پاپا میں ہندو نہیں مسلمان ہو گیا ہوں!

اسامہ عاقل حافظ عصمت اللہ ، راگھو نگر بھوارہ

clip_image002

ہر طرف دنگا فساد ہندو مسلم میں لڑا ئی راہل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اس سے پہلے کہ ماریہ کے منہ سے چیخ نکلتی راہل نے کس کر اس کا منہ دبا لیا اس کی سانس رک رک کے چل رہی تھی ۔ ایک لمحہ بعد ہی ای سا لگا کے ماریہ کا سارا بو جھ اس پر آ پڑا ہے وہ بے ہو ش ہو گئی تھی ۔ راہل نے احتیاط سے الماری کے پیچھے بیٹھا دیا چھو ٹی موٹی آوازوں کو سن نے کی وہاں کسی کو فرصت نہیں تھی ۔ سب ایک جنون میں تھے بھیانک چیخ و پکار مچی ہو ئی تھی ۔ سبھی کے چہرہ سے وحشت ٹپک رہی تھی ۔ شہر میں ہندو مسلم دنگے چھڑ گئے تھے ۔ نہیں ، نہیں وہ مجھے نہیں مار یںگے بھلا میں نے ان کا کیا بگارا ہے ۔
راہل نے سو چا پھر خو د ہی سے سوال کیا آخر ان لوگوں نے ما ریہ کے پاپا کو اس بے رحمی سے کیوں ما ر ڈالا ، کیا بگاڑا تھا انہوں نے ان لوگوں کا ماریہ کے پاپا کتنے اچھے تھے وہ حیوان نہیں انسان تھے ۔ سب کے فکر کرنے والے سب کے دکھ درد میں حصہ بانٹنے کو تیار اور ایک ہیں میرے پاپا اپنے پاپا کا خیال آتے ہی اس کے ہونٹ سختی سے بھینچ گئے آج اپنے پاپا کا اصلی روپ اس نے دیکھ لیا تھا ۔ پہلے اگر کو ئی اس سے اس بات کو کہتا تو وہ کسی قیمت پر یقین نہیں کرتا لیکن ابھی ابھی یہ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو اتھا ۔ اور اس پر یقین نہ کر نے کی کو ئی وجہ نہیں تھی یکایک کسی نے ماریہ کے پاپا کے مردہ جسم پر مٹی کا تیل چھڑک دیا اس نے دیکھا خو د اس کے پاپا نے ماچس جلا کر ماریہ کے پاپا پر پھینک دی لمحہ بھر میں کمرہ اور کمرے کا سارا سامان دھو دھو کر جلنے لگا ۔ راہل کی آنکھوں سے غصہ کی چنگا ریاں نکلنے لگی پھر وہ سب کمرہ سے نکل بھا گے باہر جے بجرنگ بلی کے نارے لگ رہے تھے جس سے سارا شہر گونج رہا تھا ۔ آگ بجھانا نا ممکن تھا ، ماریہ کے پاپا کے زندہ بچے جانے کا سوال ہی نہ تھا ۔ اس نے سو چا کہ اب ماریہ کی فکر کرنی چا ہئے وہ بھی بے ہوش ہو گئی تھی ۔ اس نے اسے ہلایا ڈلایا پر اسے ہوش نہیں آیا ۔ آگ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور خو د ہی وہ ان تک بھی پہنچ سکتی تھی ۔ راہل تیزی سے دوسرے کمرے کی طرف بھا گا اور ایک جگہ پانی بھر لایا اور پو را جگ اس نے ماریہ کے منہ پر چھڑک دیا کچھ منٹوں میں ماریہ نے آنکھیں کھول دیں آگ کی بھیانک لپٹوں کو دیکھ کر وہ پھر چیخ پری را ہل نے اسے سمجھایا ، اب رونے کا وقت نہیں ہے ما ریہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا آﺅ یہاں سے بھا گ چلیں ورنہ کچھ دیر میں ہم  بھی آگ سے گھر جا ئیں گے ۔ یہاں آدم خو ر جانور آئے ہو ئے ہیں ہم سب بھی مارے جا ئیںگے جلدی سے بھاگ چلیں ۔
ماریہ نے خو ف زدہ ہرنی کی طرح اسے دیکھا اور اٹھ کھڑی ہو ئی وہ جانتی تھی کہ یہاں سے بھا گ لینے میں ہی خیریت ہے ۔ دونوں جھٹ کر پچھلے دروازے تک آئے راہل جھا نک کر دیکھا دور تک کسی کا نام و نشان نہ تھا ۔ کئی گھروں سے آگ کی لپٹیں نکل رہی تھی دور کہیں ما ر و ، کاٹو گا ئے ماتا ، وغیرہ وغیرہ کی آوازیں آرہی تھیں اسنے ماریہ کا ہا تھ پکرا اور اپنے گھر کی طرف بھاگا جو یہاں سے کچھ ہی دور پرتھا ۔ کاش ! وہ پہلے ہی اپنے گھر پہنچ سکتا پھر اسے یہ بھیانک منظر نہ دیکھنا پڑتا ۔ ہو ا یہ تھا کہ جیسے ہی کا لج سے چھٹی ہو ئی وہ اور ماریہ معمول کے مطابق اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو ئے ۔ محلے سے کچھ دور ہو ئے کہ پیچھے سے ۱یک وحشیمارو کاٹو کا شو ر مچا تی ان کے پیچھے لپکی انہوں نے سمجھا کہ وہ لوگ ان کے پیچھے ہیں دونوں ہی تیزی سے بھا گے اور جیسے اپنے محلے میں گھسے تو اپنے سامنے سے ویسی ہی وحشی بھیڑ نظر آئی ۔ راہل نے دیکھا کہ اس بھیڑ میں اس کے پاپا بھی تھے ۔ ایک لمحہ کے لئے خیال آیا کہ وہ دوڑ کر اپنے پاپا کے پاس چلا جائے ما ریہ کا خیا ل آتے ہی اس نے اپنا ارادہ بدل دیا ۔ ما ریہ کا گھر وہاں سی بہت نز دیک تھا اس لئے اس نی پہلے ماریہ کو بہ حفا ظت اس کی گھر جانا منا سب نہ سمجھا ۔ ما ریہ کو لے کر وہ تیزی سے اس گھر میں داخل ہو ا اس کے پاپا دنیا سے بے خبر کچھ لکھ رہے تھے انہوں نے دونوں بچوں کو ڈرے ہو ئے آتے دیکھا اور سا راحا ل کہہ سنایا اور وہ وہاں سے اٹھے اور دونوں کو دوسرے کمرے میں چھپا دیا ۔ اچا نک آندھی طو فان کی طرح بھیڑ کا ریلا گھر میں گھس آیا اور لاٹھی ، بھا لے اور تلوار سے اندھا دھندماریہ کے پاپا پر وار کر نے لگا ۔ راہل ڈر اور حیرت سی سب دیکھتا رہا اس نے ذور سے دروازہ کھٹ کھٹایا اور چیخا ممی دروازہ کھولو ! ممی شاید اسی کے انتظا ر میں کھڑی تھیں ۔ فورا دروازہ کھولا وہ دونوں لپک کر اندر داخل ہو گئے ممی نے کس کر اسے بھیچنا چاہا مگر راہل نے ممی کا ہاتھ جھٹک دیا اور بڑی ٹھنڈی نظر سی انہیں گھوڑتا رہا پھر ایک جھٹکے سے اندر کے کمرے کی طرف چلا گیا اور ماریہ کو بھی ساتھ لیتا گیا ۔ کافی دیر تک وہ کمرے میں گم سم بیٹھا رہا اور ما ریہ سسکتی رہی ۔ راہل نے بہت سوچ سمجھ کر کچھ فیصلہ کیا اب اس کی آنکھوں میں ایک فیصلہ تھا ، دکھ تھا ، مجبوری تھی کاش اسے اپنے پاپا کا یہ روپ آج دیکھنا نہیں پڑتا ۔ آج تک اس نے اپنے پاپا کو ایک سیدھے اور سچا انسان سمجھا تھا پر دھا رمک کٹر تا ان کے خون میں اس قدر بسی ہو ئی ہے وہ نہیں جا نتا تھا اس کے بر خلاف ماریہ کے پاپا ایک اچھے انسان تھے اسے کتنا پیا رکرتے تھے ہندو مسلمان کا ان کے دل میں ذرا بھی خیال نہیں آتا تھا وہ روز ان کے یہاں جاتا تھا لیکن آج وہی انسان ایک ایسی موت مارا گیا جسے دیکھ کر اس کا دل کانپ اٹھا اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ یکایک اسے اپنے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا اس نے نظر اٹھا کر دیکھا اس کے پاپا کھڑے تھے اور پا س ہی ممی بھی کھڑی تھیں وہ ہڑ بڑا کر کھڑا ہو گیا پاپا کا ہا تھ اس نے جھٹک دیا اور قہر بھڑی نظروں سے انہیں گھوڑنے لگا ۔ اس کے پاپا کی حالت اس وقت بہت خراب تھی ۔ کپڑے کہیں کہیں سے پھٹے ہو ئے تھے تو کہیں خون کے داغ لگے ہو ئے تھے بال الجھے ہو ئے تھے ۔ آنکھیں دھسی ہو ئی سی لگ رہی تھی ۔ پاپا اس کی نظروں کا سامنا نہیں کر پائے۔ انہوں نے سو چاکہ لڑکا شاید روٹھا ہو ا ہے وہ اس کے قریب جا کر اس کے سر پر ہا تھ پھیرنے ہی والے تھے کہ را ہل دو قدم پیچھے ہٹا اور چیخا نہیں ، نہیں ، مجھے نہ چھو نا اس کی ماں بڑی طرح سے گھبڑا گئی خو د پاپا کا دل دھک سے رہ گیا صرف ماریہ خاموش تھیں اور سرد نگاہوں سے راہل کے پاپا کو دیکھ رہی تھی ۔ اچانک راہل کے پاپا کا دھیان ما ریہ پر چلا گیا لمحہ بر اسے دیکھتے رہے اور ما یوس ہو تے ہوئے بو لے اوہ یہ شاید انظا ر صاحب کی لڑکی ہے بڑی بد نصیب ہے بےچاری اس کی ماں تو تھی نہیں سنا ہے آج کسی نے اس کے پاپا کو بھی مارڈا لا ۔ ان کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکان ابھڑی جس کا مطلب را ہل ہی سمجھا ، پر وہ خاموشی سے سنتا رہا ۔ پاپا ماریہ کی طرف بڑھے دو تین جھانپر جڑ دئے اور دھکیلتے ہو ئے بولے ! جا ﺅ جا کے دیکھو تمہا رے گھر میں کیا ہوا ہے ۔ نہیں تو میں یہیں دفن کر دوں گا ان کا جملہ ادھو را ہی رہ گیا ۔ را ہل نے لپک کر ماریہ کا ہا تھ تھام لیااور سخت لہجہ میں بو لا ، آپ نے غلط پہچانا یہ ما ریہ نہیں میری بہن ہے ۔ یہ کہیں نہیں جا ئیں گی ، تمہارا دماغ خرا ب ہو گیا ہے راہل کے پاپا دہاڑتے ہو ئے بولے دیکھتے نہیں یہاں کیا ہو رہا ہے اگر محلے والے کو پتہ چل گیا کہ ہمارے گھر میں ایک مسلمان لڑکی چھپی ہے تو گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے میں کہتا ہوں فو را دفع کرو اسے اور پھر ما ریہ کی طرف بڑھے ۔ دو ر ہی رہو پاپا ا س کی آنکھیں انگا ر اگل رہی تھی ، میں نہیں جانتا تھا کہ آپ ایسے ہیں آج دیکھ لیا ہے میں نے آپ ہی نے ما ریہ کے پاپا کو مارا ہے آپ انسان نہیں حیوان ہے ۔مسلمانوں سے نفرت ہے آپ کو اور اسی لئے آپ خون پہ خون کئے جا رہے ہیں آپ کے دل میں زہر ہے ۔ آپ کے اند ر انسانیت نہیں حیوانیت ہے ۔          جانے کیسا زہر دلوں میں اتر گیا
پرچھا ئی زندہ رہ گئی انسان مر گیا
خاموش ! ایک جو ڑ دار تماچہ را ہل کے گال پر پڑا اور ساتھ ہی انہوں نے ماریہ کی ہا تھ پکر کر دھکیلا ما ریہ فرش پر گر پڑی اس نے خو ف زدہ نگاہوں سے راہل کے پاپا کو دیکھا اور گڑگڑا کر رونے لگی راہل کے پاپا نے ماریہ کو ایک جھٹکے سے اٹھا یا اور دروازے کی طرف لے چلے ۔ یکایک باز کی طرح سے راہل اچھلا اور اچانک اپنے ہی پاپا پر جھپٹ پڑا اس کے پاپا دھرام سے فرش پر گر پڑے را ہل نے لپک کر ما ریہ کا ہاتھ پکڑا اور بو لا! لو میں بھی ما رییہ کے سا تھ جا رہا ہوں پاپا میں ہندو نہیں مسلمان ہو گیا ہوں اور میرا نام آج سے عبد اللہ ہے اور میں ماریہ کا بھا ئی ہوں میں مسلمان ہوں صرف مسلمان اور وہ تیزی سے ما ریہ کے سا تھ گھر سے با ہر ہو گیا ۔

تبصرے بند ہیں۔