پرانے اُکھڑتے چلے جا رہے ہیں

افتخار راغبؔ

پرانے اُکھڑتے چلے جا رہے ہیں

نئے جڑ پکڑتے چلے جا رہے ہیں

جو آپس میں لڑتے چلے جا رہے ہیں

مصیبت میں پڑتے چلے جا رہے ہیں

مِرے حوصلوں سے قدم دشمنوں کے

مسلسل اُکھڑتے چلے جا رہے ہیں

تِری ہی بدولت اے مطلب پرستی

تعلّق بگڑتے چلے جا رہے ہیں

مقدّر سے لڑتے چلے آ رہے تھے

مقدّر سے لڑتے چلے جا رہے ہیں

ہے پُر خار یہ راستہ راستی کا

مگر گرتے پڑتے چلے جا رہے ہیں

ردائے غزل پر خیالوں کے موتی

غزل فہم جَڑتے چلے جا رہے ہیں

ہم اہلِ محبّت محبّت میں راغبؔ

زمانے سے لڑتے چلے جا رہے ہیں

تبصرے بند ہیں۔