وہ ایک سفینہ، جو ترجماں تھا 

محمد قمرالاسلام

(ناندیڑ)

31؍جولائی 2018ء کو محترم مولانا محمد معین القاسمی کی وفات کا جو غم انگیز سانحہ پیش آچکا ہے اس سے نہ صرف مراٹھواڑہ بلکہ سارا مہاراشٹر و ملک واقف ہے۔ تکفین و تدفین کی تمام جزوی تفصیلات اخبارات و سوشل میڈیا میں آچکی ہیں۔ متعدد مقامات پر تعزیتی جلسے ہوچکے ہیں۔ تعارفی و تعزیتی مضامین شہر، ریاست و ملک کی قابل ذکر ہستیوں کے تاثرات ملاحظہ کئے جاچکے ہیں۔ وہ سب کچھ ہوچکا ہے جو کسی محبوب ہستی کی رحلت پر پروپیگنڈہ اور لفظ کاری کے موجودہ دور میں متوقع ہوسکتا ہے۔ نظم و نثر کا کوئی اسلوب نہیں جس سے مدعیان عقیدت نے نظر انداز کیا ہو۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ میرے پاس کہنے کو کیا رہ گیا ہے۔ لیکن صاحب کردار کی وفات کا غم اس بات کا متقاضی ہے کہ میں بھی چند آنسو ٹپکالوں اور روزنامہ تہلکہ ٹائمز کو عذرداری کی سعادت سے محروم نہ رہ جانے دوں۔

میں قلم اور اس سے نکلنے والی خاراشگاف تحریر سے واقف قارئین اس امر سے بھی بخوبی واقف ہیں، راقم کے ناقدانہ قلم نے اشاروں، کنایوں میں ہی سہی مولانا کی حین حیات میں ہی گستاخیاں بھی کی ہیں۔ تاہم آفریں ہے مولانا کی جبیں شکن آلود تک نہ ہوئی۔ مولانا محترم کی رحلت سے کم و بیش ایک ماہ قبل ان کے دولت کدہ پر ان کے ہمراہ ہم طعامی کا موقع بھی ملا۔ نرم دم گفتگو، دھیمی آواز اور مخصوص مسکراہٹ اب بھی احقر کے ذہن کے گوشوں میں محفوظ ہے۔

مولانا کو فہم و فراست اور توفیق علم و عمل قدرت نے وافر ہی دی تھی۔ مگر سب سے ممتاز خصوصیت آپ کی تقریری صلاحیت تھی۔ جس نے آغاز ہی میں اہلِ علم و دانش سے اپنا لوہا منوالیا۔ ناندیڑ و مراٹھواڑہ کی تاریخ میں آپ کو شائد ہی چند افراد ایسے ملیں گے جو زبردست عالم بھی ہوں اور باکمال، لاجواب مقرر بھی ۔ آپ نے اگر کبھی ان کی تقریر نہیں سنی تو سچ جانئے کہ ایک عجیب و غریب لذت و ذائقہ سے محروم رہے۔ میٹھے بول، نرم لہجہ، ہموار روانی، جیسے سماعت پر شبنم کے موتی ڈھلکتے جائیں۔ اور جب عظمت الٰہی کا بیان ہو تو ایک طوفانی گرج اور پُروقار ہمہمے سے دل دہل جائے۔ روحیں دم بخود ہوجائیں۔ استدلال بے پناہ، مگر سادہ۔ بات گہری مگر سلیس۔ منطق اٹل مگر عام فہم۔ فلسفہ لاجواب مگر صاف ستھرا۔ مزاح تبسم آفریں مگر سبق آموز۔ جب اسٹیج پر آکر دھیمے انداز میں کلمات حمد و نعت ادا کرتے اور ہلکی آواز میں تقریر کا آغاز ہوتا تو معلوم ہوتا کہ غالباً ضعف و کمزوری کے باعث چند فقروں سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکیں گے۔ مگر اگلے ہی لمحے میں یہ بطن کمال سے پھوٹنے والا نازک دھارا منزل بہ منزل آگے بڑھتا پھیلتا چھاتا اس طرح جولاں نظر آتاکہ سامعین دم بخود، دل محو غرقاب، روحیں شرسار و سرمست۔ آواز جو آہستہ آہستہ اُبھری تھی مجمع پر ایک ردائے محویت بن کر چھا جاتی۔ تقریر کا موضوع ایک لذیذ و لطیف کیف بن کر دماغوں اور دلوں میں اترتا چلا جاتا۔ آپ کو علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے اشعار سے خاص دلچسپی تھی۔ اکثر دورانِ تقریر اقبال ؒ کے شعر پڑھتے او راگرچہ بعض واعظوں اور مقرروں کی طرح کبھی ترنم اختیار نہ فرمایا لیکن ادا کرنے کا انداز ایسا پُرلطف اور استعمال برمحل ہوتا کہ سامعین پھڑک اٹھتے اور یہ محسوس ہوتا کہ شعر کی تخلیق خاص اسی موقع کے لئے کی گئی تھی۔ مولانا کی زبان سادے سادے لفظوں میں عظیم مسائل اور اہم موضوعات کو سلجھاتی چلی جاتی۔ جب مزاح اختیار کرتے تو روحوں پر نشاط طاری ہوجاتا۔ قرآنی حقائق بیان فرماتے تو قلوب ذکر الٰہی کی محویت سے جھومنے لگے۔ اُخوت و محبت کا تذکرہ کرتے تو سماعتوں پر رس کی بوندیں ٹپکتی چلی جاتیں۔ آپ کی عام زندگی کے بارے میں ہم لکھنے بیٹھے تو بہت کچھ لکھ سکتے۔ لیکن تازہ صدمے کی شدت اور اضطراب و خلش کی فراوانی میں ہم اس وقت چند دل فگار کراہوں کے سوا کسی قابل نہیں۔ مختصراً اتنا کہہ سکتے ہیں کہ مولانا معین قاسمیؒ کی موت ایک ایسے زبردست انسان کی موت ہے جسے اس کی صحیح جگہ اور حیثیت مل جاتی تو آج تمام ملک میں شورِ ماتم برپا ہوتا۔

وہ ایک سفینہ جو ترجماں تھا بہت سی غرقاب کشتیوں کا

ہماری حالت پہ ہنسنے والوں ہنسی اُڑائو کہ وہ بھی ڈوبا

تبصرے بند ہیں۔