ٹوٹے کسی پہ کوہِ اَلَم تم کو اس سے کیا

رمیض احمد تقی
ہندوستان کے بدلتے سیاسی حالات کے تناظر میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ 77-1975کی طرح پھر سے ملک میں ہنگامی حالت برپا ہے۔ سبھی مذہب وملت اور مکتبۂ فکر کے اعتدال پسند لوگ،ہرایک انصاف پسندسیاست داں اور تمام انسانیت نواز پولیس افسران سکتے میں ہیں کہ آخر ہمارا ملک کہاں جارہا ہے؟وہ ملک جسے دنیائے جمہوریت میں سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کادعویٰ ہے،وہاں بھی اب انسانیت دم توڑتی ہوئی نظرآرہی ہے!ترقی کے نام پر انسانیت کا سودا ہورہا ہے! لوگ مارے جارہے ہیں! عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں! بچے اغوا کیے جارہے ہیں اور بی جے پی حکومت خاموش لب تماشائی بنی بیٹھی بزبانِ حال مجرموں کی اس حرکت پر شاداں وفرحاں ہے!گذشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک کا ایک خاص طبقہ اپنوں ہی کے ظلم وبربریت کاشکار ہے۔اب اس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش جاری ہے۔نوبت بہ این جارسید کہ خود اس کواب اپنا گھر اجنبی لگنے لگا ہے۔کبھی گجرات، تو کبھی مظفر نگر،کبھی اخلاق تو کبھی ضیامحسن اور نجیب،تو کبھی تین طلاق اوربھوپال فرضی انکاؤنٹریہ سارے واقعات کیا اشارہ کرتے ہیں؟کیابی جے پی حکومت مسلمانوں کے خون سے ڈیجیٹل انڈیا کی تاریخ رقم کرنا چاہتی ہے؟اورکیا یہ حقیقت ہے کہ بہشتِ ارضی ’کشمیر ‘ کوخون میں لت پت کیے بغر ہماری تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ہے؟کسی نے مودی کو ہٹلر کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے اندر بھی ہٹلر کی ساری صفات پائی جاتی ہیں، مگر میرا ماننا ہے کہ کسی قوم پر پیچھے سے وار کرنا یہ ہٹلری نہیں انتہائی بزدلی ہے!
درحقیقت جب سے بی جے پی حکومت میں آئی ہے ، لوگوں کے چین وسکون کو گہن لگ گیا ہے، بلکہ مودی جی نے اپنی طرح عام لوگوں کوبھی سونے کے لیے نیند کی دوا کا عادی بنا دیا ہے اور یہی ا ن کے اچھے دن کی تعبیر ہے کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ملک میں گائے کی بلی چڑھتا ہے! کوئی پولیس آفیسر اپنے حقوق کی حصول یابی کی خاطر خودکشی کرنے پر مجبور ہوتا ہے! کوئی طالب علم کالج کے ہاسٹل سے اغواکرلیا جاتاہے! بے قصور معصوم لوگوں کو فرضی انکاؤنٹر میں گولی مارکر ان کا قتل کریا جاتا ہے!نوجوان لڑکیوں کی عزت لوٹ لی جاتی ہے اور ادھیڑ عمر کی عورتیں پولیس کے ذریعہ ذلیل خوار ہوتی ہیں۔ہر شام خون آشام اور ہر صبح ظلم وبربریت کی ایک الگ کہانی رقم کرتی ہے !یہی ہیں ان کے اچھے دن اور ڈیجیٹل انڈیاکہ جب لوگ حکومتی ناجائز پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں، تو انہیں دیش دروہی ثابت کرکے ماردیاجائے!جب کوئی اپنا حق طلب کرے ، توپیلیٹ گن سے اس کے جسم کو چھلنی کردیا جائے ۔جب کوئی اپنے معاملے کا انصاف چا ہے، تواسے اغوا کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے اورجب کوئی چینل والااس سے اس کے متعلق کوئی سوال کرئے، تواس کے نشریہ پر پابندی عائد کردی جائے! واہ رے مودی تیرے اچھے دن!
ہمارے ملک کی موجود آبادی تقریباً  1,332,284,588 ہے اور میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان میں ستر فیصد سے زاید لوگ امن پسند ہیں، انسانیت کی بھلائی کے خواہاں ہیں اور ملک میں مذہبی تشدد اور ذاتی بھید بھاؤ کو ناپسند کرتے ہیں اور صرف تیس فیصدی ایسے لوگوں کی ہے جو ہمیشہ سے ملک کو آگ میں دھکیلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور وہ برہمنواد کی اولاد اور آرایس ایس کے آلۂ کار ہیں۔ 2014 کے جنرل الیکشن ہی کو دیکھ لیجیے کہ بی جے پی کوتقریباً چالیس فیصد لوگوں ہی نے ووٹ کیا تھا جبکہ ملک کی ساٹھ فیصدی سے زیادہ آبادی بی جے پی کے مخالف تھی ،مگر ہماری حرماں نصیبی ہی کہیے کہ جس کو ملک کی آدھی سے زائدآبادی ناپسند کرتی تھی آج وہ ہمارے باہمی اختلاف و انتشار کی بنیاد پر کرسیِ اقتدار پر قابض ہے۔
یہ عہدصرف مسلمانوں کے زوال کا عہد نہیں ہے،بلکہ انسانیت کے زوال کابھی عہد ہے، کیونکہ ظلم آخر ظلم ہوتا ہے ، خواہ مسلمان کرے یا مسلمانوں پر کیاجائے ،بہر حال انسانیت ہی مظلوم ہوتی ہے۔ آج پورے ملک کی جوحالت ہے،اس کی ذمہ دار کوئی پارٹی یا جماعت نہیں ہے، بلکہ ہم خود اس کے ذمہ ار ہیں، کیونکہ یہ سیاست کا طرہ رہاہے کہ وہ ا پنی فکر کو لوگوں پربے جا تھوپنے کی سعیِ ناتمام کرتی ہے اور بی جے پی اور آر ایس ایس یہی کررہے ہیں۔ غلطی تو ہماری ہے کہ ہم نے خودان کو اپنے اوپر مسلط کیا ہے ،تو ظاہر ہے کہ بھگتنا بھی ہم ہی کو پڑے گا اور یہ حقیقت ہے کہ جب معاشرے میں خودپرستی کی جنگ چھڑی ہو، تو وہاں انسانیت کی بات کرنا حماقت ہے!افسوس تو صرف اسی بات کا ہے کہ آج انسانیت کی بات تو سب کرتے ہیں، مگر انسانیت کیا ہے،کیا کوئی اس کا سبق لینا چاہتا؟ آج ہر کوئی اپنے میں مگن ہے، مگر جب کوئی ناگہانی حالات سے دوچار ہوتا ہے ،تو پھر اس وقت اسے انسانیت یاد آتی ہے۔آج جو جنگ نجیب کی ماں لڑرہی ہے، کل کو کسی اور کو لڑنا پڑے گا۔آج وہ جس کے سامنے اپنے بیٹے کی آزادی کی گوہار لگارہی ہے، کل کو اس کی جگہ کوئی اورعورت ہوسکتی، ممکن ہے ہماری ماں بھی ہو، تو غورکریں،اس وقت عام لوگوں کی عدمِ التفاتی کیا آپ برداشت کرپائیں گے؟یقینابہت دکھ ہوتا ہے جب ہم پولیس بالخصوس دہلی پولیس کو انسانیت کو شرمسار کردینے والی حرکتوں کوا نجام د یتے ہوئے دیکھتے ہیں،تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر وہ خود ان حالات اور حادثات سے دوچار ہوتے، تو اس وقت کیا یہی ان کا ردِ عمل ہوتا؟ کیا وہ غور نہیں کرتے کہ جس پولیس آفیسرنے خودکشی تھی کیا وہ ان کا اپنا نہیں تھا؟کیا مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے جسے ناکردہ گناہ کی سزا ملی، وہ ان کا رفیق کارنہیں تھا؟اورتو اور صنف نازک جن کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ عورتوں کا دل بہت نرم ہوتا ہے،وہ پڑوسی کے بچے کی موت پر اس کے باپ سے زیادہ آنسو بہاتی ہے ، کسی کا غم دیکھ کر اس کا دل جلدی بھر آتا ہے،لیکن ایک ماں تقریبا ایک ماہ سے مسلسل اپنے لال کو ڈھونڈ رہی ہے،مگر کوئی اس کو جواب نہیں دیتا۔ روروکر اس کاگلا خشک ہوگیا ہے ،مگر کوئی بھی اس کا حلق تر کرنے کے لیے روادار نہیں ہے!اس کے برخلاف دہلی کی خاتون پولیس اس مجبور وبے بس ماں کو برسرعام سڑکوں پر گھسیٹتی نظرآرہی ہے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا اس وقت اس خاتون پولیس کی کوکھ میں مروڑ پیدانہیں ہوتا؟ کیا اس کو بھی اس دکھیاری ماں کا درد سمجھ میں نہیں آتا؟جس غم میں اس ماں کا کلیجہ پھٹا جارہاہے، کیا اس کے سینے میں جوش پیدا نہیں ہوتا؟ کیاوہ اس قدر مجبور ہے کہ اپنی فطرت بھی بھول گئی؟ کیا اس کو یہ بھی احساس نہیں کہ اگرآج نجیب کی ماں کی گود سُونی ہورہی ہے، تو کیا اس کو یقین ہے کہ کل کو وہی جن کے اشاروں پر وہ فطرت سے بغاوت کررہی ہے ،اس کی گود نہ اجاڑ دے؟ سمجھ سے بالا تر ہیں وہ لوگ جو قانون کا لبادہ اوڑھ کرخود قانون شکنی کرتے ہیں۔ہردم جمہوریت کی تسبیح پڑھتے ہیں اور اور کام آمریت کا کرتے ہیں۔مگراے انسانیت کے سوداگروں ایک بات تو بتاؤ کہ کیارنگت،ذات پات اور مذہب اس قدر اہم ہیں کہ ان کی خاطر انسانیت کو مرغ بسمل بنادیا جائے؟کیا ان حاکموں اور نیتاؤں کا حکم تمہارے لیے اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ تم اپنی برادری اور فطرت کو بھی فراموش کردو؟دیکھو،غورکروکہ ہر چیز کو ذات اور مذہب سے نہیں جوڑ اسکتا اور یہ معاملہ ایسا ہے کہ اگر اس میں ہم نے مذہب کو آنے دیا اور انسانیت کو کھودیا تو بقول اروند کیجریوال کہ یہ بی جے پی والے اپنے باپ کے بھی نہیں ہیں،تو آپ خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ ابھی بھی وقت ہے ،ہم اپنی حقیقت سمجھیں۔ ہمارا اتحاد ہی ہماری اصل قوت ہے اور انسانیت کی خدمت ہماری فطرت اور وطیرۂ انسانی ہے۔ سبھی مذہب کے لوگ ایک ساتھ آئیں اور اس تاناشاہ اس حکومت کے خلاف احتجاج درج کروائیں، ورنہ آج ضیا، کل کوئی نجیب اور پرسوں آپ کی بھی باری ہوسکتی ہے!!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔