ویلنٹائن ڈے: ایک سماجی ناسور

محمد ریاض منچریال

ویلنٹائن کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے اس کو مختصر جملوں میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ:”عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا”, "محبت نے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا”,”خوب صورت خاندان کے افراد ایک دوسرے کے جان کے دشمن”,”محبت کی شادی کا دردناک انجام”،  "خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل”,”عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کردیا”۔”محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند”۔”محبت کی ناکامی پر دوبھائیوں نے خود کشی کرلی”,”محبت کی ناکامی نوجوان ٹرین کے آگے گود گیا جسم کے دوٹکڑے”۔”ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کرڈالا”۔یہ اور اس جیسے وہ اخباری سرخیا ں ہیں جو نام نہاد محبت کی بناپر معاشرتی المیہ نبی آئے روز اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔

ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟

ویلنٹائن ڈے کے متعلق یہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلنٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا,وہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور آئے دن اس کی ہوا دی جارہی ہے اور اس کو عام کرنے کے لئے ہر طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت خطرناک مرض ہے جو امت میں پھیلتا جارہاہے, یہ ویلنٹائن ڈے نہ صرف ایمان سوز ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ اخلاق سوز بھی ہے,اسی لئے دل چاہتا ہے کہ کچھ معارضات نوجوان نسل کے نام کروں۔

ویلنٹائن ڈے اخلاق سوز:

حیاء وعفت ہی ایک ایسا زیور حیات ہے جس کے بغیر زندگی ایک بے لذت و بے چینی و خاردار درخت کی طرح ہے کیونکہ آج ایک بلا خیز طوفان انسانیت کا رخ کئے ہوئے ہے،مشرق ہو یا مغرب ،مسلمان ہو غیر مسلم ،بلا استثناء سب ایک ہی مصیبت و آفت کے شکنجہ میں کسے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر ایک ایسی تہذیب حاوی ہوگئی ہے کہ جس نے سر تا پا مادیت کے آغوش میں جنم لیا ہے،اس کی حکمت عملی،وحکمت عملی دونوں کی فلک بوس عمارتیں غلط بنیادوں پر قائم ہیں،اس کا فلسفہ ،اس کا سائنس،اس کا اخلاق،اس کی معاشرت ،اس کا قانون وغیرہ ایک غلط نظریہ و نقطہ سے چل کر ایک غلط رخ پر ترقی کرتی چلی گئی ہے،اور اب اس مرحلہ تک آچکی ہے کہ جہاں سے ہلاکت کی آخری منزل حد سے حد قریب ہے،لیکن اس کے باوجود بھی مشرقی اقوام مغربی تہذیب کی تقلید میں ہی اپنی کامیابی وکامرانی گردانتے ہیں اور اس کو اپنا معبود اصلی مانتے ہوئے اس کی اندھی اتباع میں سرگرم ہیں،یہ در اصل مغرب نے بہت سوچی سمجھی سازش کے ساتھ منصوبہ بندی اور لائحۂ عمل کے تحت کرتاہوا آرہاہے اس کی تصدیق لارڈمیکالے (LORD MACAULAY 1800 1859)کے اس بیان سے ہوتی ہے جو اس نے ہندوستان کے نئے نصاب تعلیم کے تشکیل کے موقع پر کہا تھا:

"so that a generation may arise,which is Indian in birth and English in thought”

   مطلب یہ ہے کہ یہاں سے ایسی نسل اٹھے جو کہ پیدائش کے اعتبار سے ہندوستانی جور فکر کے اعتبار سے انگریزہو۔

تہذیب یا خرافات؟

   آج قوم نت نئے روایات میں پھنس کر اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کر رہی ہے،کبھی NEW YEAR کے نام سے تو کبھی ویلنٹائن ڈے VALENTINE DAY کے نام سے ،اور ویلنٹائن ڈے نے تو پوری قوم وملت ،بلا لحاظ مذہب وملت اس کے اندر پڑکر وہ شر انگیزیاں اور فتنہ سازیاں پیدا کررہی ہیں جس کی کوئی حد نہیں ہے،اور ا س روز ایسی گھناؤنی،اخلاق سوز،حیاء سوز،ایمان سوزحرکتیں وجود میں آتی ہیں کہ اس منظر کو کوئی بھی معاشرہ قبول نہیں کر سکتا،وہ مرد وزن کا اختلاط،شادی شدہ وغیر شادی شدہ کا آپس میں کارڈ تقسیم کرنااور ایک دوسرے سے اظہار محبت کرنا،نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا بلا لحاظ مذہب وملت پارٹیوں میں شرکت کرنا اور رات دیر گئے تک محفلوں کو آباد کرناوغیرہ، یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

ذرا آنکھ تو کھول:

   وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو پارٹیوں میں شرکت کو باعث فخر تصور کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مخلوط تعلیم(combine study) میں اس طرح کرنا بے انتہاء ضروری ہوتا ہے،اور اظہار محبت کرنا کوئی جرم نہیں ہے وغیرہ وغیرہ اس طرح کے دعوے قائم کرناگویا معمولی تنکے کے سہارے دعاوی کے پل کھڑا کرنا اور ریت کا پہاڑ قائم کرنا کے مرادف ہے،حقیقت یہ ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں جس چیز کے اندر اپنی کامیابی و کامرانی کو تصور کررہے ہیں وہ در اصل کوئی خوبی نہیں ہے ،بلکہ خرابی ہے،کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر خوبی جھوٹی ہے ،کیونکہ ہر خوبی کے ساتھ کوئی نہ کوئی خرابی لگی ہوئی ہے،اور اگر یہ سمجھیں کہ اگر ویلنٹائن ڈے نہ منائیں تو ترقی نہیں ہوگی،اور مغرب کی تہذیب کی اتباع و تقلید نہیں کرینگے تو کامیاب نہیں ہونگیں تو یہ سوچ غلط فہمی پر مبنی ہے ،کیونکہ علم نہ مغربی ہے نہ مشرقی،علمی انکشافات وتحقیقات ایک ایسے سلسلہ کی کڑی ہیں جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے،اور جس میں تمام بنی نوع انسان برابر کے شریک ہیں ،ہر عالم اور سائنٹسٹ ان ہی بنیادوں پر اپنی تحقیقات کی بنیاد رکھتا ہے جو اس کے پیشرؤں نے قائم کی تھیں،خواہ وہ اس قوم سے تعلق رکھتا ہو یا کسی اور قوم سے ہو،اسی طرح ایک انسان سے دوسرے انسان،ایک نسل سے دوسری نسل،ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک،تعمیر و ترقی کا کام برابر جاری رہتا ہے،یعنی ترقی کسی کسی قوم کی جاگیر نہیں ہے بلکہ جن لوگوں نے محنت کیا ،ترقی انہیں کے نام ہے ،اور جو محنت سے جی چرائے زوال ان کا مقدر ہے،اور جو قوم تہذیب کی تقلید و اتباع کئے بغیر محنت کرتی ہے وہ ترقی کے لازوال حد تک پہونچ جاتی ہے،اس کی واضح مثال موجودہ زمانہ میں جاپان کی ہے ،نوجوانان جاپان نے اتنی سخت محنت کی کہ استاد وشاگرد میں کوئی نمایاں فرق محسوس نہیں ہوا،اور اگر تاریخ کی باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس قوم پر جو حالات آئے ہیں اس سے یہ سمجھ میں آتا تھا کہ یہ قوم کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکتی،مگر انہوں نے سابقہ تہذیب جو اگرچہ ایک ناقابل اتباع ہے کو اپنایا،اور ایسی طاقت وقوت ،عزم وحوصلہ،عالی ہمت وبلندنگاہ لیکر اٹھاکہ آج بھی یورپ وامریکہ کے بازاروں میں جاپان کے اشیاء کی بڑی قیمت ہے،یہ اس بات کے لئے کافی ہے کہ تہذیب کی اتباع کے بغیر بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

مغرب خود اس بلا سے دو چار ہے:

   اور اگر حقیقت کی عمیق گہرائیوں میں جاکر دیکھا جائے تو اس وقت خود یورپ اپنے کئے پہ نادم وشرمندہ ہے،جنہوں نے اس شجر خبیث کو اپنے ہاتوں سے لگایا تھا ،اب وہ اس سے بیزار ہیں ،اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں ایسی الجھنیں پیدا کی ہیں جس کی تلافی اب اس تہذیب سے نا ممکن ہے،کیونکہ وہ جس شاخ کو کاٹتے ہیں اس کی جگہ بہت سی خاردار شاخیں نکل آتی ہیں،سرمایہ داری کو ہاتھ لگایا تو اشتراکیت نمودار ہوگئی،اجتماعی مسائل کو حل کرنا چاہا تو نسوانیت اور برتھ کنٹرول کا وجود ہوا ،اب خود اہل مغرب کسی امرت رساں کے منتظر ہیں , کیونکہ ایک خبر کے مطابق چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔

والدین اور قوم کے رہبروں کی ذمہ داری:

اب آپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی نئی نسل کی اخلاقی تربیت کریں۔ انھیں حیا باختہ تہواروں کے بارے میں آگاہ کریں کہ ہمارے مذہب اور ہماری معاشرتی اقدار کا تہذیب ہے جو ہمارے صاف ستھرے چہرے کو مسخ کرنا چاہتی ہے۔حکومت، میڈیا اور تعلیمی اداروں کے منتظمین و اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں۔ انھیں ان بے ہودہ تہواروں سے لا تعلق رہنے کی تلقین کریں اور ان دنوں ان کی خصوصی نگرانی بھی کریں کہ کہیں وہ شیطان کے جال میں پھنس کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھیں۔ یاد رکھیں! اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور تمام ذمہ داران اخلاقیات کے دشمن ان تہواروں سے صرفِ نظر کرتے رہے تو آج مغرب جس صورتِ حال سے دو چار ہے وطنِ عزیز میں اس کے پیدا ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ہماری آبادی کی اکثریت اس آگ کی تپش سے اب تک محفوظ ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر چند جھاڑیوں کو لگی آگ کو بجھا دیا جائے، ورنہ یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی…!

امید کی ایک آخری کرن:

   خلاصہ یہ ہے کہ جب وہ خود کسی امرت رساں کے منتظر ہیں تو ہماری نوجوان نسل ان کی تہذیب کی تقلید واتباع کرکے کسی بھی طرح کی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا،ہاں اب یہ وہ وقت ہے کہ مسلمان اہل مغرب کو یہ بتائیں کہ تمہارا مطلوب قرآن و حدیث میں مضمر ہے،خود ان کی اتباع کرنے کے بجائے ان کو اسلامی تہذیب کی اتباع کی دعوت دیں۔

نہیں ہے نا امید اقبال اپنے کشت ویراں سے

ذرا نم ہو، تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔