افتخار راغبؔ
پرانے اُکھڑتے چلے جا رہے ہیں
نئے جڑ پکڑتے چلے جا رہے ہیں
…
جو آپس میں لڑتے چلے جا رہے ہیں
مصیبت میں پڑتے چلے جا رہے ہیں
…
مِرے حوصلوں سے قدم دشمنوں کے
مسلسل اُکھڑتے چلے جا رہے ہیں
…
تِری ہی بدولت اے مطلب پرستی
تعلّق بگڑتے چلے جا رہے ہیں
…
مقدّر سے لڑتے چلے آ رہے تھے
مقدّر سے لڑتے چلے جا رہے ہیں
…
ہے پُر خار یہ راستہ راستی کا
مگر گرتے پڑتے چلے جا رہے ہیں
…
ردائے غزل پر خیالوں کے موتی
غزل فہم جَڑتے چلے جا رہے ہیں
…
ہم اہلِ محبّت محبّت میں راغبؔ
زمانے سے لڑتے چلے جا رہے ہیں
تبصرے بند ہیں۔