کیا تھا تب بھی مندر کے لیے آراضی کا الاٹمینٹ سرخیوں میں تھا، سعودی عرب کے دورے میں وہاں کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ شاہ عبدالعزیز ایوارڈ زیر بحث رہا۔

ہندوستانی میڈیا کے سبھی حلقوں کی توجہ  انہی امور پر مرکوز رہی کسی نے بھی  وزیر اعظم کے دورے کا دیانت دارانہ تجزیہ کرنے  میں دل چسپی نہیں لی اور اردو میڈیا نے بھی طوق کبیر ایوارڈ اور مندر کی خبرکو نمایاں طور پر جبگہ دی۔ شاید میڈیا کے لیے معاہدوں میں کوئی دلچسپی اس لیے بھی نہیں ہوئی کہ کوئی الگ نوعیت کے معاہدے نہیں تھے، دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کو مل کر لڑنے کا عزم کوئی نیا نہیں ہے، اب یہ دنیا کے ہر سربراہ کے دورے میں گفتگو میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ 2001 کے بعد سے باقاعدہ لازمی طور پر اس موضوع کو شامل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماحولیات کا تحفظ بھی ایک ایسا ایشو بن گیا ہے جو سبھی کے یہاں مشترک ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک دنیا کے یہ ممالک دہشت گردی کی کوئی ایک تعریف کر پانے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ابھی تک دہشت گردی کی تعریف واضح کرنے سے قاصر ہے۔

اسی طرح ماحولیات کا تحٖفظ پر کوئی ترقی یافتہ ملک خود کو پابند کرنے کو تیار نہیں ہے۔  دوبئی کے شاہ شیخ زائد بن النیہان دو سال قبل جب دہلی آئے تھے تو انہوں نے بھی دہشت گردی کی روک تھام پر بات کی تھی۔ اس در میان سعودی عرب کی جانب سے ایک اور پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اس نے اپنے نیشنل کلچرل فیسٹیول جنادریہ میں ہندوستان کو مہمان اعزازی بنایا ہے، سعودی شاہ سلمان نے ہندوستان کا پر جوش استقبال کیا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیر اعظم نے  مودی  دوستی کو آسمانوں میں طے ہوئی دوستی قرار دیا تھا۔  دراصل اس طرح کے جذباتی جملے ڈپلومیٹک تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ہوتے ہیں سب کی اپنی اپنی ضرورت ہوتی ہے، یہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں کبھی اسی طرح کی گرم جوشی کا اظہار سویت یونین سے کیا جاتا تھا اور اب اس کا رخ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے لیے کیا جانے لگا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی یہ ثقافتی ڈپلومیسی ملک کی معیشت کے لیے کس قدر معاون ہوگی وثوق کے ساتھ کچھ بھی کہہ پانا قبل ازوقت ہوگا، وزیر اعظم کا نیا دوستانہ طرز فوری طور پر میڈیا کو  متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے لیکن یہی میڈیا خواطر خواہ نتائج نہ آنے کی صورت میں اس پر سوال کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ جب فلسطین سے طوق کبیر ایوارڈ ملتا ہے تو اس بات کو اردو اخبارات میں نمایاں کیا جاتاہے تاکہ اردو حلقے بھی وزیر اعظم کی مقبولیت کے قائل ہوجائیں اور ہندوستانی مسلمانوں کو بین السطور کئی پیغام پہونچا دیا جاتا ہے۔ یہ موقع ہے کہ وزیر اعظم کی ابتک غیر ملکی دوروں کا ایک جائزہ سامنے آئے۔ معلوم کیا جانا چاہیے کہ وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے نتائج کے اعتبار سے کتنا کامیاب رہے، کیونکہ چار سال گزرنے کے بعد بھی حکومت کے وزرا یہ کہتے دیکھے جا سکتے ہیں کہ ہم اچھے دن لانے کے عہد پر قائم ہیں، نیتی آیوگ کے نائب صدر راجیوکمار کہتے ہیں کہ "نوٹ بندی سے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا یہ اچھے دن کی بڑی علامت ہے”۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔