پراگندہ حالات امت کا اپنے مقصد سے انحراف ہے

محمد شاہ نواز عالم ندوی

ایک عجب فضا:۔ آج جس فضاءمیں زندگی بسرکررہے ہیں وہ عجب ہے۔ شاید اس سے پہلے اس طرح کی فضاءدیکھنے کو نہ ملی ہو۔ ہر فرد بشر خواہ وہ کسی بھی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہو پریشان وبدحال ہے۔ زندگی کا سکون غارت ہوچکاہے۔ خوف کا ایک ایسا ماحول ہے( جو اصل میں پیدا کیاگیاہے) کہ ہر شخص اگرچہ کہ اس نے اپنے چہرہ مہرہ پر خوشیاں سجارکھیں ہو، مسرتوں کا اظہار کررہاہو، فرحت وشادمانی کے پھول بکھیرنے کی کوشش کررہاہو۔ لیکن دل کا اجاڑ پن کسی نہ کسی طرح ، کہیں نہ کہیں سے جھانکتا ہوا نظر آتاہے۔ وہ کہے نہ کہے ۔ لیکن زبان حال اس کی ترجمانی کرہی دیتی ہے۔

یہ فضا کسی مخصوص علاقہ، شہر، گاؤں اور ملک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں قائم ہے۔ خصوصاً ہمارے ملک ہندوستان میں اس فضاءکی تو گویایلغار ہی ہے اوریہی نہیں یہ فضاءکسی قوم ، کسی ملت، کسی مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ اس فضاءکے شکار تمام اقوام عالم ہیں اور ہر قوم، ہرمذہب وملت کے افراد اس سے جھجھ رہے ہیں اور مسلمان بطور خاص ان حالات سے دوچار ہیں، یہ بات مشہور بھی ہے، میڈیا کا اہم موضوع بھی کہ یہ فضاءصرف مسلمانوں کے لئے ہے اور پوری دنیامیں مسلمانوں پر ظلم ہورہاہے۔ اس کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جارہاہے۔ مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پوری دنیا کیوں کسمپرسی کے عالم میں ہے، اس طرح کی فضاءکیوں قائم ہے اور کیا اس فضاءسے متاثر سب سے زیادہ مسلمان ہی ہیں؟ اور ہیں تو کیوں؟

حقیقت اور فسانہ:۔ مذکورہ سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ مذکورہ سطور میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان کا جائزہ لیا جائے کہ اس کی حقیقت کیاہے؟ اور اس میں فسانہ کتناہے؟ یہ تو حقیقت ہے اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتاہے کہ انسانیت دم توڑرہی ہے، ہمدردی ، محبت والفت، انسیت جس کے خمیر سے انسان بناہے اس کا فقدان ہے۔ خلوص اور مخلصین کی بڑی کمی ہے۔ اس کی وجوہات بہت ہیں۔ لیکن اس میں ایک بڑی وجہ علم کی تنزلی اور فن کی ترقی ہے۔ کیوں کہ علم تو حقیقت میں وہ ہے جو انسان کو انسان بنادے، خالق کائنات سے متعارف کرادے، انسانی جسم میں وہ دل پیدا کردے جس کی دھڑکن میں محبت وہمدردی ، انس انسانیت ہو۔ لیکن اس کے برعکس فن ہے کہ ہر وہ علم جو اللہ سے دور کردے، جوانسان کو حیوان اوروحشی جانور بنادے، صرف جسم اور اس کی خواہشات کے تابع کردے، روح اور اس کے تقاضے کو فراموش کرادے وہ علم کیسے ہوسکتاہے۔ وہ تو ایک فن ہے۔ آج اسی کو ترقی دی جارہی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص اس دنیا کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگا ہواہے اس کے لئے اس کو اگر دوسروں کی عزت وآبرو، جان ومال سے کھیلنے کی نوبت آجائے تو اس کی کوئی پروا نہیں، وہ سب کچھ کرسکتاہے بس اس کو دنیا چاہئے۔

دوسری بات یہ فضاءصرف مسلمانوں کے لئے خاص نہیں ہے۔ یہ ہر ایک کے لئے یکساں ہے۔ مسلمانوں کے خلاف حالات ہیں۔ لیکن اتنا نہیں جتنا کہ بیان کیا جاتاہے۔ ان حالات کا شکوہ کرنے والے اور اس کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے والے اصل میں ایک فسانہ بیان کرتے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس چیز کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے میں سب سے زیادہ میڈیا کا رول ہے جس پر ایسی ذہنیت کا قبضہ ہے جو چاہتی ہی ہے کہ مسلمانوں کو بدنام کیا جائے، اور ساتھ ہی مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں خوف وحراس ہو، اس کے لئے اس کے دو طریقۂ کار ہیں ۔ ایک طرف مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر ظالم گرداننے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کے زخم پر مرہم رکھنے کےلئے اس کی مظلومیت کا رونا روتے ہیں۔ اس طرح ”ایک پنتھ دو کاج“۔ مسلمان بدنام بھی ہوتے ہیں تو عام لوگوں میں خوف بھی پیداہوجاتاہے۔ یہی کچھ ملک میں ہورہاہے کہ ابھی ابھی 5ریاستوں کے انتخابات کے دوران ناموس رسالت مآب پر حملے کئے گئے۔

مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی معاشرہ کو تقسیم کیا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والے رہنما کو ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں وزیراعلیٰ بناکر اقلیتوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو مرعوب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ ہو یا کوئی اور وہ بھی اسی اللہ کا بنایا ہوا ہے جس کے ہم بنائے ہوئے ہیں۔ ملک کی اکثریت معاشرتی ہم آہنگی پر اعتماد کرتی ہے۔ ایک ساتھ جینا اور مرنا چاہتی ہے اور کوئی حکومت کوئی طاقت اس اکثریتی ذہنیت کو ختم نہیں کرسکتی ہے۔

بے اطمینانی کی فضاءکا حل:۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے آسیان ثقافتی کانفرنس دہلی منعقدہ اپریل 1947ءجس میں اسلامی ممالک مصر، لبنان، ترکی، افغانستان، عراق وایران وغیرہ سے کثیر تعداد میں نمائندوں نے شرکت کی تھی کے ایک خطبہ میں امت مسلمہ کی اہمیت اور حقیقت پر سے پردہ ہٹاتے ہوئے اس طرح فرمایا۔ (عبارت طویل ہے اور عربی زبان میں ہے جس کو خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کررہاہوں) ”آج سے تیرہ سو سال قبل دنیا اپنی فطری روش پر گامزن تھی، سارے شہر، گاو ¿ں آباد تھے، بڑی بڑی سلطنتیں آبادی سے بھری پڑی تھیں، بڑی بڑی عمارتیں تھیں، ذریعہ معاش کے لئے پیشوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی بلکہ ترقی پذیر تھے ، کاشتکاری، تجارت، کاریگری سب کچھ اپنے عروج پر تھا۔ تجارتی قافلے صبح وشام ایک جگہ سے دوسری جگہ آجارہے تھے، بازار خریدوفروخت کرنے والوں سے بھرا ہواتھا، حکماء،امرا وسلاطین اپنی حکومت سیادت میں مصروف تھے مختصر یہ کہ زندگی کے سارے شعبے ہر طرح کے انسانوں سے مکمل تھے۔

شہریت اور گوشۂ حیات کا ہر گوشہ ماہرین فنون سے بالکل لبریز تھاجہاں کسی نئے کارکن کی کوئی گنجائش نہیں تھی گویا کاسۂ حیات چھلک رہاتھا۔ ایسے حالات میں دنیااور اس کی تہذیب سے دور صحراءعرب میں ایک امت جنم لیتی ہے اور وہ بھی ایسی جگہ جو ذرائع حیات تو درکنار زندگی کی بقاءکا واحد ذریعہ پانی سے بھی محروم تھا۔ ایسے میں اس وقت دنیا میں آباد امتوں کے ذہنوں میں ایک سوال اٹھاہوگا کہ اس امت کا کیا کام ہے؟ کیوں ایک نئی امت پیدا ہوئی ہے؟ وہ کیا کرے گی، کہاں اپنی توانائی صرف کرے گی، زندگی کے کس میدان میں برسرپیکار ہوگی؟ کیوں کہ تجارت، زراعت، صنعت وحرفت، حکومت وسلطنت سارے شعبہائے زندگی تو اپنے ماہرین سے پُر ہیں۔ پھر یہ بھی کہ یہ کسی ایسے ملک میں نہیں جہاں یہ سارے شعبے، زندگی کی تمام حرارتوں کے ساتھ رواں دواںہیں میں پیدا نہیں ہوئی ہے، یہ تو صحرا میں پیدا ہوئی ہے، یہ کیا کرسکتی ہے؟“ (بحوالہ:إلی الاسلام من جدید:صفحہ نمبر 7-11کا خلاصہ)

لیکن ان اقوام وملل کو یہ نہیں معلوم تھا کہ زندگی کا اہم ترین شعبہ جس کے لئے نسل انسانی کی تخلیق ہوئی ہے، جو انسان کی پیدائش کا اصل مقصد ہے وہ ابھی بھی خالی ہے۔ خالی ہی نہیں بلکہ ویرانہ وخرابہ میں تبدیل ہوچکاہے۔ وہ ہے انسانیت کا شعبہ، وہ ہے خداپرستی کا شعبہ، وہ ہے خلافت الٰہی کا شعبہ، وہ ہے کائنات کے ہر ذرہ سے فائدہ اٹھانے کا شعبہ، وہ ہے دنیا کی ساری تخلیق خادم اور انسان کے مخدوم ہونے کا شعبہ۔ اس شعبہ میں خلا ہی نہیں بلکہ دراڑ پڑچکاہے۔

جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؒ تحریر فرماتے ہیں: ”لیکن اللہ نے اس امت کو اس کے لئے یا اُس کے لئے پیدا نہیں فرمایا، کیوں کہ امت یا اشخاص ان چیزوں کے لئے پیدا نہیں ہواکرتے ، یہ تو انسانی خواہشات ہیں اس کے لئے کسی نبی کی نبوت اور نہ ہی کسی امت کی بعثت کی ضرورت ہے۔ بلکہ اللہ نے اس امت کو اہم مقصد، ایک نامانوس مہم کے لئے جس سے انسانیت ناواقف ہوچکی تھی جس کو سابقہ انبیاءعلیہم السلام کی امتوں نے بھلادیا تھا۔ کے لئے اس کی تخریج ہورہی ہے۔ قرآن نے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے سورة آل عمران آیت نمبر 110 میں بیان کیا ہے۔ ”تم بہترین امت ہو، تم لوگوں کے لئے نکالے گئے ہو، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“ (بحوالہ: إلی الاسلام من جدید:صفحہ نمبر 7-11”خلاصہ‘‘ )
وہی دراڑ آج پھر عود کر آچکاہے۔ انسان اپنے راہ سے بھٹک چکاہے، جن کے یہ نتائج ہیں کہ آج کی فضاءایسی ہے جہاں بے چینی، بے اطمینانی، ناانصافی، ظلم وجور کی حکمرانی ہے اور ہم مسلمان اس کے اہم ذمہ دار ہیں۔ کیوں کہ وہ امت جو صحرا عرب میں پیدا ہوئی تھی وہ ہم ہی تو ہیں۔ ہمارے ہی اوپر تو مذکورہ آیت کاحکم عائد ہوتاہے۔ گویا دنیا کی خستہ حالی کے جر م کا مجرم ہم ہیں۔ بس ان کا حل بھی ہمیں ہی پیش کرناہوگا۔

ہم کو سب کچھ چھوڑ کر میدان عمل میں آنا ہوگا۔ وہ پیغام ربانی جو ہمارے پاس ہے۔ اس کو پھر سے ایک نئے عزم اور نئے ارادہ کے ساتھ دنیا کو سنانا ہوگا۔ لیکن اس سے پہلے اپنے ایمان وایقان کا محاسبہ ضروری ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سوچ اگر ہمارے دل میں پیدا ہوگیا کہ فلاں ملک، فلاں جماعت، فلاں قوم، فلاں لیڈر، فلاں شخص کے پاس طاقت ہے اور وہ کچھ کرسکتاہے تو یاد رکھیں اسی لمحہ ہم اسلام سے نکل جائیںگے ۔ کفر ہمارا مقدر بن جائے گا۔ اللہ ہماری اس مصیبت سے حفاظت فرمائے اور ایمان وایقان سے ہمارے دلوں کو منورکردے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔