ٹیکہ کاری:ماں کی ذمہ داری!

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

بچہ ہی عورت کو ماں کا درجہ دلاتا ہے ۔ اسے سماج میں معتبر اور اعلیٰ بناتا ہے۔ اس کے قدموں میں سارا جہاں نچھاور ، اس کی خدمت میں جنت اور اس کی ناراضگی میں جہنم ۔ خدا نے ماں کو یہ اہم مقام اس لئے بھی دیا ہے کہ اس کے بغیر کائنات کے آگے بڑھنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی گود میں پل کر، بڑھ کر ، تربیت حاصل کر نئی نسل تیار ہوتی ہے۔ اسی کی دیکھ بھال میں قوم بیماریوں سے محفوظ رہتی اور طاقت ور بنتی ہے۔ نئے زمانے میں ماں کو سال میں ایک دن مدرس ڈے پر یاد کرنے کی روایت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہماری زندگی میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

ابھی یہ ننھی سی جان جسے بچہ کہہ کر پکارا جائے ماں کے رحم میں ہی ہوتی ہے کہ ماں کو اس کی پیدائش سے پہلے ہی ٹی ڈی اے پی ، ہپٹائٹس بی اور ایم ایم آر کے ٹیکے لینے ہوتے ہیں ۔ تاکہ بچے کو پیدائش کے وقت ٹیٹنس، حسرہ روبیلا اور ہپٹائٹس سے محفوظ رکھا جاسکتے۔ ٹیٹنس کا ٹیکہ تو ماں کو دو بار لینا ہوتا ہے ایک بچے کی پیدائش سے پہلے اور دوسرا پیدائش کے بعد۔ اتنا ہی نہیں ماں کو کیلشیم اور آئرن کی گولیاں بھی متواتر لینی ہوتی ہیں تاکہ بچے کی ماں کے شکم میں صحیح نشو و نما ہوسکے اور بچہ کسی طرح کمزور نہ رہے۔ ہر ماہ ماں اور بچے کی جانچ کی جاتی ہے جب تک کہ ولادت نہ ہوجائے۔ ولادت کے وقت کی تکلیف برداشت کرنے کی ہمت صرف ایک ماں میں ہی ہوتی ہے۔ پیدائش کے وقت بی سی جی ، اوپی وی کی خوارک دی جاتی ہے۔ جو بچے کو ٹی بی اور ماں کو رحم کے کینسر سے محفوظ رکھتی ہے۔ بچہ پولیو اور پیلیا (Jaundice) سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

ٹیکوں کی فراہمی جب آسان نہیں تھی یا ملک میں ٹیکوں سے واقفیت کی کمی تھی۔ اس وقت اکثر لوگ یہ شکایت کرتے تھے کہ پیدائش کے بعد بچے کے حلق میں جالی سی پیدا ہوگئی ہے جو کئی مرتبہ اس کی موت کی وجہ بھی بن جاتی تھی۔ جسے جالی کہا جاتا تھا دراصل یہ بچے پر ٹیٹنس کا اثر ہوتا تھا۔ اس وقت نومولود اور زچہ بچہ اموات در زیادہ تھی( ایک ہزار بچوں پر 140 )۔ ملک کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سرکار نے یونیسیف کی تکنیکی مدد سے ٹیکہ کاری کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ اب 27 ملین نومولود بچوں پر سرکار کی نظر ہے۔ سالانہ 9 ملین حفاظتی ٹیکہ مہم (سیشن ) کا انعقاد کرکے 26 ملین بچوں تک ٹیکے پہنچائے جاتے ہیں ۔ ٹیکوں کو محفوظ رکھنے کیلئے 27000 کو لڈ چین پوائنٹ بنائے گئے ہیں ۔

سات بیماریوں سے بچانے کیلئے ٹیکہ کاری مہم جے ای اور ہپٹائٹس کچھ مخصوص علاقوں میں چلائی جاتی ہے۔ خاص طور پر جے ای ٹیکہ مہم عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کیساتھ مل کر 177 ضلعوں میں چلائی گئی جہاں یہ بیماری اکثر ہوتی ہے۔19 صوبوں میں 103.91 ملین بچوں کو معمول کے ٹیکے لگائے گئے۔ پولیو کی روک تھام کیلئے 800 ملین بچوں کو دوا پلائی جاتی ہے۔ پولیو کا آخری معاملہ 2011 میں سامنے آیا تھا۔ ہپ والے ٹیکے 9 صوبوں میں نافذ ہیں ۔ خسرہ کو روکنے کیلئے 2010 سے 2013 کے درمیان 14 صوبوں میں مہم چلا کر 118 ملین بچوں کو ٹیکہ لگایا گیا۔ اس وقت خسرہ روبیلا کا ٹیکہ مرحلے وار ریاستوں میں بچوں کو دیا جارہا ہے ۔ یہ 9 ماہ سے 15 سال تک کے تمام بچوں کو دیا جانا ہے۔ کم صفائی والے علاقوں جیسے دیہی علاقے یا غیر منظور شدہ کالونیوں میں خسرہ کا وائرس اب بھی حملہ آور ہوجاتا ہے۔

خسرہ کی 9 ماہ پر پہلی اور 16-24 ماہ پر دوسری خوراک دی جاتی ہے۔ ایم آر ٹیکے کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایک بار تمام بچوں کو یہ ٹیکہ دے جانے کے بعد اسے معمول کی ٹیکہ کاری پروگرام میں شامل کردیا جائے گا۔ ملک میں ٹیکہ کاری مہم سے 2009 کے اندازے کے مطابق 61فیصد آبادی جڑ سکی تھی۔ اس وقت تک 65 فیصد بچوں تک ہی ٹیکے پہنچانے میں کامیابی مل سکی ہے۔ جبکہ دہلی میں یہ آنکڑا 71.51 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اچھی کارکردگی والے صوبوں میں گوا 87.9% ، سکم 85.3% ، پنجاب 86.6% ، کیرالہ 81.5%اور مہاراشٹر 78.6 فیصد کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ یہ مہم سب سے کمزور ناگالینڈ میں 27.8% اور ہریانہ کے میوات میں 13 فیصد رہی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں ٹیکہ کاری کی توسیع میں غیر برابری پائی جاتی ہے۔ اس کی جغرافیائی ، علاقائی، سماجی اور معاشی وجوہات بھی ہیں ۔ کئی صوبوں میں ضلعی سطح پر غیر برابری نوٹ کی گئی، یہ ان صوبوں میں زیادہ ہے جہاں ایمونائزیشن پروگرام کمزور ہے۔ 6 ریاستوں میں 69 فیصد بچے ایسے ہیں جنہیں کم ٹیکے لگے ہیں ۔ ان میں اترپردیش ، بہار ، مدھیہ پردیش ، راجستھان ، مغربی بنگال اور گجرات شامل ہے۔

بھارت میں ٹیکے نہ لگوانے کے پیچھے کئی طرح کی وجوہات سامنے آئیں ۔ شروع میں مذہبی حضرات نے ٹیکہ کاری کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا۔ انہوں نے عام لوگوں کے اس مہم سے جڑنے کی مخالفت کی۔ کئی ایسی باتیں بھی کہی گئیں جن کا ٹیکوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ جیسے پولیو کی دوا کے بارے میں کہا گیا کہ یہ آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے پلائی جانے والی دوا ہے۔ یا بچوں کو اس دوا سے بانجھ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے وغیرہ۔ دھیرے دھیرے یہ غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں اور مذہبی لوگ ٹیکہ کاری کی اہمیت سے واقفیت ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں نے ٹیکوں کے بارے میں کہا کہ ہم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ کچھ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی۔ کچھ نے کہا ہمیں نہیں معلوم کہ کب کونسا ٹیکہ لگتا ہے۔ کچھ نے کہا کہ ٹیکے لگانے کا وقت مناسب نہیں ہے۔ کئی کا کہنا تھا کہ ٹیکے لگوانے کیلئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ کچھ نے ٹیکہ لگنے سے بچے کے بیمار ہونے کا ڈر ظاہر کیا تو کسی نے غلط صلاح کا سہارا لیا۔ کچھ نے کہا کہ ہم ٹیکوں کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔ جبکہ سرکار کی جانب سے ٹیکے مفت میں فراہم کئے جاتے ہیں ۔

دشوار گزار علاقوں میں ٹیکوں کے نہ پہنچ پانے کی وجہ بھی سامنے آئی۔ جبکہ سرکاران علاقوں میں ٹیکے دستیاب کرانے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ کچھ نے اے این ایم کے غیر حاضر ہونے کی شکایت کی تو کچھ نے ٹیکہ لگوانے کیلئے لمبے انتظار کا حوالہ دیا۔ کسی نے ٹیکہ لگائے جانے کی جگہ کو دور بتایا تو کسی نے اس سہولت کے ان علاقوں میں فراہم نہ ہونے کی بات کہی۔ سرکار نے مشن اندردھنش کے ذریعہ اس طرح کی کئی دقتوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ کب کونسا ٹیکہ جسم کے کس حصہ میں لگایا جاتا ہے اور اس سے کیا فائدہ ہے تاکہ آپ اپنے بچوں کی نشو و نما میں اس کا خیال رکھ سکیں ۔ اور دوسروں کو بھی صحیح صلاح دے سکیں ۔ ولادت سے پہلے اور ولادت کے وقت لگائے جانے والے ٹیکوں کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ بی سی جی جوٹی بی کے خطرناک مرض سے بچوں کو محفوظ رکھتا ہے بائیں بازو میں لگایا جاتا ہے۔ بچہ 6 ہفتہ کا ہو جائے تب ڈی پی ٹی ۔ 1، او پی وی ۔1 ، ہپٹائٹس بی تین ٹیکے لگائے جاتے ہیں ۔ ڈی پی ٹی بچے کے بائیں کہلے پر لگایا جاتا ہے اس میں کالی کھانسی ، نمونیا اور ٹیٹنس سے محفوظ رکھنے کی دوائی ہوتی ہیں ۔ او پی وی پولیو سے حفاظت کرتی ہے جو بچے کو پلائی جاتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کا ٹیکہ دائیں کہلے پر لگایا جاتا ہے۔ عام طور پر اس سے بچے کو بخار آجاتا ہے۔ بخار آنے کی صورت میں ماں کو گھبرانہ نہیں چاہئے یہ دو تین دن میں خود ٹھیک ہو جاتا ہے۔ 10ہفتہ میں ڈی پی ٹی ، اوپی وی ، اور ہیپاٹائٹس بی کی دوسری اور 14 ہفتہ میں تیسری خوراک دی جاتی ہے۔

خسرہ کا ٹیکہ 9ماہ پر دیا جاتا ہے اور وٹامن اے کی خوراک پائی جاتی ہے۔ دوسری خوراک 24-16ماہ پر ۔ اسی وقت ڈی پی ٹی، او پی وی کی بومسٹر خوراک دی جاتی ہے۔ یعنی پہلے ٹیکے کی طاقت بڑھانے کیلئے۔ اسی دوران متاثرہ اضلاع یا صوبوں میں جے ای کا ٹیکہ فراہم کیا جاتا ہے۔ پانچ سال پر ڈی پی ٹی کی بوسٹر خوراک دی جاتی ہے۔ دس سال اور 16 سال پر بچوں کو ٹی ٹی کے ٹیکے دے جاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ کھیل کود کی وہ عمر ہوتی ہے جب بچے گر کی پھسل کر چوٹ پھینٹ مارلیتے ہیں ۔ یہ دونوں ٹیکے ان کے جسم میں ایسی طاقت پیدا کر دیتے ہیں کہ تھوڑی بہت چوٹ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنے آپ ٹھیک ہو جاتی ہے۔

ٹیکہ کاری بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا سستا اور کار گر طریقہ ہے۔ ضلع اسپتال ، پرائمری ہیلتھ سینٹر، سب سینٹر اور آنگن واڑی مراکز پر ٹیکوں کا کارڈ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ مائوں کو وقت پر ٹیکا لگوانا یاد رہے۔ اور یہ معلوم رہے کہ ان کے بچے کو کونسا ٹیکہ لگ چکا ہے، کونسا باقی ہے۔ آج کل بچے کے نرسری میں داخلہ کے وقت ٹیکہ کارڈ کی کاپی طلب کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ اسکول میں آنے والا بچہ وائرس اور بیکٹریا سے ہونے والی بیماریوں سے کتنا محفوظ ہے۔ بچوں کو ذہنی و جسمانی طور پر مضبوط بنانے اور ملک کو صحت مند رکھنے کیلئے مائوں کو اتنی زحمت تو اٹھانی ہی پڑے گی۔ بچے صحت مند ہوں گے تبھی ملک صحت مند رہے گا اور ترقی کرے گا۔

تبصرے بند ہیں۔