وطن عزیز کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار

 ابوعدنان سعیدالرحمن بن نورالعین سنابلی

        ہم ہندوستانیوں کے لئے پندرہ اگست کی تاریخ قومی تہوار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے اسلاف کرام کی انتھک محنتوں، پیہم کاوشوں اورمسلسل کوششوں کے بعد ہمارا ملک انگریزوں کے ناپاک چنگل سے آزاد ہوا۔ پندرہ اگست کی تاریخ ہم ہندوستانیوں کے لئے فرحت و شادمانی سے لبریز ایک عظیم یادگارہے، اس دن ہمیں آزادی نصیب ہوئی ہے اورہم نے انگریزوں کی غلامی سے نجات پائی۔ ہمیں یہ آزادی ہمارے اسلاف کرام کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے۔ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس مبارک موقع پر چند جملے وطن عزیز ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کے کردار کے عنوان سے قید تحریر میں لایا جائے تاکہ ہم یہ جانیں کہ وطن عزیز کی آزادی کی جنگ میں ہمارے اسلاف نے کس قدر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور کس طرح سے جہد پیہم اور مسلسل کوششوں سے آزادی حاصل کی ہے۔

        ہوا یوں کہ ہالینڈ کے سوداگروں نے ایک پونڈ گرم مصالحہ کی قیمت میں پانچ شلنگ کا اضافہ کردیا تو لندن کے درجن بھرتاجر سیخ پا ہوگئے۔ اسی وقت انہوں نے ایک تجارتی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیاجس کانام انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی رکھا۔ اس ضمن انہوں نے مختلف ملکوں کے اسفار شروع کئے۔ 1600ء میں الزبتھ اول سے کمپنی کوہندوستان میں تجارت کا پروانہ ملا۔ چنانچہ پہلی بار ولیم باکنس ایک جہاز کے ذریعہ سورت کے بندرگاہ میں داخل ہوا اور ہندوستان آپہنچا، اس نے 1613ء میں سورت ہی میں اپنی پہلی کوٹھی قائم کی۔ پھر وہ سرتھامس راؤ جہاں گیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک درخواست کے ذریعہ اس نے شہنشاہ سے کاروباری مراعات حاصل کرلی۔ اس کے بعد انگریزوں نے سرزمین ہندوستان پر اپنے پاؤں ایسے جمائے کہ تین سوسال تک وطن عزیز کی تمام بہاریں لوٹتے رہے اور جب یہاں سے رخصت ہوئے تو سارا ہندوستان خزاں کی زد میں تھا کہ پھر اس پر کبھی بہار نہ آئی۔ انگریزوں نے آہستہ آہستہ پورے ہندوستان پر اپنا تسلط جمالیا۔ وہ لوگ سب سے پہلے سورت، بھڑوچ، پھر آگرہ، اس کے بعد دریائے شور پارکرکے کلکتہ کو اپنا مرکز قرار دے دیا۔ 1858ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی لیکن اس کے بعد یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

        انگریزوں نے پیہم سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی بدولت وطن عزیز پر اپنا ناپاک تسلط جمالیا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال میں مغل بادشاہوں، حکمرانوں اور شہزادوں کی باہمی رقابتیں بہت حد تک ذمہ دار ہیں۔ اس کے لئے عوام کو ہرگز ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ عالمگیر اورنگ زیب کی وفات کے بعد عوام باہم دست و گریباں ہوگئے۔ انگریزوں نے اس اختلاف و انتشار کا خوب خوب فائدہ اٹھایا اور نواب سراج الدولہ کوشکست دے کر اولاََ بنگال پر قبضہ کیا، پھر کچھ دنوں میں مدراس اور کلکتہ پر بھی قبضہ جمالیا اوراس کے بعد حکومت کرنا شروع کردیا، بعد ازاں دھیرے دھیرے 1865ء میں پورے ہندوستان پر تسلط قائم کرلیا۔

        یہ رہی ہندوستان پر انگریزوں کے قابض ہونے کی مختصر کہانی۔ جب وطن عزیز ہندوستان پر انگریزوں نے ناپاک تسلط جمالیا اور وہ ہندوستانی شہریوں پر ناحق ظلم وستم کرنے لگے اور ان کے ساتھ انتہائی نازیبا برتاؤ کرنے لگے، غرضیکہ ہندوستانیوں کا اپنے ہی وطن میں رہنا دوبھر ہوگیا تواس وقت  مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر انگریزی حکومت کے خلاف تحریکیں شروع کردیں۔ انگریزوں کے خلاف متعدد جنگیں کیں اور کئی ناحیوں سے ان ظالموں سے برسرپیکار ہوئے۔ ہندوستان میں جنگ آزادی کی تحریک کے اولین سپہ سالار اور بانی ہونے کا شرف ابنائے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کو حاصل ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی درس و تدریس اور بہترین تربیت اور آپ کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز نے ہندوستان کو دارالحرب قراردیا۔ اس فتوی کا اثر اتنا زوردار ہوا کہ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوگئے اور جابر و ظالم انگریزی تسلط کے خلاف متحدہ محاذ چھیڑ دیا۔ شاہ عبدالعزیز ہی کی منظم قیادت میں ان کے معتقدین ایسے بہادرمحب وطن اور وطن کے لئے مرمٹنے والے شجاع سپاہی اور محافظ بنے کہ انہوں نے انگریزوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اسی کے طفیل آگے چل کر وطن عزیز ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی۔ ان مجاہدین کے خون سے ہندوستان کا چپہ چپہ، گوشہ گوشہ اور وطن عزیز کے درودیوار لالہ زار ہیں۔ شاہ عبدالعزیز کے اس انقلابی اور برمحل فتوی سے قبل مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ چاٹگام سے دہلی تک انگریزوں کی طوطی بولنے لگی تھی۔ میر صادق جیسے ملت فروش اور دغابازوں کی سازشوں کے نتیجہ میں ٹیپو سلطان جیسا عظیم مرد مجاہدشہادت سے سرخرو ہوا تھا۔ اس سلسلے میں مسلمان بھی مختلف الخیال ہوگئے تھے۔ کوئی انگریزوں سے جہادحریت کو جائز کہتا تو کوئی اسے ناجائز بتایا کرتا تھا۔ بہرحال شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس تاریخی فتوی نے مسلمانوں کے اندر ایک نیا جوش اور نیاولولہ اور امنگ پھونک دی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد مسلمانان ہند دیگر ہندوستانی باشندوں کے ساتھ  پورے جوش و خروش کے ساتھ انگریزوں کے خلاف برسرپیکار ہوگئے۔

        جنگ آزادی کی تحریک پر سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں شاہ عبدالعزیز کے خانوادے کے شاہ عبدالحی، شاہ اسمعیل اور شاہ اسحق تھے۔

        تحریک شہیدین جسے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی اسلامی تحریک ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس تحریک کا بھی اولین مقصدہندوستان سے انگریزوں کے قبضہ کو ختم کرنا اور لوگوں کے دلوں میں ماند پڑے اسلامی احکامات کی لؤوں کو روشن کرنا تھا۔ اس تحریک نے سب سے پہلے ’’ففروا الی اللہ‘‘ کی صدائے دلنواز بلند کیا جسے سن کر ہر کوئی مدہوش ہوگیا۔ جس کسی پر نظر گئی وہ اسلام کا خادم بن گیا۔ اس بابرکت تحریک کا اثر اتنا سود مند ہوا کہ علماء نے مسند درس چھوڑ دیا اور ائمہ مساجد نے مصلوں کو معذوروں کے حوالے کردیا، مالداروں نے اپنی کوٹھیاں ترک کردیں، غلاموں نے آقاؤں کو سلام بول دیا اور سب دیوانہ وار اس تحریک سے وابستہ ہوگئے، انگریزوں کے خلاف اس مبارک تحریک کا حصہ بن گئے اور ان کے سامنے سینہ سپر ہوگئے، تحریک شہیدین کے بارے میں آتا ہے کہ جب یہ تحریک بپا ہوئی تو عابدوں، زاہدوں، صوفیوں اور بزرگوں نے تسبیحوں کے بجائے ہاتھوں میں تلوار تھام لئے اور بڑے زور و شور سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوئے۔ جی ہاں، سرزمین ہندوستان پر اس تحریک کے بہت ہی نیک اثرات مرتب ہوئے۔ شاہ اسمعیل شہید کا گزر جس خطہ سے ہوا، وہاں کے لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں اور وہ خالص اہل حدیث بن گئے، جس کے اثرات بنگال کے علاقہ میں آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ نام نہاد افغانی مسلم سرداروں کی دغاباز یوں کی وجہ سے بالاکوٹ کا دل فگار اور خونچکاں سانحہ پیش آیا جہاں علامہ محمد اسمعیل اور سید احمد شہید رحمہما اللہ نے جام شہادت نوش فرمایا اور یہ تحریک امید کے مطابق کامیاب نہ ہوسکی۔

        تاریخ گواہ ہے کہ سانحہ بالاکوٹ کے بعد جب اکثر لوگوں کے پاؤں ڈگمگاگئے اور قریب تھا کہ انگریزوں کے خلاف اٹھنے والی یہ تحریک تاریخ کا حصہ بن جائے تو اس خزاں رسیدہ چمن میں بھی پٹنہ، عظیم آباد کے محلہ صادق پور کے ایک عظیم سپوت مولانا ولایت علی صادق پوری نے اس کے علم کو سنبھالے رکھا۔ آپ کے بعد مولانا عنایت علی صادق پوری، مولانا عبداللہ صادق پوری اور مولانا عبدالکریم عظیم آبادی نے بالترتیب اس تحریک کی ذمہ داری سنبھالی اور اسے اپنے خون پسینہ سے سینچا۔ ان کے علاوہ مولانا نعمت اللہ، مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولانا عبدالرحیم صادق پوری، مولانا جعفر تھانیسری جیسے فولادی ہمت اور اولوا لعزم مجاہدین نے اس تحریک کو اپنی قیادت و سیادت سے شرف بخشا اور اس تحریک میں فعال اور انتہائی سرگرم رکن کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دیا، جس کے پاداش میں ان بزرگان دین کو غاصب انگریزوں کے مظالم سہنے پڑے، ان کی اذیتوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنا پڑا۔ حالت یہاں تک جا پہنچی کہ انگریزوں نے ان سرفروشان وطن اور جانباز علمائے کرام کو حبس دوام اور عبور دریائے شور کی انتہائی اذیت ناک اور کربناک سزائیں دیں، لیکن قربان جائیے ہمارے ان اسلاف کرام کی اولوالعزمی، ثبات قدمی، جواں مردی اور فولادی حوصلے پر کہ انہوں نے ہرطرح کی مصیبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلیا، ہنستے ہوئے پھانسی کے پھندے کو گلے سے لگالیا، میدان جنگ میں شہادت کا جام نوش فرمالیااور تن کے گورے من کے کالے انگریزوں کی انتہائی سفاکانہ اور وحشیانہ اذیتوں کو برداشت کرلیا لیکن ان کے سامنے ہرگزگھٹنے نہیں ٹیکے اور نہ ہی حالات سے سمجھوتہ کیا۔ ہمارے ان بزرگان دین کی قربانیوں کا ہی ثمرہ ہے کہ آج ہم آزاد فضاؤں میں سانسیں لے رہے ہیں اور وطن عزیز میں انتہائی فرحت و انبساط کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

        علمائے صادق پور، پٹنہ کے اہل حدیث علماء کا جنگ آزادی میں کیارول رہا ہے جاننا ہوتو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے اس تاریخی جملے کو یاد کیجئے کہ انہوں نے ہندو ہونے کے باوجود علمائے صادق پور کی قربانیوں کا نہایت ہی صاف گوئی کے ساتھ اعتراف کیا تھااور کہاتھا کہ اگر پورے ہندوستانیوں کی قربانیوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور علمائے صادق پور کی قربانیوں کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو علمائے صادق پور کی قربانیاں بھاری پڑیں گی۔ جی ہاں، یہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی یہ شہادت اور گواہی بتاتی ہے کہ صادقان صادق پور، پٹنہ نے آزادی کی لڑائی میں انگریزوں کے خلاف کتنی عظیم قربانیاں پیش کی ہیں اور آزادی کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔

        1857ء سے 1947ء کے مابین ہندوستان کی آزادی کے لئے جتنی تحریکیں بپا ہوئیں اور جتنی بھی کوششیں ہوئیں، ہر جگہ مسلمان ہراول دستہ کے طور پر نظر آتے ہیں اور ان میں بھی علمائے اہل حدیث پیش پیش دکھائی پڑتے ہیں۔ تحریک آزادیٔ ہند میں جن اہل حدیث علمائے کرام کا نام قابل ذکر ہے، ان میں سے بعض اہم اور قابل ذکر یہ ہیں :مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا محمد علی قصوری، مولانا محی الدین قصوری، مولانا سید داود غزنوی، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا عبیداللہ احرار، مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا حافظ محمد محدث کاندلوی، مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی، مولانا ابوالقاسم محمد علی مئوی، مولانا نعمان مئوی، مولانا محمد احمد مدرس مئوی، مولانا عبداللہ غازی پوری، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا ادریس خاں بدایونی، مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی، مولانا عبدالرحیم عرف مولانا محمد بشیر، صوفی ولی فتوحی والا، دہلی میں پنجابی اہل حدیث، کلکتہ میں کپڑے والے اور لوہے کی تجارت کرنے والے، مدراس میں کاکامحمد عمر، بنگال میں مولانا عبداللہ الکای، مولانا عبداللہ الباقی، مولانا احمد اللہ خاں، غازی شہاب الدین وغیرہ وغیرہ۔ ان بزرگان دین نے یقینی معنوں میں انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی آزادی کے لئے ہونے والی لڑائی میں اپنے جان و مال، گھر جائداد اور بال بچے سبھی چیز کو داؤ پر لگادیا بلکہ اپنی جان کی بازی لگاکر انگریزوں کے قدم کو ہندوستان سے اکھاڑ پھینکا۔ یقینی طور پر تحریک شہیدین اور اس کے بعد علمائے صادق پور کے اہل حدیث علمائے کرام کی مرہون منت رہی کہ لوگ انگریزوں کے خلاف ایک پلیٹ پر یکجا ہوئے۔ شاہ اسمعیل شہید  اور آپ کے بعد صادقان صادق پورکی شب و روز کی محنتوں، پیہم کوششوں اور لگاتار کی جانے والی کاوشوں کا نتیجہ رہا کہ وطن عزیز کے باشندے انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے بے داغ کردار، بے مثل عزم و استقلال اور عدیم النظیر جرأت و ہمت کے ذریعہ انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے اور انقلاب انگیز کارناموں کے ذریعہ ایسے انمٹ نقوش تاریخ میں چھوڑگئے جو رہتی دنیا تک قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے سنگ میل اور مشعل راہ بلکہ منارہ نور ہوں گے۔

        شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی کو کون نہیں جانتا؟ آپ علمائے اہل حدیث کے سرخیل اور سرتاج تھے۔ صرف اہل حدیث ہونے کی وجہ سے آپ بھی انگریزوں کے مقدمات کے لپیٹ میں آگئے اور صرف اسی بنیاد پر آپ کے گھروں کی تلاشی لی گئی، مسجدوں پر چھاپہ مارا گیا اور مدرسہ پر ریڈ ڈالا گیا، غرضیکہ آپ کو صرف اہل حدیث ہونے کی وجہ سے انگریزوں کے مظالم کو سہنا پڑا۔

        صحافت کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف ماحول بنانے اور مسلمانوں کے لہو کو گرمانے میں مسلمانوں کی خدمات انتہائی قابل قدر ہیں۔ بھلا صحافت کا تذکرہ ہو اور نازش ہند مولانا ابوالکلام آزاد کے البلاغ و الہلال کا تذکرہ نہ آئے تو تاریخ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ مولانا نے ان دونوں رسالوں کے ذریعہ مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑنے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کی سوچ بخشی۔ ہندوستان کے اس عظیم سپوت نے قلم و قرطاس کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف ایسی جنگ چھیڑی کہ وہ اس مرد مجاہد سے حددرجہ خائف ہوگئے۔ آپ کو جیل میں ڈال دیا، لیکن آپ نے اپنے پائے ثبات کو  لغزش نہیں آنے دیا۔ آزادیٔ ہند کی تاریخ کو پڑھیں، یہ بات مترشح ہوجائے گی کہ مجاہدین آزادی کے مابین مولانا آزاد کا قد کس قدر بلند اور ارفع ہے۔ چاچانہرو، پٹیل جی بلکہ گاندھی جی جیسے غیرمسلمین نے بھی مولانا کی کوششوں کی ستائش کی ہے۔ یہی نہیں، مولانا آزاد نے غبار خاطر اور اس جیسی دوسری کتابوں میں انگریزی مظالم اور ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ اپنے واقعات کو ذکر کئے ہیں جس سے ایک عام قاری آپ کی قدر و منزلت کابخوبی اندازہ لگاسکتا ہے۔

        یہ تھے ہمارے اسلاف جنہوں نے تن کے گورے من کے کالوں کے ناپاک قبضہ سے وطن عزیز ملک ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ ان بزرگان دین نے اپنے تن من دھن کی بازی لگادی اور پیہم جدوجہد اور مسلسل کاوش کے ذریعہ انگریزوں کے استبدادی پنجے سے وطن عزیز کو نجات دلایا۔ حتی کہ 27؍ رمضان مبارک کی مقدس شب 15؍ اگست 1947ء کو ہمارا پیارا ملک آزاد ہوا۔ ایک طرف ہمارے آباء و اجدادکی یہ سرفروشانہ کاوشیں ہیں، دوسری طرف موجودہ زمانے میں ہم مسلمانوں کو درپیش چیلنجیز ہیں کہ ہمیں ہر میدان میں امتیازی سلوک اور ترجیحی برتاؤ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بعض فسطائی طاقتیں ہمیں ملک سے نکالنے تک کی باتیں کررہی ہیں جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ وطن عزیز کی آزادی ہمارے اسلاف کرام کی مرہون منت ہے۔ وطن کے چپے چپے پر ہمارے آباء و اجداد نے لہو کا نذرانہ پیش کرکے ہمیں آزادی کا تحفہ دیا ہے۔ ہمارے ملک کا گوشہ گوشہ ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا شاہد ہے۔ چشم فلک نے ہندوستانی مسلمانوں کے کوہ کن عزم و حوصلے کو دیکھا کہ انہوں نے جب انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا تو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد ہی چین و سکون کی سانس لی۔ اس کے بعد بھی آج ایسے لوگ جن کا آزادی ہند میں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے، وہ ہمیں ملک سے نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے عزم و استقلال کا انگریز بھی قائل تھا۔ ڈبلیوڈبلیو ہنٹر کی تاریخ پڑھیں، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ انگریز علمائے کرام کی مبارک جماعت سے کس قدر خائف تھا۔ پھر آج ہمارے حب الوطنی پر شک کرنا اور اسے مشکوک قرار دینا انتہائی شرمناک اور بے ہودہ حرکت ہے۔ اخیر میں دعا ہے کہ اے بارالٰہا! تو ہمارے ملک کو دشمنوں کے شرو فساد سے محفوظ رکھ۔ ہمارے وطن عزیز کو دن دونی رات چوگنی ترقی نصیب فرما۔ اے اللہ! تو سرزمین ہندوستان کو امن و آشتی کا گہوارہ بنادے اور اسے مزید ترقیوں سے نواز تاکہ وہ ہر میدان میں بلندمقام پر فائز ہو۔ آمین تقبل یا رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔