ولی رحمانی: تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے؟

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی

یہ دنیاایک سرائے ہے، جہاں لوگ آتے ہیں، ٹھہرتے ہیں اورچلے جاتے ہیں اوربحیثیت مسلمان ہمیں حکم بھی یہی دیاگیاہے کہ ہم اس کوسرائے ہی سمجھیں، دارقرار نہ سمجھیں، نبی کافرمان ہے: ’’دنیامیں اس طرح رہو، جیسے پردیسی یاراہ گزر‘‘، یہی قانونِ الٰہی بھی ہے کہ انسان کی پیدائش ہوتی ہے، وہ جوان ہوتاہے، اس پر بڑھاپا چھاتاہے، پھرموت آجاتی ہے اورجب تک دنیاقائم ہے، یہ سلسلہ چلتاہی رہے گا، یہ ایک اٹل حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ کا محکم فیصلہ ہے، ’’ہرشخص کوموت کامزہ چکھناہے‘‘۔

 موت سے کس کورست گاری ہے

آج اس کی کل ہماری باری ہے

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کسی موت آتی ہے تواپنے پیچھے بہت سوں کوسوگوارکرجاتی ہے، خواہ وہ آدمی ہم انسانوں کی نگاہ میں مجنون ہو، کسی کام کانہ ہو؛ بل کہ اس کی زندگی میں لوگ اس کے مرنے کی دعائیں کرتے ہوں؛ تاکہ وہ مجنون، جوزندگی جی رہاہے، جسے دیکھ کرہرصاحب دل کی آنکھ بھرآتی ہے، اس زندگی سے اسے چھٹکارہ مل جائے، ایسے مجنون کی موت پربھی آنسوبہانے والے ملتے ہیں اوراس کی موت پربھی کچھ لوگ سوگوار ہوتے ہیں، اورکسی کی موت پررونااورآنکھوں سے آنسوجاری ہوناکوئی معیوب بات بھی نہیں، یہ توفطری بات ہے، محبت اورتعلق کی بات ہے، نبی کی آنکھ سے بھی آنسورواں ہوئے ہیں۔

لیکن زیادہ درد، غم، افسوس، رنج اورقلق اس وقت ہوتاہے، جب کسی گھرکاکوئی ایسافرداٹھ جائے، جوعاقل ہو، فہیم ہو، ذہین ہو، فطین ہو، پوراگھرجس کے بھروسہ پرہو، جوگھرکاسہاراہو، جس کے بغیرگھرکے افراد یتیم کی مانند ہوں، اگرایسے فردکی موت واقع ہوجائے تویہ واقعی افسوس کی بات ہے؛ لیکن سوچئے کہ اگرایسی شخصیت کا انتقال ہوجائے، جس پرگھرنہیں، محلہ نہیں، ضلع نہیں؛ بل کہ امت کی ذمہ داری ہو، جوقوم کے لئے اس تناوردرخت کی مانند ہو، جس سے لوگ سایہ بھی حاصل کرتے ہوں اورپھل بھی، جواس چٹان کی طرح ہو، جس کے سامنے سیلاب ِبلاخیز دم توڑدے، اگرایسی شخصیت کی وفات ہوجائے، توغم کاکوئی اندازہ کرسکتاہے بھلا؟

امیرشریعت، مفکراسلام حضرت مولاناسیدولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک تناوردرخت اورچٹان کی ہی تھی، ان کے جانے سے آج پوری امت یتیم ہوگئی ہے، قوم کی بنیادڈھہہ گئی ہے اوران پرعربی شاعر کایہ شعرصادق آرہاہے:

وماکان قیس ہلکہ ہلک واحد

ولکنہ بنیان قوم تہدما

حضرت مولانابھارتی مسلمانوں کے ایک مضبوط آواز تھے، ان کی بے باکی اورجراء ت مشہورتھی، وہ حق کے بولنے میں کسی ملامت گرکی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے، بہت سارے ایسے مواقع آئے، جب انھوں نے امت کے ہچکولے کھاتے ناؤ کوساحل تک پہنچایا، طلاق ثلاثہ بل پرپرزورآواز بلندکی، بابری مسجد کے فیصلہ پر بھی وہ خاموش نہیں رہے، حالیہ حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے کئی مواقع ایسے آئے، جہاں امت انتشار ذہنی میں مبتلاہوکر مایوسی کی شکار ہوئی، ایسے موقع پرمولاناکے بیانات نے امیدکی کرن جگائی ۔

مولاناکی پیدائش 1943ء کی ہے، تعلیم سے فراغت کے بعدسے مولاناقومی مسائل کے ساتھ جڑگئے، چوں کہ آپ ایک قابل تقلید ملی رہنمامولانا منت اللہ رحمانیؒ کے فرزندتھے، مولاناکے ساتھ بھی سفروحضرمیں رہے؛ اس لئے فطری طورپر انھیں بھی ملت کے مسائل سے دلچسپی پیداہوئی اورتادم آخریں وہ ملی قائد ورہنمابن کرہی رہے۔

حضرت مولانا1974ء سے لے کر1996ء تک بہارقانون ساز کونسل کے رکن رہے؛ اس لئے قانونی باریکیوں سے خوب واقف تھے اورحکومت کی قانون سازی کے مواقع سے امت کوقانون کی باریکیوں سے واقف کرتے رہتے، آپ ایک ماہرتعلیم بھی تھے اوردینی وعصری تعلیم کے بڑے حامی تھے، ایک طرف وہ خود جامعہ رحمانی مونگیرکے سرپرست تھے تودوسری طرف انھوں نے رحمانی 30کی بنیادرکھی، جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلی تعلیم اورقومی مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے طلبہ کوتیار کیا جاتا ہے، جہاں سے ہرسال تقریباً NEETاورJEEمیں100سے زائد طلبہ منتخب ہوتے ہیں، رحمانی 30کاقیام ان کی سوچ کوواضح کرتاہے کہ وہ قوم کوکس طرح کی تعلیم سے آراستہ کرناچاہتے تھے؟

اس وقت ملک کے جوحالات ہیں اورخصوصیت کے ساتھ برسراقتدارپارٹی جس طرح مسلمانوں کونشانہ بنارہی ہے، جوبھی وہ فیصلہ کرتی ہے، مسلمانوں کو سامنے رکھ کرتی ہے، بھارت میں آج جس طرح کے حالات برسراقتدارپاٹی نے پیداکردئے ہیں اورجس طرح مذہبی عصبیت کی کھیتی اگانے کام اس نے کیا ہے، ایسے ماحول میں مسلمان خوف وہراس کی زندگی گزاررہے ہیں، اس خوف اورہراس کی زندگی سے قوم کوباہرنکالنے والی شخصیات میں مولاناایک بڑی شخصیت تھے، ایسے قحط الرجال کے زمانہ میں ان کااٹھ جاناخاندان کے لئے ہی نہیں؛ بل کہ پوری قوم کے لئے ایک بڑا خسارہ ہے، ایساخسارہ ، جس کی بھرپائی شاید ہوسکے۔

اس وقت بھارتی مسلمانوں کوان کی سخت ضرورت تھی؛ لیکن قضا وقدر کے فیصلہ پرسرتسلیم خم کرنے کے سواچارہ بھی نہیں، تقدیرنے انھیں اپنے پاس بلایالیا، وہ چلے گئے؛ لیکن اپنے پیچھے ایسے نقوش ثبت کرگئے، جن کی وجہ سے وہ تاریخ میں یادرکھے جائیں گے، آج ہراس شخص کی آنکھ اشک بارہے، جس نے ان کی وفات کی خبرسنی، اورکیوں ایسانہ ہو؟ وہ سب کے تھے، امت کے تھے، قوم کے تھے، قوم کے لئے جیتے تھے اورقوم کے لئے مرتے تھے، وہ سچ مچ قومی قائد اورملی رہنماتھے، وہ ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان تھے، ان کی وفات واقعتا بہت بڑا خسارہ ہے، بس یوں سمجھئے کہ آج پھرسے بھارتی مسلمانوں کے آزاد کی وفات ہوگئی ہے اوران وفات پرآغاشورش کاشمیری کاوہ مرثیہ صادق آتاہے، جوانھوں نے مولاناآزاد کی وفات کہاتھا:

عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے

زمیں کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

اگرچہ حالات کا سفینہ اسیر گرداب ہو چکا ہے

اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے

اگرچہ قدرت کا ایک شاہکار آخری نیند سو چکا ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے تک یقیں نہیں ہے

کئی دماغوں کا ایک انساں، میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے

قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے، زباں کا زور بیاں گیا ہے

اتر گئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا کارواں گیا ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکشتہ دل، خستہ گام پہنچے

جھکاکے اپنے دلوں کے پرچم، خواص پہنچے، عوام پہنچے

تری لحدپہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔