ون ویلنگ: موت کا کھیل

حکیم سید عمران فیاض

موٹر سائیکل دیگر سواریوں کی نسبت خطرناک سواری ھے۔ موٹرسائیکل سوار کو دوسروں کے مقابلہ میں روڈ قوانین پر عملدرآمد اور زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑتا ھے۔ تاکہ وہ حادثات سے محفوظ رہ سکے۔

لیکن موجودہ دور میں نوجوان جہاں دیگر مختلف قسم کی بے راہرویوں کا شکار ھے۔ وہاں اسے ون ویلنگ جیسی خوفناک مرض کی بھی شکایت ھے۔ جس کی وجہ سے کئی نوجوان یا تو معذور ہو جاتے ھیں یا اپنی زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھتے ھیں۔
ون ویلنگ کا شوق جسے یہ نوجوان نسل "شُغل” کا نام دیتی ھے۔ وہ اس کے نقصانات سے آگاہ ہونے کے باوجود کبوتر کی طرح آنکھیں موند لیتی ھے۔ جو ایک خطرناک پہلو ھے۔ ون ویلنگ کے نقصانات مندرجہ ذیل ھیں

* ون ویلنگ ایک خونی کھیل ھے

* اس کا انجام صرف موت ھے

* یہ بوڑھے والدین سے انکا سہارا چھن جاتا ھے

* ون ویلنگ کے کھلاڑی عمر بھر کے لیئے معذور ہو جاتے ھیں۔

* ون ویلر اپنی زندگیوں کے ساتھ دوسروں کے لیئے بھی خطرہ ہوتے ھیں۔

* ون ویلنگ پل بھر کا مزہ۔۔۔۔عمر بھر کا پچھتاوہ

* کم عمری میں ڈرائیونگ خودکشی کرنے کے مترادف ھے۔

"ون ویلنگ ” کا نوجوانوں اور بچوں میں بڑھتا شوق ان کے اندر معاشرتی پستی اور دماغی سوچ کی عکاسی کرتا ھے۔ جس کے ذمہ دار سب سے پہلے ان کے والدین ,عزیز و اکارب , دوست احباب اور ھمارا معاشرہ ھے۔ بچوں کے والدین پر یہ ذمہ داری عائد ھوتی ھے کہ وہ اپنے بچوں کے روزمرہ معمولات پر گہری نظر رکھیں۔ انکے ملنے والوں اور دوستوں کے بارے میں پوری آگاہی رکھیں۔خصوصاً 18 سال سے کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل بلکل لے کر نہ دیں۔ اپنے بچوں کی توجہ تعلیمی , ثقافتی سرگرمیوں کی طرف زیادہ رکھیں۔ کیونکہ صحت مند سرگرمیاں ہی صحت مند معاشرہ تشکیل دیتی ھیں۔

ون ویلیر ھمارے معاشرے کا وہ ناسور ھیں جو کہ اپنے ہاتھوں اپنی ہی تباہی و بربادی کی کہانی لکھتے ھیں۔اکثر اوقات آپ کے مشاہدے میں یہ بات آتی ھے کہ معروف شاھراؤں پر جہاں ٹریفک کا شدید رش ہوتا ھے۔ وہاں پر یہ نوجوان بڑی دیدہ دلیری جسے کہ اگر ھم انکی کم عقلی یا بے وقوفی کا نام دیں تو غلط نہ ھو گا۔ شوخی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ھیں۔ان میں سے اکثر نوجوان ون ویلنگ کے دوران سلپ ھونے کی وجہ سے کئی فٹ پاتھ , باؤنڈری وال سے ٹکرا کر اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا لیتے ھیں۔ اور بعدازاں ان میں سے اکثر یا تو زندگی بھر کیلئے معذور ھوجاتے ھیں یا موت کو گلے لگا لیتے ھیں۔

ون ویلنگ کے حوالے سے قوانین بھی موجود ھیں اور اس کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی لیکن ان پر عملدرآمد ندارد شاید اسی وجہ سے یہ ون ویلنگ کا ناسور کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارھا ھے۔اس کا ذمہ دار کون ھے اس کی کوئی ذمہ داری نہیی لیتا ھے۔ متعلقہ ادارے / محکمے خاموشں تماشائی بنے ہوتے ھیں۔

اگر ھم سب نے  مل کر اس خوفناک عفریب کے خلاف ایک جہاد کی شکل میں متحد ھو کر اقدامات نہ کیئے تو ایک دن یہ ناسور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لیئے خوفناک صورت اختیار کر جائے گا۔اس ناسور کے خلاف الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی آگے آنا ھو گا۔ اس خوفناک عفریب کے خاتمہ کے لیئے وطن عزیز کے اندر موجود NGOs کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ھوگا۔ متعلقہ ادارے جو خواب خرگوشی کے مزے لے رھے ھیں ان کو بھی اب جاگنا ھوگا۔

ون ویلنگ کے اس عفریب کے خاتمہ کیلئے آج کی نوجوان نسل میں مل جل کر شعور بیدار کرنا ھوگا۔تعلیمی اداروں , یونیورسٹیوں , معروف شاھراھوں , مارکیٹوں , بازاروں , گلی محلوں میں اس حوالے سے متعلقہ اداروں اور NGOs کو آگاہی کے سلسلہ میں اقدامات کرنے چاھیے تاکہ عوام میں شعور بیدار ھو۔ متعلقہ اداروں کو ان ون ویلروں اور آپس میں ریس لگانے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نبٹنا ھو گا اور ان کے خلاف کاروائی کرتے وقت کسی بھی قسم کی سفارش , دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔