پانچ ریاستوں  کے انتخابی نتائج کے روشن اور تاریک پہلو!

عبدالعزیز

 جہاں  تک تاریک پہلو کی بات ہے تو وہ اتر پردیش اور اترا کھنڈ کے انتخابی نتائج سے صاف طور پر نظر آرہا ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کے الیکشن جیتنے کی ٹریک (Trick) پورے طور پر کامیاب ہے۔ دونوں  نے مل کر دس گیارہ مہینے سے پولرائزیشن کی اسکیم شروع کی  ۔ پہلے کیرانہ سے ہندوؤں  کے اخراج کا مسئلہ اٹھایا کہ مسلمانوں  کی جارحیت کی وجہ سے کیرانہ جیسے علاقہ کو ہندو اسی طرح چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں  جیسے پنڈت کشمیر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اگر چہ اس معاملے میں  میڈیا والوں  نے اچھا رول ادا کیا پھر بھی مودی-شاہ نے اتر پردیش کے ہندو بھائیوں  کو یہ پیغام دینے میں  کامیاب ہوگئے کہ اکھلیش اور ملائم سنگھ کی حکومت کی وجہ سے مسلمان مضبوط ہورہے ہیں  اور ہندو کمزور ہورہے ہیں ، حالانکہ بات بالکل غلط اور لغو تھی مگر سچ دب کے رہ گیا اور جھوٹ کو اکثریت نے تسلیم کرلیا۔ یہ اتر پردیش کے ہندوؤں  کو اچھی طرح معلوم تھا کہ سماج وادی پارٹی کی وجہ سے اتر پردیش میں  دو ڈھائی سو فسادات ہوئے جس میں  مسلمانوں  کے جانی و مالی نقصانات بڑے پیمانے پر ہوئے۔ صرف مظفر نگر میں  مسلمانوں  کے تیس بتیس گاؤں  نیست و نابود کر دیئے گئے اور تقریباً 75 ہزار مسلمان بے گھر ہوگئے۔ آج تک وہ در در کی ٹھوکریں  کھا رہے ہیں ۔ مسلمان سماج وادی پارٹی سے بدظن تھے مگر اکثریت کو کیرانہ نظر آیا، مظفر نگر کوبھول گئے۔ جہاں  جاکر نریندر مودی نے فسادیوں  کے گلے میں  پھولوں  کا ہار پہنایا تھا۔

  مودی-شاہ نے رام مندر، گائے کے تحفظ، تین طلاق کے خاتمے جیسے بے بنیاد مسائل اٹھائے، جس سے پورے اتر پردیش میں  فرقہ پرستانہ ماحول پیدا ہوا اور پولرائزیشن ہوا۔ آخر میں  جو بچی کھچی کسر تھی مودی نے قبرستان، شمشان گھاٹ، رمضان اور دیوالی پر تبصرہ کرکے پوری کردی اور فرقہ پرستی کا ماحول پورے عروج پر آگیا۔ نوٹ بندی کو غریب ووٹروں  نے امیروں  کیلئے سزا تصور کیا کہ اس سے امیروں  کا نقصان ہوگا اور کالا دھن باہر آجائے گا۔ اس کی وجہ سے مودی کو غریب ووٹروں  نے چمپئن تک کہنا شروع کر دیا۔ مودی اور شاہ نے غریبوں  کو بڑے بڑے خواب دکھانے میں  بھی کامیاب ہوئے۔ غریبوں  کو مفت لیپ ٹاپ اور طلبہ و طالبات کو فری انٹرنیٹ، بارہویں  جماعت تک لڑکوں  کو تعلیم اور لڑکیوں  کو گریجویٹ تک مفت تعلیم دینے کا وعدہ۔ ہر کسان گھر کو ایل پی جی (LPG) کا نیا کنکشن فری دینے کی بات بھی غریبوں  کیلئے جادو کا کام کیا۔

جہاں  تک مایا وتی کے پانچ سال پہلے کی حکومت کی بدعنوانیاں  تھیں  اسے لوگ بھولے نہیں  تھے۔ اکھلیش کی حکومت کی خرابیوں  پر سب کی نظر تھی ۔ اگر چہ ان کے دور حکومت میں  ترقی اور فلاح کے کچھ کام ضرور ہوئے تھے مگر حکومت کا چہرہ اخلاقی لحاظ سے انتہائی کمزور تھا۔ عین الیکشن سے کچھ پہلے باپ بیٹے اور چچا بھتیجے میں  جو خاندانی جھگڑے ہوئے ، نیوز چینلوں  پر ٹیلی کاسٹ ہوئے۔ اس سے نہ صرف خاندان کا چہرہ بگڑا بلکہ حکومت کا چہرہ بھی مجروح ہوا۔ اکھلیش نے آخر میں  اپنی چالاکی اور عقلمندی کا مظاہرہ ضرور کیا کہ مسلمانوں  کو ساتھ لینے کیلئے راہل گاندھی کو اپنے ساتھ لیا اور نعرہ دیا کہ دونوں  کا یہ ساتھ یوپی کو پسند ہے مگر اکھلیش اور راہل پر اتر پردیش کے عوام نے بھروسہ نہیں  کیا بلکہ مودی اور شاہ کی فرقہ پرستی اور دکھائے گئے خوابوں  پر زیادہ بھروسہ کیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اکھلیش کی حکومت کی لاقانونیت اور غنڈہ گردی لوگوں  کے سامنے تھی اور بی جے پی کے چودہ سال پہلے کے سیاہ کارنامے لوگ بھول چکے تھے۔ اترا کھنڈ میں  کانگریس کی جو بری حالت ہوئی اس کی وجہ کانگریس کی اترا کھنڈ کی قیادت تھی جس سے بہت سے کانگریس بدظن تھے۔ راہل گاندھی اگر وہاں  کی قیادت کو بروقت بدل سکتے تو شاید اتنے خراب نتائج سامنے نہیں  آتے۔ راہل گاندھی نے آسام میں  بھی قیادت کو بروقت نہ بدلنے سے کوئی سبق نہیں  لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راہل گاندھی کے اندر قوت فیصلہ نام کی چیز بہت کم ہے۔

 بہر حال یہ سب تو 2017ء کے الیکشن کے تاریک پہلو ہیں ۔ ان سے اپوزیشن کو سبق لینے اور بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ روشن پہلو یہ ہے کہ کانگریس کی پنجاب میں  بھاری اکثریت سے جیت ہوئی۔ منی پور اور گوا میں  بھی اگر چہ اکثریت حاصل کرنے میں  ایک دو سیٹوں  سے پیچھے ہے مگر سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اگر بی جے پی خریدو فروخت کا بیوپار نہیں  کرے گی تو ان دونوں  ریاستوں  میں  کانگریس کی حکومت ہوجائے گی۔ بی جے پی نے دھاندلی کی جب بھی کانگریس پرنسپل اپوزیشن کا رول ادا کرے گی۔ اس اپوزیشن کی پوزیشن کو بی جے پی چھین نہیں  سکتی۔ مذکورہ تین ریاستوں  میں  کانگریس کی نمود سے کانگریس کی بحالی کے امکانات روشن ہوئے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی جس کے بارے میں  یہ گمان تھا کہ پنجاب اورگوا میں  اس کی حکومت ہوجائے گی۔ اگر ایساہوتا تو کانگریس کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہوتا اور اس کی بحالی کے امکانات معدوم ہوجاتے اور کانگریس کی جگہ آہستہ آہستہ عام آدمی پارٹی لے لیتی۔ اب کانگریس کو تین ریاستوں  میں  پیر جمانے کی وجہ سے پرنسپل اپوزیشن پارٹی ہونے پر کوئی پارٹی چیلنج کرنے کی پوزیشن میں  نہیں  ہے۔

 جہاں  تک راہل گاندھی کی قیادت کا معاملہ ہے تو ایسا لگتا ہے کہ لوگوں  کو قابل قبول نہیں  ہے۔ اگر کانگریس کے اندر سے کسی کو ابھی سے قیادت کے منصب کیلئے ابھاریں  جس کو حکمرانی کا اچھا خاصہ تجربہ ہو اور الیکشن میں  فیصلہ کن رول ادا کرنے کا بھی تجربہ ہو تو شاید 2019ء میں  نریندر مودی کا مقابلہ آسان ہوسکتا ہے۔ کیپٹن امریندر سنگھ اس فارمولہ پر کھرے اترتے ہیں ۔ ان کو نہ صرف حکمرانی کا گُر معلوم ہے بلکہ الیکشن میں  دوبار کامیابی کا اچھا خاصہ تجربہ ہے۔ سکھ ہونے کی وجہ سے ان کی قیادت آڑے نہیں  آئے گی۔ یو پی اے II کیلئے منموہن سنگھ کو ہی وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر کانگریس نے اجاگر کیا تھا جس میں  کانگریس کی سیٹیں  بڑھی تھیں  اور اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے میں  کامیاب ہوئی تھی۔ جمہوریت میں  لیڈر شپ کا بڑا مقام ہوتا ہے۔ اس وقت پارٹی اور اصول سے کہیں  زیادہ عوام قیادت پر ہی نظر رکھتے ہیں  اور اسی پر بھروسہ کرکے ووٹ دیتے ہیں ۔ اس طرح قیادت ہی اصل چیز ہوگئی ہے۔ پارٹی اور اصول جیسی اہم چیزیں  پس پشت ہوکر رہ گئی ہیں ۔

 جب کوئی پارٹی کے اندر پورے طور پر سیاہ و سفید کا مالک ہوجاتا ہے تو پارٹی غیر جمہوری ہوجاتی ہے۔ پارٹی کے لوگوں  کو جو چیز سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور سمجھ میں  آتی ہے وہ ہے الیکشن میں  کامیابی۔ آج بھاجپا میں  ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے لوگ کنارے کر دیئے گئے ہیں ۔ پارٹی میں  نریندر مودی اور مودی کے حاشیہ بردار امیت شاہ سب کچھ ہیں  کیونکہ الیکشن میں  پارٹی کو کامیابی دلانے میں  کامیاب ہیں ۔ مودی کو آر ایس ایس کے کیڈرس بھی پسند کر رہے ہیں ۔ مودی ہندوتو کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں  بھی کامیاب ہیں ۔ اس پر کسی قسم کی مفاہمت یا مصالحت کرنے کیلئے بھی تیار نہیں  ہیں ۔ کسی ملک کی جمہوریت کا یہ تاریک ترین پہلو ہے کہ پارٹی غیر جمہوری ہو اور وہ اپنے کرتب سے کامیاب ہوتی چلی جائے۔

 کانگریس میں  بھی جمہوری ماحول نہیں  ہے مگر کانگریس کے اندر ایسے لوگ اب بھی ہیں  جو قیادت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔ پنجاب کے کیپٹن امریندر سنگھ کئی بار راہل گاندھی کی قیادت پر نکتہ چینی کرچکے ہیں ۔ اسی طرح اور کئی ایسے نوجوان ہیں  جو کانگریس کے اندر جمہوریت کی کمی کا احساس بیدار کرتے رہتے ہیں ۔ چند دن پہلے چدمبرم کے بیٹے نے کانگریس اور دیگر پارٹیوں  کو پرائیوٹ لمیٹڈ پارٹی کہا۔ کانگریس کے اندر اب بھی جمہوریت کی سانس باقی ہے۔ ضرورت ہے کہ خاندانی راج اس کے اندر سے ختم ہو۔ جمہوریت کا چلن پیدا ہو تاکہ اندر سے لیڈر شپ ابھر سکے اور فرقہ پرستی کا مقابلہ کرسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔