وفدِ ثقیف کا قبولِ اسلام: دروس و نصائح

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

فتح مکہ (8ھ) کے بعد جب قبائل ِعرب کو اندازہ ہو گیا کہ اب اسلام کی پیش قدمی کو روکنا ممکن نہیں ہے اور وہ چاہے جتنی کوشش کر لیں ، اہل اسلام کو شکست نہیں دے سکتے تو انہوں نے اپنے رویے پر غور کیا ۔ انہیں کوئی راہِ نجات نظر نہ آئی ،سوائے اس کے کہ سر تسلیم خم کر دیں اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں ۔چناں چہ انہوں نے اپنے وفود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجے ، جنہوں نے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اطاعت کا عہد کیا ۔مؤرخین اور سیرت نگاروں نے ستّر(70) سے زائد ایسے وفود کا تذکرہ کیا ہے ۔اسی وجہ سے اس سنہ و ھ کو’ عام الوفود‘ کہا گیا ہے ۔ان وفود میں ایک وفد قبیلۂ ثقیف کا بھی تھا ۔

قبیلۂ ثقیف کا شمار عرب کے معزز، طاقت ور اور جنگ جو قبائل میں ہوتا تھا ۔یہ طائف میں آباد تھا ، جو مکہ سے پچاس(50) میل کے فاصلے پر واقع تھا ۔ہجرتِ مدینہ سے قبل اللہ کے رسول ﷺ دعوت کے نئے آفاق تلاش کرنے کی غرض سے طائف تشریف لے گئے تو اسی قبیلے کے افراد نے آپؐ کے ساتھ بد ترین معاملہ کیا تھااور آپ کو شدید جسمانی اذیتیں پہنچائی تھیں۔ فتح مکہ کے بعد بہت سے قبائل نے اطاعت قبول کر لی ،لیکن ہوازن اور ثقیف کے لوگ اپنی طاقت کے زعم میں رہے ۔انہوں نے بہت بڑی جمعیت اکٹھا کی اور اوطاس (مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام )میں خیمہ زن ہوئے ۔رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی خبر ملی تو آپؐ نے ان کی سرکوبی کا ا رادہ کیا اور صحابہ کے ساتھ ان کی طرف کوچ کیا ۔اہل ہوازن و ثقیف نے فوجی دستوں کو وادیٔ حنین میں متعین کر دیا ،جنہوں نے وادی کے مختلف حصوں میں کمین گاہیں اور مورچے بنا لیے ۔جوں ہی مسلمان وہاں پہنچے ان پر ہر طرف سے تیر برسنے لگے ۔اچانک حملے سے ان پر بد حواسی طاری ہو گئی ،شہ سوار چھٹ گئے ،فوج تتر بتر ہو گئی ۔بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ کسی کو دوسرے کی خبر نہ تھی، مگر بہت جلد انھوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ۔ہوازن اور ثقیف کو شکست ہوئی ،بہت سے لوگ قتل ہوئے اور بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ۔

شکست خوردہ فوج نے طائف میں جا کر پناہ لی اور قلعہ بند ہو گئی ۔رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کے ساتھ طائف کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر محاصرہ کرلیا ۔ثقیف نے اپنے قلعوں سے مسلمانوں پر خوب تیر برسائے، جن سے متعدد مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہو گئے ۔طائف کا محاصرہ تقریبا ًبیس روز تک جاری رہا، مگر شہر فتح نہ ہو سکا ۔با لآخر رسول اللہ ﷺ نے محاصرہ اٹھا کر واپسی کا اعلان فرما دیا ۔اس موقع پر بعض صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! قبیلۂ ثقیف کے لیے بد دعا کر دیجیے ۔آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور آپؐ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے :’’ اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس بھیج دے ۔‘‘

چند روز کے بعد قبیلۂ ثقیف کے لوگوں نے باہم مشورہ کیا اور طے پایا کہ ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا جائے۔سفارت نے مدینہ کا رخ کیا ۔بستی کے قریب اس کی ملاقات حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے ہو گئی ۔ان کا تعلق اسی قبیلے سے تھا ۔وہ دوڑے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کی آمد کی خبر پہنچائیں ۔راستے میں ان کی ملاقات حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ہو گئی۔ان کو معلوم ہوا تو مغیرہؓ کو قسم دلائی کہ یہ خوش خبری مجھے پہنچانے دو ۔ اس وفد کی آمد پر رسول اللہ ﷺ نے بھی مسرت کا اظہار کیا ۔وفدکو مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ اس کے لیے صحن ِ مسجد میں خیمے نصب کیے گئے ۔ یہ لوگ نماز اور خطبہ کے وقت مسجد میں موجود رہتے تھے اورمسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے اور قرآن سنتے تھے۔ یہ وفد چند دن ٹھہرا ۔اس عرصہ میں وقتاً فوقتاً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری دیتا ۔ آپؐ بھی ان کے پاس ہر رات عشاء کے بعد تشریف لے جاتے تھے اور کھڑے کھڑے ان سے گفتگو فرماتے تھے ۔زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے آپ تھکن محسوس کرتے تو پہلو بدل لیتے تھے (طبقات ابن سعد)۔

اس وفد میں عثمان بن ابی العاص نامی ایک نوجوان بھی تھا ۔ارکان ِوفد نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں جاتے تو اسے بچہ سمجھ کر خیمے میں چھوڑ جاتے ۔خدمتِ نبوی میں حاضری سے محرومی اور تعلیماتِ اسلام سیکھنے کی تڑپ اسے بے چین کیے رہتی ۔چنانچہ جب وہ لوگ واپس آکر دوپہر میں آرام کرتے تو عثمان آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔آپؐ سے قرآن سن کر یاد کرتا اور دین کی تعلیم حاصل کرتا ۔کسی موقع پر اگر وہ آپ کو سوتا ہوا پاتا تو حضرت ابو بکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتااور ان سے دین سیکھتا ۔یہ کام وہ اپنے قبیلے والوں سے چھپ کر کرتا تھا ۔اس کا ذوق و شوق دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو بہت خوشی ہوئی ۔( مغازی موسیٰ بن عقبہ)
ارکانِ وفد کو اسلام کی بنیادی تعلیمات بتائی گئیں تو انہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل رسول اللہ ﷺ کے سامنے چند شرطیں رکھیں ۔

اس سلسلے میں سربراہ ِوفد کنانہ بن عبد یالیل سے یہ گفتگو ہوئی :

(1) اس نے کہا : ہمیں کثرت سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ہمارے لیے جنسی جذبہ پر قابو پانا مشکل ہے۔ہمیں زنا کی اجازت دے دیجیے۔
آپ ؐنے فرمایا :وہ تم پر حرام ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاء سَبِیْلا ً (الاسراء :32)

(زناء کے قریب نہ بھٹکو ۔وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ ہے ۔)

(2) اس نے کہا :ہماری ساری تجارت سود پر مبنی ہے۔ ہمیں سود لینے کی اجازت دے دیجیے۔

آپ ؐنے فرمایا :تمہیں صرف اصل سرمایہ لینے کا حق ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے :

یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (البقرۃ:278)

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ۔)

(3) اس نے کہا : ہمارے علاقے میں شراب بڑے اہتمام سے کشید کی جاتی ہے اور وہ ہمارے لیے ضروری ہے ۔
آپ ؐ نے فرمایا :اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے ،اس کا ارشاد ہے :

یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ (المائدۃ:90)

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے ،یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ،ان سے پرہیز کرو ،امید ہے کہ فلاح نصیب ہو گی )

(4) اس نے نماز سے رخصت چاہی تو آپﷺ نے فرمایا :

’’لا خیر فی دین لا رکوع فیہ‘‘( مسند احمد)

(اس دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نماز نہ ہو ۔)

(5) اس نے درخواست کی کہ ’لات‘نامی بت کو، جس کی اس کی قبیلے والے پوجا کرتے ہیں ،تین سال کے لیے چھوڑ دیا جائے اور اس کے معبد کو منہدم نہ کیا جائے ۔آپؐ نے انکار کیا۔ا س نے دو سال کے لیے چھوڑنے کی گزارش کی ۔آپؐ نے اسے بھی قبول نہ کیا ۔وہ اسی طرح تھوڑی تھوڑی مدت کم کرتارہا ،لیکن آپؐ نے کچھ بھی مہلت نہیں دی ۔تب اس نے کہا:اچھا تو پھر آپ ہی اسے توڑ ڈالیں ۔ ہم لوگ اسے اپنے ہاتھ سے نہیں توڑ سکتے ۔آپؐ اس پر رضامند ہو گئے اور فرمایا :’’میں کسی کو بھیج دوں گا جو یہ کام کر دے گا۔‘‘

(6) اس نے درخواست کی کہ اس کے قبیلے کو جہاد میں شریک ہونے کا پابند نہ کیا جائے ۔آپؐ نے یہ درخواست قبول کرلی ۔

(7) اس نے درخواست کی کہ اہلِ قبیلہ کو ادائی زکوٰۃسے مستثنیٰ رکھا جائے ۔آپؐ نے یہ درخواست بھی قبول کر لی ۔

(8) اس نے درخواست کی کہ طائف کا عامل (گورنر) قبیلے سے باہر کے کسی فرد کو نہ بنایا جائے۔آپؐ نے یہ درخواست بھی قبول کرلی ۔

وفد نے واپسی کا ارادہ کیا تو اللہ کے رسول ﷺ سے گزارش کی کہ کسی کو ہمارا امیر بنا دیجئے ۔ آپؐ نے وفد کے سب سے کم عمر رکن عثمان بن ابی العاص کو امیر نام زد فرمایا ۔بعد میں آپؐ نے حضرت خالد بن ولید ؓکی سربراہی میں حضرت مغیرۃ بن شعبہ ؓ اور حضرت ابو سفیان بن حربؓ کو بھیجا کہ وہ جاکر لات کے معبد کو منہدم کردیں ۔

دروس و نصائح:

قبیلۂ ثقیف کے قبولِ اسلام کے اس واقعہ میں ہمارے لیے عبرت و نصیحت کے متعدد پہلو ہیں :

(1) راہِ دعوت میں شدائد کاا ستقبال :
داعی کو ہر لمحہ مستحضر رہنا چاہیے کہ دعوت کی راہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، بلکہ اس بات کاا ندیشہ ہے کہ اسے مشکلات سے دوچار ہونا پڑے۔ بسا اوقات ممکن ہے کہ جن لوگوں کے سامنے وہ دعوت پیش کر ے وہ اسے رد کردیں ،اس کے درپے آزار ہوں اوراسے اذیتیں پہنچائیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا اسو ہ بتاتا ہے کہ ان اذیتوں کو برداشت کرنا ہے ۔سفر طائف کے موقع پر آپؐ کو قبیلۂ ثقیف سے جو اذیتیں پہنچیں ان کی تفصیلات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کلیجہ منھ کو آتا ہے ۔خود آپؐنے اس واقعہ کو اپنی زندگی کا سب سے زیادہ الم ناک واقعہ قرار دیا ہے ۔ ام المومینن حضرت عائشہؓ نے ایک موقع پر آپؐ سے دریافت کیا : آپ پر کوئی ایسا وقت بھی آیا ہے جو معرکۂ احد سے زیادہ سخت ہو ؟ آپؐ نے فرمایا :

’’مجھے تمہاری قوم سے بارہا تکلیفیں پہنچی ہیں ،لیکن ان میں سب سے زیادہ سخت وقت میرے لیے یوم العقبۃ (طائف) کا تھا ۔‘‘
اس طرح آپ ؐ نے اپنی امت کو تعلیم دی کہ راہ دعوت میں پیش آنے والی تکلیفوں پر صبر کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیں ۔

(2) مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں :

حالات کتنے بھی سخت ہوں اور مدعوئین کا رویہ کتنا بھی تلخ اور تکلیف دہ ہو ،داعی کو چاہیے کہ کسی بھی صورت میں مایوسی کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دے ۔اسے رجائیت پسند ہونا چاہیے ۔وہ امید رکھے کہ ان شاء اللہ حالات بد لیں گے ،دل نرم اور حق کی طرف مائل ہوں گے اور اسلام کا بول بالا ہوگا ۔سفرِ طائف کے موقع پر اہلِ ثقیف کے رویے نے رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ غم زدہ کر دیا تھا ۔ان کی بد سلوکی کو دیکھ کر اللہ تعالی کو جلال آگیا۔پہاڑوں کے فرشتے نے حاضر ہو کر کہا :اے محمدﷺ! اللہ نے آپ کی دعوت پر آپ کی قوم کا جواب سن لیا ہے ۔اس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، تاکہ آپ جو چاہیں حکم دیں ۔اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کی پہاڑیوں کو ملا کر انھیں پیس دوں ؟ آپؐ نے فرمایا :

’’نہیں ،میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہـ لا شریک کی عبادت کریں گے۔ ‘‘
اس واقعہ کو دس سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا ۔ابن سعد نے روایت کی ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے فرمایا:’’مجھے نہیں معلوم کہ عرب کا کوئی قبیلہ ،جو ایک باپ کی نسل سے ہو ،اس کا اسلام اتنا راسخ اور اس کے عقائد اتنے بے آمیز ہوں جتنے اس قبیلہ کے تھے۔ ‘ ‘ (طبقات ابن سعد :2؍78) قبیلۂ ثقیف کے قبولِ اسلام کرنے کی پختگی اور عقائد کی بے آمیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہو گئے تھے اور انہوں نے اسلامی ریاست سے بغاوت کر دی تھی،لیکن اس موقع پر ثقیف کے تمام افراد نے استقامت کا مظاہرہ کیا تھا اور اسلام پر قائم رہے تھے۔(ڈاکٹر محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیۃ )

(۳) انتقامی جذبات سے گریز :

داعی کو اپنی شخصیت کو انتقامی جذبات سے بلند رکھنا چاہیے ۔اسے مدعوئین کی طرف سے چاہے جتنی جسمانی یا روحانی تکلیفیں پہنچیں ،لیکن اس کا دل ہمیشہ ان کی طرف سے صاف رہنا چاہیے ۔وہ ان کی ہدایات کا خواہاں اور حریص ہو ۔پھر اگر اس کی کوشش اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ ہدایت پاجائیں تو اسے اس طرح مسرت کا اظہار کرنا چاہیے،جیسے اسے کوئی بہت بڑی دولت مل گئی ہو۔ثقیف نے اسلام دشمنی میں کیا کیا نہیں کیا؟! لیکن جب انہوں نے خدمت ِنبوی میں حاضری کا قصد کیا اور ان کے قبول اسلام کی کچھ امید بندھی تو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ پھولے نہیں سمائے ۔وہ آپؐ کو خبر دینے کے لیے دوڑنے لگے ۔راستے میں ان سے حضرت ابو بکر صدیق ؓکی ملاقات ہو گئی اور انہیں مغیرہؓ کے دوڑنے کا سبب معلوم ہوا تو کہنے لگے کہ یہ تواتنی غیر معمولی اور انتہائی مسرت بخش خبر ہے کہ اسے رسول اللہ ﷺ تک میں پہنچاؤں گا ۔آپؐ کو اطلاع ملی تو آپؐ نے بھی مسرت کا اظہار فرمایا ۔ایک لمحہ ٹھہر کر ہم غور کریں ۔ کیا اس موقع پر آں حضرتؐ کے ذہن میں سفرِ طائف کا دل دوز منظر نہ گھوم گیا ہوگا !؟کیا آپؐ کے دل میں یہ بات نہ آئی ہوگی کہ یہی لوگ تھے جنہوں نے میری دعوت کو رد کر دیا تھا۔ لیکن آپؐ نے ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔مدینہ میں وفد ِثقیف کے قیام کے دوران آپؐ برابر انہیں شرفِ باریابی سے نوازتے رہے اور خود بھی ان کے پاس جاتے رہے اور انہیں دین کی باتیں بتاتے رہے ۔ آپ ؐ روزانہ ان کے پاس خاصا وقت گزارتے ،ان سے محبت و مودّت کی گفتگو کرتے،ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور انہیں دین کا فہم عطا کرتے ،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل نرم کر دیے اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔

(4) مدعوئین کے لیے دعا:

رسول اللہﷺ کا اسوہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ مدعوئین کی ہدایت یابی کے لیے داعی صرف اپنی جدوجہد کو کافی نہ سمجھے،بلکہ ان کے حق میں برابر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔اس کا کام جدو جہد کرنا ہے۔ہدایت دینے یا نہ دینے والا اللہ تعالی ہے۔وہ مقلّب القلوب ہے۔وہ چٹانوں سے پانی نکال سکتا اور پتھر کو موم بنا سکتا ہے۔مدعوئین کا جو بھی رویہ ہو،ان کی جانب سے جیسا بھی رد عمل سامنے آئے،وہ جیسا بھی سلوک کریں ، لیکن داعی ہمیشہ ان کے بارے میں اچھے جذبات کا اظہار کرے اور اس کے منھ سے ان کے لیے دعا ہی نکلے۔غزوئہ حنین اور محاصرۂ طائف کے موقع پر مسلمانوں کو ثقیف کی جانب سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔چنانچہ وہ مشتعل ہوکر رسول اللہﷺ سے یہ درخواست کر بیٹھے کہ ثقیف کے لیے بد دعا کر دیجیے۔آپؐنے ہاتھ اٹھائے، لیکن بددعا کرنے کے لیے نہیں ،بلکہ ان کے حق میں دعاکرنے کے لیے۔علامہ سید سلیمان ندویؒ نے لکھا ہے :

’’یہ دعائے نبوی کا اعجاز تھا کہ وہ قبیلہ جو تلوار سے زیر نہ ہو سکا تھا ،دفعتاً جلال ِ نبوت نے اس کی گردن آستانہ ٔاسلام پر جھکادی اور پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔‘‘(شبلی نعمانی ،سیرت النبی : 2؍ 31، اضافہ از سید سلیمان ندوی )

(5) اسلامی تعلیمات کا عملی مظاہرہ:

وفدِ ثقیف کے ساتھ معاملۂ نبوی کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ کوشش کرنی چاہیے کہ غیر مسلموں تک اسلامی تعلیمات ،اقدار اور شعائر بے آمیز صورت میں پہنچیں اور ان کاعملی مظاہرہ بھی ہو۔اللہ تعالی کا ار شا د ہے:

وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ (التوبۃ:6)

’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے تو اسے پناہ دے دو۔یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے،پھر اسے اس کے مامن تک پہنچادو۔‘‘

رسول اللہﷺ نے وفدِ ثقیف کو مسجد نبوی کے صحن میں ٹھہرایا،تاکہ وہ قرآن سنیں ،نماز کا عملی مشاہدہ کریں اور مسلمانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ان کا میل جول ہو۔روایات میں ہے کہ وہ زمانہ رمضان المبارک کا تھا۔مسلمان اپنے زیادہ تر اوقات مسجد نبوی میں گزارتے تھے اور تلاوتِ قرآن اور عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔حضرت بلالؓ اور حضرت خالد بن سعید بن العاصؓ ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے۔ان کے درمیان اتنا تعلقِ خاطر ہو گیا تھا کہ جب تک خالد بن سعیدؓ آکر ان کے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہوجاتے تھے، وہ کھانا نہیں کھاتے تھے۔

(6) اساسیاتِ اسلام میں کوئی مداہنت نہیں :

وفد ِ ثقیف کے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس کے سربراہ نے رسول اللہﷺ کے سامنے جو شرائط رکھیں ان میں سے کچھ کو آپؐ نے قبول کر لیا اور کچھ کو سختی سے رد کردیا۔اس سے ہمیں یہ رہ نمائی ملتی ہے کہ اساسیاتِ اسلام میں کن چیزوں کی چھوٹ دی جاسکتی ہے اور کہاں تک؟اور کن معاملات میں ذرا بھی مداہنت جائز نہیں ہے۔آپؐ نے شرک اور اس کے مظاہر کوایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا اور ان کی یہ درخواست کسی بھی صورت میں قبول نہیں فرمائی کہ’ لات‘ نامی بت کے بڑے معبد کو کچھ دنوں کے لیے باقی رکھا جائے ۔اسی طرح ادائی نماز سے استثناء کی درخواست بھی رد کردی اور زنا کاری اور شراب نوشی کی بھی اجازت نہیں دی۔البتہ جہاد میں لازمی شرکت اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے معاملات میں انھیں رخصت دے دی۔یہ رخصت اس وجہ سے نہیں دی گئی تھی کہ زکوٰۃ اور جہاد کی اسلام میں اہمیت نہیں تھی،بلکہ اس وجہ سے دی گئی تھی کیوں کہ زکوٰۃ فوراً نہیں ، بلکہ سال بھر کے بعد فرض ہوتی ہے اور جہاد فرضِ کفایہ ہے،ہر شخص پر واجب نہیں ہوتا ۔واجب بھی ہو تو یہ روز روز نہیں ہوتا، بلکہ اس کے خاص مواقع ہوتے ہیں ۔اس وجہ سے اُس وقت ان دونوں باتوں پر انھیں مجبور نہیں کیا گیا اور امید رکھی گئی کہ جب اسلام ان کے دلوں میں گھر کر جائے گا تو وہ خود بہ خود ان کاموں کو کرنے لگیں گے۔حضرت جابرؓکی روایت میں اس کی صراحت موجود ہے۔آپؐ نے فرمایا:

سیتصدقون و یجاھدون اذا اسلموا (سنن أبی داؤد۔صححہ الألبانی)

(جب وہ اسلام لے آئیں گے تو زکوۃ بھی ادا کریں گے اور جہاد بھی کریں گے۔)

اور واقعی ایسا ہی ہوا۔رسول اللہﷺ کے انتقال کے بعد جب ارتداد کی لہر اٹھی تو حضرت ابو بکرؓ نے طائف کے عامل حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کو لکھا کہ کچھ افراد پر مشتمل ایک فوجی دستہ بھیجیں ۔ انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور اہل ثقیف اس میں خوشی خوشی شامل ہوئے۔اسی طرح عاملِ طائف ان کے صدقاتِ واجبہ وصول کرکے برابر مدینہ بھیجا کرتے تھے۔

(7) امارت کا مستحق صاحبِ علم ہے،خواہ کم عمر ہو:

رسول اللہﷺ کا اسوہ بتاتا ہے کہ امارت کا مستحق وہ شخص ہے جو فہم ِ دین میں سب سے برتر ہو ۔ وفدِ ثقیف نے آپؐ سے ان کا ایک امیر نام زد کرنے کی درخواست کی تو آپؐ نے اس فرد کا انتخاب فرمایا جو ان میں سب سے کم عمر تھا،جسے اس کی کم عمری کے سبب وہ اس قابل بھی نہیں سمجھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں ساتھ رکھیں ۔ لیکن آپؐ نے اس کے ذوق و شوق،سنجیدگی،حفظ قرآن ،فہم دین اور دوسری خوبیاں دیکھ کر اس کی صلاحیتوں کا اندازہ کرلیا اور ایک بڑے، قدیم اور مشہور قبیلے کی سربراہی اسے عطاکردی۔اس نو عمر قائد نے بعد میں اپنی کارکردگی سے ثابت کردیا کہ رسول اللہ ﷺ کا انتخاب بالکل درست تھا۔ ثقیف عہدِ نبوی میں سب سے آخر میں ایمان لانے والے قبیلوں میں سے تھا۔دوسرے قبائل کے مقابلے میں اس کے قبولِ اسلام کو زیادہ مدت نہ گزری تھی، لیکن وفاتِ نبوی کے بعد جب قبائل کے قبائل مرتد ہورہے تھے،اس نو عمر قائد کی دانش مندی،سوجھ بوجھ اور افرادِ قبیلہ پر مضبوط پکڑ کی وجہ سے سر زمینِ طائف ارتداد کے بگولوں سے محفوظ رہی۔

آخر میں یہ کہہ کر اپنی بات ختم کروں گا کہ واقعاتِ سیرت کا مطالعہ اگر ہم عصری تناظر میں کریں اور ان سے دروس و نصائح مستنبط کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے سامنے دعوتِ دین کی راہیں روشن ہوں گی اور ہم اپنی بہت سی مشکلات ومسائل کا حل پاسکیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔