وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

  سیرت نبوی ﷺ کاعنوان ایک عظیم، بابرکت اور وسیع عنوان ہے، جو  ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہےاور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔کسی نےآپ کی ذات والا صفات کو اپنی علمی توانائیوں کا محور بنایااوراس سے وابستہ ایک ایک جزکو نمایاں کرنے کی سعی کی،کسی نے آپ کےبلند پایہ اخلاق وکردار کو موضوع بنایااوراس سے روشنی بکھیرنے کی کوشش کی،کسی نےانفرادی زندگی پرریسرچ و تحقیق کی تو کسی نے اجتماعی معاشرت پر سیرحاصل گفتگو کی۔ غرض تاریخ نویسوں اور سیرت نگاروں نے آپ کی حیات طیبہ کے ہرہر گوشےپوری دیانت اور مکمل احتیاط کے ساتھ کتب سیر وتاریخ میں ہمیشہ  کے لیے محفوظ کردیا۔

  نبی کریم ﷺ کی سیرت وسوانح کا مطالعہ، ہمارے دین کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی کی بجا آوری بھی،ایمان کی تر و تازگی کا ذریعہ بھی ہے اور حب رسول کا تقاضا بھی۔ قرآن مجید، نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے؛کیوں کہ اخلاق وآداب کاوہ کونسا معیار ہے، جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو؟حقوق و فرائض کی وہ کونسی جہت ہے جو آپ کی شریعت میں موجودنہ ہو؟ نگاہ بصیرت سےدیکھاجائےتورزم وبزم، فرد و انجمن، عبادت و ریاضت، معاشرت و معاملت، آداب واخلاق غرض زندگی کے ہرشعبہ میں آپ کی ذات والا صفات ہمارے لیے کامل رہبرکی حیثیت رکھتی ہے۔اللہ تعالی نےآپ کی ذات اقدس پر نبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آپ کے بعد آپ سے بہتر،بلندتر اور اچھےاوصاف و کردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔

سیرت نبوی ﷺ کے متعدد پہلو ہیں؛ جن میں سب سےممتازاور نمایاں پہلو آپ ﷺ کےرحمت للعالمین ہونے کاہے۔آپ ﷺ کی صفت رحمت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفکر اسلام علی میاں ندویؔؒ ارقام فرماتے ہیں :

‘‘رحمت ہماری روزمرہ زندگی کا ایک کثیر الاستعمال لفظ ہے۔ اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے ؛جس سے کسی انسان کو فائدہ یا راحت حاصل ہو، اس کے انواع و اقسام اور اس کے مراتب و درجات کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ اگر کوئی کسی کو پانی پلا دیتا ہے تو وہ بھی ایک طرح کی رحمت ہے، اگر کوئی کسی کو راستہ بتا دیتا ہے تو وہ بھی ایک طرح کی رحمت ہے۔ اگر گرمی میں کوئی کسی کو پنکھا جھل دیتا ہے تو وہ بھی ایک طرح کی رحمت ہے۔ ماں اپنے بچے کو پیار کرتی ہے، باپ اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا ہے اور اس کے لئے زندگی کا ضروری سامان مہیا کرتا ہے، وہ اس سے بھی بڑی ایک رحمت ہے، استاد طالب علم کو پڑھاتا ہے، اس کو علم کی نعمت بخشا ہے، یہ بھی ایک بڑی قابل قدر رحمت ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا یہ سب رحمت کے مظاہر ہیں اور سب کا اعتراف ضروری ہے۔

لیکن رحمت کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ کسی جان بلب مریض کی جان بچالی جائے۔ ایک بچہ دم توڑ رہا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عنقریب آخری ہچکی لے گا، ماں رو رہی ہے کہ میرا لعل دنیا سے رخصت ہو رہا ہے، اس سے کچھ نہیں ہو سکتا، باپ مارا مارا پھر رہا ہے، سب بے بس معلوم ہوتے ہیں کہ اچانک طبیب حاذوق فرشتہ رحمت بن کر پہنچتا ہے اور کہتا ہے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں، وہ دوا کا ایک قطرہ بچہ کے حلق میں ٹپکاتا ہے اور بچہ آنکھیں کھول دیتا ہے تو سب اس کو خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ کہیں گے اور وہ ساری رحمتیں جن کا میں نے نام لیا، اس رحمت کے سامنے مات ہو جائیں گی، اس لئے کہ یہ اس مریض ہی پر نہیں بلکہ اس کے چھوٹے سے کنبے اور اس سے محبت کرنے والوں پر بھی احسان عظیم ہے کہ اس کی جان بچائی گئی…….۔(نبی رحمت ﷺ)

جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی ربوبیت کا فیض ساری مخلوق کےلئے عام ہے اسی طرح سے آپ کی صفت رحمت کا فیضان بھی دونوں عالم کومحیط ہے۔ سب سے پہلے تو حضور پاک کی تشریف آوری کا فیضان یہ ہوا کہ ایک طرف قحط سالی سے دوچار سر زمین عرب سر سبز و شاداب، سیراب و خوشحال ہو گئی،تو دوسری طرف کفر و شرک کی گھٹاٹوپ تاریکیاں کافور ہوکر ایمان و ایقان کی صبح تجلی نمودار ہوئی،آپ ﷺ رحمت و شفقت کا پیکر ِبے مثال  بن کر ظہور پذیر ہوئے، آپ کی اس صفت عظیم کا قران کریم نے ان الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے :اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہی بناکر بھیجاہے(الانبیاء)

علامہ قاضی سلیمان منصورپوری نے امام ابن قیم کے حوالے سے آیت مذکورہ کی تفسیرمیں دو قول نقل کیے ہیں اور صحیح تر یہ ہے کہ آیت اپنے عموم پر ہے۔

اول :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا نفع عام طور پر جملہ اہل علم کو پہنچا ہے،اتباع کرنے والوں کو تو یہ کہ وہ دنیا و آخرت کی بھلائی کو پہنچ گئے اور جنگ جو دشمنوں کویہ کہ موت و قتل نے ان کو جلد لے لیا، کیونکہ بدبختی ان کے لئے لکھی جا چکی تھی، اب زندگی ان کے لیے عذاب کی شدت اور کژت کا سبب تھی۔ اس لیے موت کا جلد آ جانا ان حق میں طول عمری سے بہتررہا۔ رہے اہل ذمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم عہد ہو کر رہے، وہ دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری و عہد کے زیر سایہ آباد اور آسائش پذیر رہے اسی وجہ سے اب میں فرقوں کی نسبت شربھی کم ہو گیا۔ رہے منافق سو اظہار ایمان سے ان کے جان و مال، اہل و عیال محفوظ و محترم ہو گئے اور توارث وغیرہ میں مسلمانوں کے احکام ان پر جاری ہو گئے، رہے وہ ملک اور قومیں جو دور دراز فاصلہ پر تھیں، سو اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی وجہ سے اہل زمین سے عام عذاب کو اٹھا لیا۔ اس بیان سے ثآبت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اہل علم کے لیے عام رحمت تھی اور دنیا کے تمام باشندوں کو رسالت محمدی کا نفع پہنچا ہے۔

دوم:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک تو ہر ایک کےلیے رحمت ضرور ہے ؛مگر مومنین نے اس رحمت کو قبول کر لیا اور دنیا و آخرت کا نفع اٹھایا، پر کفار نے اس رحمت کو قبول نہ کیا اور لوٹا دیا؛لیکن اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا رحمت ہونے میں کچھ فرق نہیں آتا، مثلا کوئی دوا کسی مرض کے لیے مجرب ہے، اب اگر کوئی اس کا استعمال نہ کرے گا تو اس مرض کے لئے اس دوا کے مجرب ہونےمیں کچھ فرق نہ آئے گا۔

 اس لحاظ سےآپ ﷺ کی ذات جہاں  مؤمنین کے لئے رحمت  ہے وہیں کفار ؛بلکہ تمام بنی نوع انسان حتی کہ حیوانوں تک کے لئے بھی آپ ﷺ رحمت و شفقت کا پیکر جمیل ہیں اس سے بھی آگے بڑھ کر تمام مخلوق کے لئے آپ کی رحمت عامہ کا اعلان کر دیا گیا، کون ہے جو آپ ﷺ کی اس صفت رحمت میں شریک و سہیم ہو ؟  آپ کی لائی ہوئی شریعت آپ کا پیش کردہ دین اسلام، اس کا پیغام سب کچھ ہی سراپا رحمت و خیر ہے، جس میں ساری ہی انسانیت کی بھلائی و خیر خواہی اور تمام دنیائے انسانیت کے لئے پیغام رحمت و رافت ہے، وہ دین رحمت جس پیغام ہی سلامتی کا ضامن جس کا رسول ہی رحمت کا مظہر اور سلامتی کا علمبردار، جس کا نبی رحمت ساری دنیا میں پیغام محبت عام کرنے کا داعی، جس کا تحیہ اور سلام بھی سلامتی کی دعا پر مشتمل اور اہل جنت کے سلام کے مشابہ ہو، تو کیا اس جیسی رحمت و الفت و محبت و رافت کی چھایا رکھنے والے کوئی دین و ملت یا پیغمبر و پیشوا اس  زمین کے اوپر یا آسمان کے نیچے پیش کیا جا سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں، اس لئے جو شخص بھی انصاف پسندی اور منصف مزاجی سے سرورِدوعالم ﷺ کی زندگی کا جائزہ لے آپ کے اخلاق شریفانہ اور محامد کریمانہ پر نظر ڈالے تو اس کو یقیناً اس کا اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ﷺ کی ذات میں سارے فضائل جمع کر دیئے گئے ہیں۔

آپﷺکا وجود مبارک ہی مجسم رحمت ہے، آپ ﷺکے آنے سے صحرا میں بہاریں آ گئیں،گلزارِ ہستی کھِل گیا، جمود میں حرکت پیدا ہو گئی،ساربانوں کوہادی ومسیحا مل گیا،دائمی سرگشتگیاں ختم ہو گئیں،وہ بستی،وہ شہر، وہ گلیاں‘جہاں آپﷺنے قیام فرمایا،بابرکت اور مقدس ہو گئے، آپ ﷺ کی شفقتوں نے تخریب میں نئی تہذیب پیداکر دی،کردار میں انوکھا انقلاب آگیا،گناہگاروں کو شفاعت اور رحمت ملی،اندھیرے روشنی میں بدل گئے،منتشر‘مجتمع ہو گئے،گم کردہ راہ نشانِ منزل پا گئےاور سابقہ قوموں کی حالت زار کے برعکس یہ امت اپنی  بداعمالیوں کے باوجود عمومی عذاب سے ہمیشہ کےلیے محفوظ ہوگئی۔

داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سارے انسانوں کے لیے رحمت کا پیکر اورصحیح معنوں میں ان کے خیر خواہ اور بہی خواہ تھے،انہیں تباہی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر آپ بے قرار ہوجاتے !انہیں سلامتی اور کامیابی کی راہ پر گامزن دیکھنے کے لیے تڑپتے، اور مضطرب رہتے !اس کے لیے ہر ممکن سبیل اختیار کرتے۔

اللہ تعالی نے بھی قرآن پاک میں جگہ جگہ آپ کی اس دلسوزی اور جگر کاوی کا تذکرہ فرمایا ہے، اور بہت ہی پیاربھرے انداز میں فرمایا ہے:

ایسا لگتا ہے کہ تم ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلکان کرڈالوگے،اگر وہ اس بات پر ایمان نہیں لاتے!( سورہ کہف : ۶)

ایک مقام پر فرماتے ہیں:کیا وہ شخص جس کے لیے اس کی برائی خوشنمابنادی گئی،پس وہ اسے اچھائی سمجھنے لگا، (کیا ایسا شخص ہدایت یاب ہوسکتا ہے ؟)اللہ جسے چاہتا ہے، گمراہ کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے،تو ان کے غم میں گھلتے گھلتے تمہاری جان نہ چلی جائے، وہ جو کچھ کر رہے ہیں،اللہ اس سب سے با خبر ہے۔(سورہ فاطر:۸)

آپ ﷺ نےخود ایک موقع پر اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

میرا حال اس شخص جیسا ہے، جس نے آگ جلائی،اور جب آگ کا اجالا آس پاس پھیل گیا، تو کیڑے پتنگے، جو آگ پر جمع ہوجاتے ہیں، وہ آآکراس میں گرنے لگے، وہ شخص ان کیڑوں پتنگوں کو اس آگ میں گرنے سے روک رہا ہے،مگر انہیں روک نہیں پارہا ہے، وہ بے تحاشا اس آگ میں گر رہے ہیں، اور جل جل کرراکھ ہورہے ہیں !میرا حال بالکل ایسا ہی ہے،میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں آگ سے دور کر رہا ہوں،کہ بچو آگ سے! بچو آگ سے! مگر تم ہو کہ اس آگ پر ٹوٹے پڑ رہے ہو ! (متفق علیہ)

اس داعی اعظم، اور اس رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کوئی وقتی کیفیت نہیں تھی،یہ آپ کی مستقل حالت تھی،گالیاں سنتے، اور دعائیں دیتے!لوگ آپ کی راہ میں کانٹے بچھاتے، آپ ان پر پھولوں کی بارش کرتے !دشمن آپ پر پتھراؤکرتے، اورآپ اپنی چوٹوں کے بجائے ان کی بد نصیبی اور ناعاقبت اندیشی پر غم کے آنسو بہاتے !

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی

سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے

سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

تبصرے بند ہیں۔