وہ کہے اور ہم سنیں ایسا ہے کیا؟

کاشف لاشاری

وہ کہے اور ہم سنیں ایسا ہے کیا؟

اب ہمارے بیچ میں رشتہ ہے کیا؟

جب بھی چاہا چھوڑ کر وہ چل دیے

بارہا چاہت میں یوں ہوتا ہے کیا؟

میری ہر اِک بات لگتی ہے غلط

سو، غلط لوگوں میں بھی اچّھا ہے کیا؟

میرے اپنے درد دے کر کہتے ہیں:

زخم تازہ جو ہے وہ دُکھتا ہے کیا؟

اے مِرے دل! کیوں سُنوں مَیں تیری بات؟

وقتِ مشکل تُو مِری سنتا ہے کیا؟

ذہن سے جاتا نہیں تیرا خیال

تُو نے یوں مُجھ کو کبھی سوچا ہے کیا؟

ہر گھڑی بس درد مُجھ کو دیجیے

میری جاں! مَیں نے کبھی روکا ہے کیا؟

تیری خاطر آتے ہیں کاشف یہاں

ورنہ تیرے شہر میں رکّھا ہے کیا؟

تبصرے بند ہیں۔