انسان کی کمزوریاں!

 دوسرا درجہ ان برائیوں کا ہے جو اساس و بنیاد کو تو نہیں ڈھاتیں مگر اپنی تاثیر کے لحاظ سے کام بگاڑنے والی ہیں اور اگر تساہل و تغافل برت کر ان کو پرورش پانے دیا جائے تو تباہ کن ثابت ہوتی ہیں ۔ شیطان انہی ہتھیاروں سے خیر کی راہ مارنے اور انسانی کوششوں کو بھلائی سے برائی کی طرف موڑنے اور معاشرے میں فساد ڈلوانے کا کام لیتا ہے۔ اگر چہ معاشرے کی صحت کیلئے ہر حال میں ان عیوب کا سد باب ضروری ہے، لیکن خصوصیت کے ساتھ ان افراد اور جماعتوں کو تو ان سے بالکل پاک رہنا چاہئے جن کے پیش نظر اصلاح معاشرہ اور اقامت دین حق کا مقصد عظیم ہو۔

 اس نوعیت کے عیوب کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا منبع در اصل انسان کی بعض مخصوص کمزوریاں ہیں جن میں سے ہر ایک عیب کے ایک پورے خاندان کو جنم دیتی ہے۔ سہولت فہم کیلئے مناسب طریقہ یہ ہوگا کہ ہم ایک کمزوری کو لے کر پہلے اس کی حقیقت کو سمجھیں پھر یہ دیکھیں کہ وہ کس طرح کس تدریج سے عیب آفرینی بنتی ہے۔ اور نشو و نما پاکر کیا کیا خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ اس طرح ہر برائی کا سرا ہم کو مل جائے گا اور ہم یہ جان سکیں گے کہ اس کی اصلاح کیلئے کس جگہ مرہم تدبیر استعمال کرنا چاہئے۔

 1)  نفسانیت: انسان کی کمزوریوں میں سے سب سے بڑی اور سخت فساد انگیز کمزوری ’’نفسانیت‘‘ ہے۔ اس کی اصل تو حب نفس کا وہ فطری جذبہ ہے جو بجائے خود کوئی بری چیز نہیں بلکہ اپنی حد کے اندر ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ انسان کی فطرت میں اس کی بھلائی کیلئے ودیعت فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت اور اپنی فلاح و ترقی کیلئے کوشش کرے، لیکن جب یہی جذبہ شیطان کی اکساہٹ سے عشق نفس اور پرستش نفس اور خود مرکزیت میں تبدیل ہوجاتا ہے تو مصدرِ خیر ہونے کے بجائے منبع شر بن جاتا ہے اور پھر ہر درجہ ارتقا میں اس سے عیوب کا ایک نیا سلسلہ وجود میں آتا چلا جاتا ہے۔

 خود پسندی: برائی کی طرف اس جذبے کی پیش قدمی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جگہ اپنے آپ کو بے عیب اور مجموعۂ محاسن سمجھ بیٹھتا ہے۔ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا احساس کرنے سے اغماض برتتا ہے اور اپنے ہر نقص یا قصور کی تاویل کرکے اپنے دل کو مطمئن کرلیتا ہے کہ میں ہر لحاظ سے بہت اچھا ہوں ۔ یہ خود پسندی پہلے ہی قدم پر اس کی اصلاح و ترقی کا دروازہ اس کے اپنے ہاتھوں سے بند کر دیتی ہے۔

  پھر جب یہ ’’من چہ خوب‘‘ کا احساس لئے ہوئے آدمی اجتماعی زندگی میں آتا ہے تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ اس نے اپنے آپ کو فرض کر رکھا ہے۔ وہی کچھ دوسرے بھی اسے سمجھیں ۔ وہ صرف تعریف و تحسین سننا چاہتا ہے۔ تنقید اسے گوارا نہیں ہوتی۔ خیر خواہانہ نصیحت تک سے اس کی خودی کو ٹھیس لگتی ہے۔ اس طرح یہ شخص اپنے لئے داخلی وسائل اصلاح کے ساتھ خارجی وسائل اصلاح کا بھی سدباب کرلیتا ہے۔

مگر کوئی شخص بھی دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتا جس کو اجتماعی زندگی میں ہر لحاظ سے اپنی خواہش اور اپنی پسند ہی کے مطابق حالات مل جائیں ، خصوصیت کے ساتھ خود پسند اور خود پرست آدمی کو تو یہاں ہر طرف سے چرکے لگتے ہیں کیونکہ اس کی خودی اپنے اندر وہ اسباب لئے ہوئے آتی ہے جو معاشرے کی بے شمار خوبیوں کے ساتھ اس کا تصادم ناگزیر کرا دیتے ہیں ۔ اور معاشرے کے مجموعی حالات بھی اس کی توقعات اور خواہشات سے خواہ مخواہ ٹکراتے ہیں ۔ یہ صورت حال اس شخص کو صرف اس حد پر نہیں رہنے دیتی کہ وہ بس اپنی اصلاح کے داخلی و خارجی وسائل سے محروم ہوکر رہ جائے بلکہ دوسروں سے تصادم کے چرکے اور توقعات کی شکست کے صدمے اس کی مجروح خودی کو پیہم ایک سے ایک شدید تر برائی میں مبتلا کرتے چلے جاتے ہیں ۔ وہ بہت سے لوگوں کو زندگی میں اپنے سے بہتر پاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے متعلق وہ محسوس کرتا ہے کہ معاشرہ ان کو اس سے زیادہ وقعت دے رہا ہے۔ بہت سے لوگ اس کو وہ وقعت نہیں دیتے جس کا وہ طالب ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اس کے مراتب تک پہنچنے میں مانع ہوتے ہیں جن کا وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے۔ بہت سے لوگ اس پر تنقید کرتے ہیں بلکہ اس کی تنقیص تک کر ڈالتے ہیں ۔ یہ مختلف حالات اس کے دل میں کسی کے خلاف حسد کی اور کسی کے خلاف بغض اور کینہ کی آگ بھڑکا دیتے ہیں ۔ وہ دوسروں کے حالات کا تجسس کرتا ہے۔ دوسروں کے عیب ڈھونڈتا ہے، غیبتیں سن کر لذت لیتا ہے۔ چغلیاں کھاتا ہے۔ نجویٰ اور سرگوشیاں اور سازشیں کرتا پھرتا ہے اور اگر اس کے اخلاق کی بندشیں ڈھیلی ہوں یا ان مشاغل میں پیہم مشغول رہنے سے ڈھیلی ہوجائیں تو پھر ان گناہوں سے آگے بڑھ کر جھوٹ، افترا، بہتان اور دوسرے قبیح تر جرائم کا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔ ان برائیوں کے چکر میں پھنس کر وہ اخلاق کی انتہائی پستیوں تک پہنچنے سے نہیں بچ سکتا۔ الّا یہ کہ کسی مرحلہ پر پہنچ کر اسے خود ہی اپنی اس ابتدائی غلطی کا احساس ہوجائے جس نے اسے اس راستے پر ڈالا تھا۔

 یہ کیفیت اگر کسی ایک ہی شخص کی ہو تو اس سے کوئی اجتماعی فساد رونما نہیں ہوتا۔ اس کا اثر زیادہ سے زیادہ چند اشخاص تک پہنچ کر رہ جاتا ہے لیکن اگر اسی نفسانیت کے بہت سے مریض موجود ہوں تو ان کے شر سے پوری اجتماعی زندگی میں فساد پھیل جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاں آپس کی بدظنی، تجسس، عیب چینی، غیبت اور چغل خوری کا ایک سلسلہ چل رہا ہو، جہاں بہت سے لوگ دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف برائی پال رہے ہوں اور بغض و حسد کی بنا پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوں ۔ اور جہاں بہت سی مجروح خودیاں انتقام کے جذبات سے لبریز ہوں وہاں پھوٹ پڑے بغیر نہیں رہ سکتی۔ وہاں کوئی چیز دھڑے بندیوں کو روک نہیں سکتی۔ وہاں کسی تعمیری تعاون کا تو درکنار، تعلقات کی خوشگواری تک کا امکان باقی نہیں رہتا۔ ایسے ماحول میں کشیدگی اور کشمکش ناگزیر ہے اور وہ صرف نفسانیت کے مریضوں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ رفتہ رفتہ اچھے خاصے نیک نفس لوگ اس میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ ایک نیک نفس آدمی منھ پر تو بجا تنقید ہی کو نہیں بے جا تنقید کو بھی گوارا کرسکتا ہے مگر غیبت اس کے دل میں غبار پیدا کئے بغیر نہیں رہتی اور اس کا کم از کم اتنا اثر تو ہوتا ہی ہے کہ غیبت کرنے والوں پر اعتماد کرنا اس کیلئے ممکن نہیں رہتا۔ اس طرح ایک نیک نفس آدمی ان سب زیادتیوں کو معاف کرسکتا ہے جو بغض یا حسد کی بنا پر اس کے ساتھ کی جائیں ۔ وہ بدگوئی، الزام تراشی، جھوٹے پروپیگنڈے اور اس سے بھی زیادہ اذیت بخش چیزوں کو بھی نظر انداز کرسکتا ہے لیکن اس کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ جن لوگوں سے ان صفات کا ذاتی تجربہ اس کو ہوچکا ہو، ان سے وہ اطمینان کے ساتھ کوئی معاملہ کرکرسکے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس اجتماعی ماحول میں یہ عیوب بروئے کار آجاتے ہیں وہ کس طرح شیطان کی من بھاتی چرا گاہ بن کر رہتا ہے، حتیٰ کہ اس میں بہتر سے بہتر آدمی بھی چاہے کشمکش سے بچ جائیں کشیدگی سے نہیں بچے رہ سکتے۔

 اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ جو لوگ اصلاح و تعمیر کیلئے اجتماعی جدوجہد کرنا چاہتے ہوں ان کی جماعت کا ان افراد سے پاک ہونا کس قدر ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نفسانیت کے جراثیم ایسی جماعت کیلئے طاعون اور ہیضے کے جراثیم سے زیادہ خطرناک ہیں ۔ ان کی موجودگی میں کسی تعمیر صالح کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

  توبہ و استغفار : شریعت الٰہی اس مرض کے آغاز سے اس کا علاج شروع کرتی ہے اور پھر ہر مرحلے پر اس کے سد باب کیلئے ہدایات دیتی ہے۔ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اہل ایمان کو توبہ و استغفار کی جو تلقین کی گئی ہے۔ اس کا منشا یہی ہے کہ مومن کسی وقت بھی اعجابِ نفس اور خود پسندی میں مبتلا نہ ہو۔ کبھی اپنے آپ کو بڑی چیز نہ سمجھے۔ ہر وقت اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا احساس اور اپنی خطاؤں اور لغزشوں کا اعتراف ہی کرتا رہے اور بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دینے کے بعد بھی اس پر پھولنے کے بجائے عاجزی کے ساتھ اپنے خدا کے حضور سہی درخواست پیش کرے کہ خدمت میں کوتاہیاں رہ گئی ہیں ۔ ان سے درگزر فرمایا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر مجموعۂ کمالات اور کون ہوسکتا ہے اور آپ سے بڑا کارنامہ دنیا میں کس انسان نے انجام دیا ہے مگر تاریخ کے اس عظیم ترین کارنامے کو انتہا تک پہنچا کر جب آپؐ فارغ ہوئے تو دربارِ الٰہی سے جو تلقین آپ کو فرمائی گئی وہ یہ تھی کہ :

 ’’جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح نصیب ہوگئی اور تم نے لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے دیکھ لیا تو اب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اور اس سے مغفرت چاہو یقینا وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘ (القرآن)۔

یعنی جو کارِ عظیم تم نے انجام دیا اس کے متعلق تم یہ سمجھو کہ اس کی تعریف تمہیں نہیں بلکہ تمہارے رب کو پہنچتی ہے جس کے فضل و کرم سے تم اتنا بڑا کام کر دکھانے میں کامیاب ہوئے اور اپنے متعلق تمہارا احساس یہی ہونا چاہئے کہ جو حق خدمت تھا وہ پھر بھی ادا نہ ہوا۔ اس لئے انعام مانگنے کے بجائے اپنے رب سے یہ دعا کرو کہ خدمت میں جو کچھ کسر رہ گئی ہے، اس سے در گزر فرمائیے ، چنانچہ بخاری میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے پہلے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتا ہوں اور اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں اور ویسے بھی توبہ و استغفار ہمیشہ ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا‘‘۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ انھوں نے حضورؐ کو فرماتے سنا کہ ’’خدا کی قسم میں ہر روز ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں ۔ اس تعلیم کی روح کو اگر کوئی شخص اپنے اندر جذب کرلے تو اس کے ذہن میں نفسانیت کا وہ بیج کبھی جڑی ہی نہیں پکڑ سکتا جو برگ و بار لاکر فتنہ و فساد کے بِس سے بھرے پھل دیتا ہے۔

  کلمۂ حق کا اظہار: اس پر بھی اگر کسی نفس میں یہ خرابی پیدا ہو ہی جائے تو شریعت الٰہی اخلاق اور عملی رویہ میں اس کے ظہور اور نشو و نما کو ہر قدم پر روکتی ہے۔ اور اس کے بارے میں سخت احکام دیتی ہے، مثلاً اس کا پہلا ظہور اس شکل میں ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتا اور منوانے کی کوشش کرتا ہے اور اس بات کو برداشت نہیں کرتا کہ کوئی شخص اسے غلطی پر ٹوکے۔ شریعت الٰہی اس کے برعکس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تمام اہل ایمان پر لازم کرتی ہے اور خاص طور پر ذی اقتدار ظالموں کے مقابلے میں کلمۂ حق کہنے کو تو افضل الجہاد قرار دیتی ہے تاکہ مسلم معاشرے میں برائی پر ٹوکنے اور بھلائی کی تلقین کرنے کا ایسا ماحول پیدا ہوجائے جس میں نفسانیت پنپ ہی نہ سکے۔

  بغض و حسد: اس کا دوسرا ظہور بغض و حسد کی شکل میں ہوتا ہے جسے آدمی ہر اس شخص کے خلاف دل میں پالنا شروع کر دیتا ہے جس سے اس کی نفسانیت کو چوٹ لگی ہو اور پھر اس سے تعلقات کی خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔ شریعت الٰہی اس چیز کو گناہ قرار دیتی ہے اور اس پر سخت وعید سناتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’خبر دار! حسد نہ کرو کیونکہ حسد آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو چٹ کر جاتی ہے‘‘۔ احادیث میں متعدد الفاظ کے ساتھ حضورؐ کے یہ تاکیدی ارشادات وارد ہوئے ہیں کہ ’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو‘‘۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو۔ ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو۔ ایک دوسرے سے قطع کلام نہ کرو۔ کسی مسلم کیلئے حلال نہیں ہے کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلقات توڑے رکھے۔

  بدگمانی: اس کا تیسرا قدم بدگمانی کی طرف اٹھتا ہے اور پھر تجسس کر کرکے آدمی دوسروں کے عیوب ٹٹولنے لگتا ہے۔ بدگمانی کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے سوا ہر ایک کے متعلق یہ ابتدائی مفروضہ قائم کرتا ہے کہ وہ ضرور برا ہے اور بظاہر اس کی جو چیز قابل اعتراض نظر آتی ہے اس کی کوئی اچھی توجیہ کرنے کے بجائے ہمیشہ بری توجیہ کرتا ہے اور تحقیق کی بھی ضرورت نہیں سمجھتا۔ تجسس اسی بدگمانی کا ایک شاخسانہ ہے۔ آدمی دوسروں کے متعلق پہلے ایک بری رائے قائم کرتا ہے پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کیلئے ان کے حالات کی ٹوہ لگانی شروع کرتا ہے۔ قرآن ان دونوں چیزوں کو گناہ قرار دیتا ہے۔ سورۂ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بہت گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کرو‘‘۔ حدیث میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے۔ ’’خبردار! بدگمانی نہ کرو کیونکہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ہم کو ٹوہ لگانے اور عیوب ٹٹولنے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ اگر ہمارے سامنے کوئی بات کھل جائے تو اس پر ہم پکڑیں گے‘‘۔ حضرت معاویہؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم مسلمانوں کے پوشیدہ احوال کی کھوج کرید کروگے تو ان کو بگاڑ دوگے‘‘۔

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔