پروفیسر ارتضیٰ کریم عالمی مجاہدِ اردو ایوارڈ 2017ء کے لیے نامزد!

سعودی عرب میں گذشتہ ایک دہائی سے اپنی ادبی سرگرمیوں کے لیے معروف ادارہ اردو گلبن، جدہ نے دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے سابق صدر ممتاز نقاد و محقق اور قومی اردو کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے موجودہ ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم کو ان کی عالمی سطح پر عموماً اور ہندستان کے طول و عرض میں خصوصاً اردو زبان و ادب کی ترویج و تشہیر کے سلسلے میں گوناگوں خدمات کا اعتراف کرتے ہوے انہیں ’’عالمی مجاہدِ اردوایوارڈ‘‘ پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

اردو گلبن کی مجلسِ عاملہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ سالِ رواں کے اواخر میں جدہ میں ایک بڑے ادبی پروگرام میں انھیں اردو گلبن عالمی مجاہد اردو ایوارڈ کی سند ، یادگاری مومنٹو اور دو لاکھ اکیاون ہزار ہندستانی روپے پر مشتمل ایوارڈ پیش کیا جائے گا۔

اردو گلبن، جدہ 2006ء میں خلیج کی پہلی اردو ویب سائٹ کا آغاز کرکے تمام خلیجی ملکوں میں مقیم قلمکاروں کے درمیان رابطہ کا کام کیا اورکے علاوہ ادبی جلسے ، مشاعرے ، اعزازی محفلیں، تنقیدی مجالس اور اس انداز کے متعدد ادبی پروگراموں کے انعقاد میں خلیجی ریاستوں کی دیگر تنظیموں میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ ادارے کے سربراہ نے بتایا کہ اردو گلبن کی مجلسِ عاملہ نے امسال یہ اہم فیصلہ کیا کہ عالمی سطح پر اردو زبان و ادب میں علمی، ادبی اور تحریکی خدمات انجام دینے والے منتخبِ روزگار افراد کو ان کی بے پایاں خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ پیش کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ادارے نے

پچھلے دنوں ایک عالمی ایوارڈ کمیٹی تشکیل دی اور اسے سالانہ ایوارڈ کے لیے ایوارڈ یافتگان کی حتمی فہرست تیار کرنے کا مجازقراردیا۔
اردو گلبن، جدہ کے صدر جناب مہتاب قدر نے پریس کو جاری اپنے بیان میں اس بات کی تفصیل پیش کی کہ 27؍اکتوبر 1959ء کو صوبۂ بہار کے گیا شہر میں پیدا ہونے والے پروفیسرسید علی کریم نے ادبی طور پر اپنا نام ارتضیٰ کریم منتخب کیا۔ مگدھ یونی ورسٹی ، بودھ گیا اور دہلی یونی ورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد ہوئے، جہاں وہ تین دہائیوں سے اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ طالب علمی کے دور ان ہی موصوف نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ شرو ع کر دیا تھا ۔ ابتدائی دور میں کلام حیدری اور ان کے رسالے آہنگ اور ادبی اخبار’ مورچہ‘میں ان کی ادبی و علمی تربیت ہوئی جسے دہلی میں ممتاز نقاد قمر رئیس کی نگرانی میں مزید صیقل ہونے کا موقع ملا۔ 1986ء میں ارتضیٰ کریم کی پہلی کتاب ’آٹھویں دہائی میں بہار کا اردو ادب‘منظرِ عام پر آئی۔

اس وقت سے اب تک تین دہائیوں میں ان کی 30؍سے زیادہ تنقیدی، تحقیقی، مرتبہ اور ترجمہ شدہ کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ ان کے متفرق مضامین کی تعداد 200؍سے زیادہ ہے۔ انتظار حسین، قرۃ العین حیدر، جوگیندر پال اور سہیل عظیم آبادی کی حیات و خدمات پر ضخیم کتابیں ترتیب دے کر ان مصنفین کی عمومی شناخت کو انھوں نے مستحکم کیا۔ داستان اور فکشن کے مطالعات میں ان کی ابتدائی دور سے ہی دلچسپی رہی ہے۔ ’عجائب القصص: ایک تنقیدی مطالعہ جیسی ا ہم کتاب انھوں نے 1987ء میں لکھی تھی۔ ’اردو فکشن کی تنقید‘ پر اپنی تصنیف انھوں نے 1996ء میں شایع کی ۔ 2016ء میں ’نوطرزِ مرصع‘ کی ترتیب و تدوین کا کام انجام دیا۔ میر ناصر دہلوی، رشید جہاں اور اسرار الحق مجاز کے سلسلے میں ارتضیٰ کریم نے تنقیدی و تحقیقی مونوگراف تیار کئے۔ ترقی پسند ادب کے تعلق سے انھوں نے اابتداء میں قمر رئیس کے ساتھ مل کر اور پھر انفرادی طور پر تقریباً نصف درجن کتابیں مرتب کیں جن سے اردو میں ترقی پسند ادب اور تحریک کی مکمل تاریخ بہ یک نظر تفصیل کے ساتھ سامنے آجاتی ہیں۔

اردو گلبن، جدہ کی ایوارڈ کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں ایک فعال شخصیت کا نام ہے۔ ارتضیٰ کریم نے اپنے زمانۂ صدارت میں شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی کی گولڈن جوبلی تقریبات کا اتنے بڑے پیمانے پر انعقاد کیا کہ اب بھی ویسے ادبی اجتماعات عام بات نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے دورِ صدارت میں دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے یونی ورسٹی اورکالج کے اساتذہ اور ادبا و شعرا سے جوڑ کر اسے ملک کا نمایندہ شعبۂ اردو بنانے کی کوشش کی ۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم کو جیسے ہی حکومتِ ہند نے قومی اردو کونسل برائے فروغِ اردو زبان کی ڈائرکٹر شپ تفویض کی، اس کے بعد اس ادارے کی سرگرمیوں میں حیرت انگیز اضافے دکھائی دیتے ہیں۔ قومی اردو کونسل نے پورے ملک کا ترجمان بننے کی طرف قدم بڑھایا اور کونسل سے مالی امداد حاصل کرکے پورے ہندستان میں مختلف صوبوں اور اضلاع تک ہزاروں کی تعداد میں ادبی اجتماعات منعقد ہورہے ہیں۔ عالمی اردو کانفرنس منعقد کرکے اور مختلف ممالک بالخصوص خلیج کے ملکوں کا ادبی دورہ کرکے انھوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ قومی اردو کونسل صرف ہندستان نہیں بلکہ دنیا کے سب سے سرگرم اردو اداروں میں سرِ فہرست ہے۔

اردو گلبن، جدہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ اتنی بڑی شخصیت اور شش جہت کارناموں کو انجام دینے والے فرد کو اپنا پہلا عالمی مجاہدِ اردو ایوارڈ پیش کرکے حقیقت میں اپنی زبان کے بڑے خدمت گاروں کا اعتراف کیا جارہا ہے۔ ادارے نے پروفیسر ارتضیٰ کریم کو عالمی مجاہدِ اردو ایوارڈ 2017ء کے لیے نامزدگی پر مبارک باد دی اور خدائے تعالیٰ سے ان کی صحتِ کاملہ اور خدمتِ زبان کے سلسلے کو دراز کرنے کے لیے دعائیں دی ہیں۔

مجلسِ عاملہ۔اردو گلبن، جدہ

تبصرے بند ہیں۔