وہ بہکاتے رہیں گے، ہم بہکتے رہیں گے

مدثراحمد

آزادی کے بعد سے ہم مسلمان مختلف، اقتصادی، ملی اورمعاشی الجھنوں کاشکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ہر بار ہر حکومت میںمسلمان کسی نہ کسی الجھن کا شکار ہورہے ہیں۔اس کی وجوہات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیںتو سر سری طو رپر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم دین سے دور ہونے کی وجہ سے ان مسائل میں الجھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سیاسی اعتبار سے ہم مسلمانوں کوالجھایا جاتا رہا ہے۔کبھی بابری مسجد کے نا م پر تو کبھی گائو کشی کے نام پر مسلمان الجھ کر رہ گئے ہیں۔کہیں پر مسلمانوں کے داڑھی رکھنے کے معاملے کولیکر کئے جانے والے قتل عام کو لیکر مسلمان برسوں تک الجھے رہتے ہیں تو کبھی فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوکر یہی مسلمان سہمے ہوئے رہتے ہیں۔بات چاہے مسلم سیاسی پارٹیوںکی ہو یا پھر سیکولر سیاسی جماعتوںکی۔ہر سیاسی جماعت مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کررہی ہے۔بعض سیاسی جماعتیں تو مسلمانوںکو خوف کے دائرے میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو کچھ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو اُن کے حقیقی مسائل پر توجہ نہ دینے کیلئے مجبور کردیتی ہیں، جس سے مسلمان اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کو بنیادی حقوق دینے کی خاطر جسٹس رنگناتھ مشرااور جسٹس راجیندر سچر کمیٹیوںکی تشکیل دی گئی، لیکن دونوں ہی کمیٹیوںکی سفارشات کو حکومت نے آج تک نافذ نہیں کیا۔جس طرح سے بابری مسجد کا مسئلہ سیاسی مدعہ بنا تھا، اسی طرز پر جسٹس رنگناتھ مشر ا اور جسٹس سچر کمیٹی کی سفارشات کو لالی پاپ کی طرح پیش کیا جانے لگا جس کی وجہ سے مسلمان بنیادی حقوق سے محروم رہ چکے ہیں۔آج جو مسلمانوں پر ظلم وستم کارونا رویا جارہا ہے اور ہم مسلمان حکومتوںکو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیںکہ وہ مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔جب دستور ہند بنایا جارہا تھا اس وقت ڈاکٹر بی آر امبیڈکرنے دلتوں وپسماندہ طبقات کے لوگوں کیلئے بنیادی حقوق ریزرویشن، سماجی تحفظ، اقتصادی سہولیات فراہم کرتے ہوئے ان کیلئےصدیوں کی راحت سامان بنادیا۔مگر ہم ہندوستانی مسلمان ہر بار اپنی لاچاری اور کمزوریوںکارونا رورہے ہیں۔ہمارے پا س مواقع ہونے کے باوجود ہم ان مواقعوں کا استعمال نہیں کررہے ہیں، یہ افسوسناک بات ہے۔جسٹس راجیندرسچر کمیٹی کی رپورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوںکی حالت بے حد خراب ہے، ان مسلمانوں کو فوری طور پر آگے لانے کی ضرورت ہے۔ان کے نوجوانوںکوروزگار سے جوڑنے کی ضرورت ہے، ان کے بچوں کو تعلیم کی سہولت دینے کی ضرورت ہے، ان کی قوم کو سماجی انصاف دینے کی ضرورت ہے، ان کے نوجوانوں کو جیلوں میں بھرنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔

اس رپورٹ کو نہ توکسی عام شخص نے بنایا ہے اور نہ ہی کسی نے رضاکارانہ طو رپر تیارکیا ہے، بلکہ مرکزی حکومت کے کہنے پر ہی جسٹس راجیندرسچر نے پورے اخلاص کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس رپورٹ کوحکومت کے سامنے پیش کیا ہے۔سب سے بڑا افسوس یہ ہے کہ اس رپورٹ کو پیش کئے ہوئے12 سال بیت چکے ہیں، اگر مرکزی حکومت نے اسی رپورٹ کو بارہ سال پہلے ہی نافذ کرنے کیلئے اقدامات اٹھاتی ہے تو وہ بیج آج پیڑ بن چکا ہوتا اور کچھ ہی سالوں میں اس پیڑ سے پھل او رپھول کھلنے لگتے۔مگر کیا کریں کہ ہم مسلمان اتنے بدقسمت ہیں کہ ہمارے قائدین بھی اس سمت میں پیش رفت کرنے سے گریزکرتے رہے ہیں۔

ہمارے قائدین، ملی تنظیمیں، سماجی ادارے مندر مسجد کے معاملے میں پریشان گھوم رہے ہیں۔کچھ لوگ مسلک مسلک کاکھیل کھیل رہے ہیں، کچھ لوگوں یہ پریشانی ہے کہ فلاں شخص ایسے نماز پڑھ رہا ہے تو فلاں شخص فاتحہ خوانی کررہا ہے، کچھ لوگ اس بات کو لیکر پریشان ہیں کہ فلاں جماعت میں لوگوںکی تعدادزیادہ ہورہی ہے تو کچھ لوگوں کو یہ تشویش کھائی جارہی ہے کہ ان کے عقائد کو ماننے والوںکی تعدادکم ہورہی ہے۔جب تک مسلمان اس ملک میں اپنے حق کی لڑائی کیلئے آواز بلند نہیں کرینگے اس وقت تک مسلمانوں کاجینا محال ہوتا ہی رہے گا، جب تک مسلمان ڈر کے سائے سے نکل کر جیت کی طرف قدم نہیں بڑھائینگے اس وقت تک مسلمانوں کے ہاتھ ناکامی لگتی رہے گی، جب تک مسلمان اپنے باہمی اختلافات کو اپنے تک محدود رکھتے ہوئے سماجی انصاف کیلئے متحد نہیں ہونگےاس وقت تک مسلمانوں کو ان کاحق نہیں ملے گا۔

اگر سچر کمیٹی کی سفارشات نافذ ہوجاتی ہیں توجو معاملات مسلمانوں کودرپیش ہیںان معاملات کا خاتمہ یقینی طو رپر ہوجائیگا۔بس ہمیں اتنا کرنے کی ضرورت ہے کہ جسٹس سچرکمیٹی کی سفارشات کو نافذ کروانے کیلئے اپنے اپنے علاقوں سے مہم چلائی جائے، تحریک چلائی جائے تاکہ آج نہ صحیح آنے والے کچھ سالوںمیںہمیں انصاف مل سکتا ہے۔

مندر مسجد کی باتوں کو لیکر ہمیں بہکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، دہشت گردوں کا الزام لگا کر ہمیں ڈرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، وہ بہکاتے رہیں گےاورہم بہکتے ہی رہیں گے۔ہمیں بہکنے کے بجائے حکمت، طاقت اور ہمت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔