تیر اندھیرے میں چلایا چل گیا
مقصود عالم رفعتؔ
عشق کا لگتا یے جادو چل گیا
اس کے سانچے میں مرا دل ڈھل گیا
۔
کب تلک رہتا دلیلِ روشنی
شام آئی اور سورج ڈھل گیا
۔
بزم میں الٹا ہی تھا اس نے نقاب
وہ دیا جو بجھ چکا تھا جل گیا
۔
خود سے بیگانہ تھا میں اس بزم میں
اور جب اٹھ کر گیا، بیکل گیا
۔
ہے شکاری خود ہی اب حیرت زدہ
’’تیر اندھیرے میں چلایا چل گیا‘‘
۔
مہرباں کتنا ہے میرا چارہ ساز
زخم پر میرے نمک وہ مل گیا
۔
خانۂ دل ہے معطر اب تلک
عشق کی ایسی وہ خوشبو مل گیا
۔
ہے مری ماں کی دعاؤں کا اثر
غم مرے سر پر جو آیا ٹل گیا
۔
فن میں جو رفعت مجھے حاصل ہوئی
ناقدوں کو دوستو یہ کھل گیا
تبصرے بند ہیں۔