پروفیسر رؤف خوشتر: چند یادیں

ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ

کل بروز ہفتہ 8ستمبر2018 کی شام تقریبا ًچھ بجے سوشیل میڈیا پر یہ خبر ملی کہ پروفیسررؤف خوشتر نہیں رہے۔میں فون کو اسکرال کرتا رہا واٹس اپ کے کئی گروپوں اور فیس بک پر ہر طرف یہی خبر دکھائی دینے لگی۔تھوڑی دیر تک مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور میں نے مشکل سے اپنے آپ کوسنبھالا۔ مشہور و معروف شاعر سلیمان خمار بیجاپور سے بات کر کے وجہ معلوم کی تووہ کہنے لگے۔’’ڈاکٹر صاحب!میں اسکول کے ایک پروگرام میں تھا جیسے ہی اطلاع ملی میں ان کے گھر چلا گیا۔پتہ چلا کہ کل رات انہیں پیٹ میں درد ہونے لگا اور آج وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔میں نے ان کے گھر والوں سے دریافت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔دراصل وہ کل تک بالکل ٹھیک تھے اور انجمن ڈگری کالج کے استقبالیہ جلسہ میں بحیثیت مہمان خصوصی شریک تھے۔یہی ان کا آخری جلسہ تھا۔‘‘

موت تو سب کو آنی ہے اور وہ آ کر رہے گی لیکن موت اچانک واقع ہو تو بہت افسوس ہوتا ہے۔رات بھر پروفیسر رؤف خوشتر کی باتیں اوریادیں ستاتی رہیں۔ گزشتہ منگل 4 ستمبر کی شام انہوں نے تقریباً آدھے گھنٹہ تک فون پہ بات کی تھی۔ حسب معمول وہی باتیں تھیں جو وہ عموماً کیا کرتے تھے۔دراصل 3 ستمبر2018 ء کے روز نامہ سالار بنگلور کے ادبی شمارہ میں حیدرآباد کے طنز و مزاح رسالہ’’ شگوفہ‘‘ کے مدیر مصطفیٰ کمال پران کا ایک مضمون شائع ہوا تھاجس پر وہ میری رائے چاہتے تھے۔چونکہ مضمون کی پہلی قسط تھی اس لیے میں نے نہیں پڑھا تھا جب دوسری قسط بھی آجائے تو بیک وقت پڑھنے کا ارادہ تھا۔سو میں نے انہیں بتا دیا۔ وہ مسلسل کہتے رہے کہ آپ وہ مضمون ضرور پڑھیں اور پڑھنے کے بعدفون پراپنی رائے دیں مجھے انتظار رہے گا۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب!آپ مجھ پر کب لکھیں گے۔میرے فن پر مجھے آپ کا مضمون ضرور چاہیے۔مجھ پر شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ، ساقی فاروقی، محمد علوی جیسے چوٹی کے فن کاروں نے لکھا ہے وہ تمام مضا مین یکجا کر رہا ہوں تاکہ کتابی صورت میں شائع کرسکوں۔ لیکن آپ کے مضمون کے علاوہ میرے شاگردوں میں ڈاکٹر انیس صدیقی گلبرگہ اورانیس ہاشمی بیدرکے مضامین جب تک نہیں آئیں گے میں کتاب شائع نہیں کروں گا۔‘‘لیکن اب وہ کام کون پورا کرے گا دیکھنا ہے۔

رؤف خوشتر صاحب نے دو سال قبل اپنی کتابیں اور چند مضامین کی زیراکس ارسال کرکے مجھ سے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تھی۔ میں عدیم الفرصتی اور ڈھیر سارے ادھورے کاموں کی بدولت اب تب کرتا رہا۔وہ بار بار اصرار کرتے اور میں وعدے کرتا رہتا۔لیکن گذشتہ منگل والے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اتنی چھوٹ دے دی کہ میں اپنی سرویس سے سبکدوش ہونے سے پہلے لکھوں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ان کی زندگی میں ہی لکھا جائے۔ اب کون جانتا تھاکہ وہ اس طرح روٹھ کر چلے جائیں گے اور ان کی موت پر مضمون لکھنا پڑے گا۔کل رات میں نے ڈاکٹر انیس صدیقی سے بات کی انہوں نے بھی افسوس کا اظہار کیااور کہاکہ وعدہ وفا ئی ہوگی تاثرات قلمبند کردیجیے ۔ انیس صدیقی کے ایما پر آج میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اب لکھوں تو کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں عجیب آدمی تھے۔جن کے ہر ایک شخص سے تعلقات تھے۔میری ان سے پہلی ملاقات کہاں اور کب ہوئی پتہ نہیں کیونکہ چند ملاقاتیں ہوں ہوتو یاد رکھی جا سکتی ہیں جن سے اکثرملنا ہو اور ساتھ رہنے کے مواقع بار بار فراہم ہوں، دوریاں قربتوں میں تبدیل ہوں، حد سے زیادہ مانوسیت ہو،اپنا پن ہو، عمر میں بڑے ہونے کے باوجود دوست سمجھتے ہوں، پیار و محبت سے پیش آتے ہوں، ہفتہ پندرہ دن میں ایک مرتبہ فون کر کے خیریت دریافت کرتے ہوں اور بیوی بچوں کو ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوں تو ان تمام باتوں اور یادوں کا ذکرکیسے اور کیوں کر کیا جائے۔

اتنا تو سچ ہے کہ رؤف خوشترصاحب مکمل طور پر اردو کے آدمی تھے اپنی ملازمت کی ابتدا بطور اردو لکچرر گلبرگہ سے کی اور پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ لکھنا شروع کیا۔گلبرگہ، بیدر اور بیجاپور میں خدمات انجام دیتے رہے اور ڈگری کالج میں پرنسپال کے عہدہ پر پہنچے اور وظیفہ یاب ہوئے۔انہوں نے اردو ادب میں طنز و مزاح کو اپنا شعار بنایا، طنز و مزاح کو تیسرے درجہ کا ادب کہا جائے یا اول درجہ میں رکھا جائے یہ الگ بات ہے۔ البتہ الفاظ کے ذریعہ مزاح پیدا کرنا کوئی مذاق نہیں ہے۔ وہ طنز و مزاح کی راہوں سے گزرتے ہوئے عمر بھر لکھتے رہے اورملک بھر کے اخبارات و رسائل میں اپنی تخلیقات شائع کرواتے رہے۔اب تک ان کی چار یا پانچ طنز و مزاح کی کتابیں منصۂ شہود پر آکر مقبول خاص و عام ہوچکی ہیں۔ انہیں لکھنے، اخباروں ا و رسالوں میں شائع ہونے اور اردو کی محفلوں میں شریک ہونے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ریاست و بیرونِ ریاست سمیناروں، کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں شریک ہوتے تھے اور اپنے مضامین پیش کرتے تھے۔بہت سے اردو پروفیسر حضرات وظیفہ یابی کے بعد کونا پکڑ لیتے ہیں لیکن رؤف خوشتر صاحب کافن اور وہ خود جوان ہو چلے تھے۔

 ہمیشہ چاق و چوبند، خوش و خرم، ہشاش بشاش، ہنستے مسکراتے ہوئے نہایت گرم جوشی کے ساتھ اپنی بھاری بھرکم جسامت اور بھاری بھرکم آواز کے ساتھ دکھائی دیتے تھے۔مجھے کئی محفلوں میں ان کے ساتھ اسٹیج پر رہنے، کھانے پینے اور ساتھ رہنے کے مواقع ملے۔ہمیشہ وہی نوجوانوں کاسا انداز،سوٹ بوٹ میں ملبوس، آواز ایسی گرجدار کہ مائک کی ضرورت نہ ہو۔ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں تقریر کرتے اور جب مقالہ پیش کرتے توان کے پڑھنے کا انداز بھی جدا گانہ اور منفرد تھا۔

رؤف خوشتر صاحب کئی خصوصیات کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر طرح سے فارغ البالی عطا کی تھی، بڑی قد و قامت کے شخص تھے، اچھی صحت والے توانا و تندرست تھے، اچھا اورخوب کھاتے اوراچھا پہنتے تھے۔ شریف النفس اورنیک انسان تھے، اللہ اور اس کے رسولؐ پر کامل ایمان رکھتے تھے، صوم و صلوٰۃکے پابندتھے، ہمیشہ آیات ِ قرآنی سناتے رہتے تھے۔دوسال قبل حج بیت اللہ کی زیارت کر آئے تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی یا فون کرتے توآخر میں عربی میں دعائیں کرتے اور میں آمین آمین کہتا۔چند سال پیشتر کسی کی زبانی میری پریشانی کا ذکر سن کر فون کرکے انہوں نے مجھے’’ یادافع البلیات ویا حل المشکلات یاوکیل یا وکیل یا وکیل‘‘ کا ورد کرنے کی تلقین کی تھی جسے میں نے آج بھی اپنایا ہے۔

ان کا فون مجھے عموماً اس وقت آتا جب میں ابھی بستر پر ہوتا۔میں سمجھ جاتا کہ ضرور میرا کوئی مضمون کسی رسالہ یا اخبار میں شائع ہوا ہے جس کی وہ مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔ رسالوں میں میرے کئی مضامین کے شائع ہونے کی اطلاع انہوں نے ہی دی۔ بڑی محبت سے کہتے ڈاکٹر صاحب! مبارک ہو۔ ۔۔ آپ کواس ماہ کا فلاں رسالہ ملا یا نہیں۔ اس میں آپ کا فلاں مضمون شامل ہے۔ماشاء اللہ آپ کرناٹک کی لاج ہیں جوملک بھر کے رسالوں میں شائع ہوتے ہیں اور بہت اچھا لکھتے ہیں اللہ کرے زورقلم اور زیادہ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

وظیفہ یاب ہونے کے باوجود ان کے یہاں ملک بھر کے کئی رسائل آتے، جنہیں وہ باقاعدگی سے پڑھتے۔ وہ صرف مجھے ہی نہیں، ہر نئے و پرانے لکھنے والوں کو نہ صرف پسند کرتے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔جب بھی کسی کا مضمون یا شعری تخلیق اخبار میں اشاعت پذیر ہوتی تو وہ ضرور ان کو فون کرکے مبارک بادپیش کرتے اور خوشی کا مظاہرہ کرتے۔ یہی توقع وہ ہم جیسے لوگوں سے بھی کرتے تھے اور ان پر مضمون لکھنے کا مطالبہ کرتے تھے۔انہیں اردو کے اکثر پروفیسر حضرات سے شکایت تھی کہ یوجی سی کی موٹی موٹی تنخواہ لینے کے باوجود لکھنے پڑھنے میں عدم دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ بہت سے اردو اساتذہ اردو محفلوں میں آتے ہیں نہ اردو اخبارات و رسائل خریدتے ہیں اور نہ کوئی کتاب پڑھنے کے عادی ہیں۔

2015 ء میں جب پروفیسر یس یم عقیل شعبۂ اردو کوئمپو یونیورسٹی سے سبکدوش ہورہے تھے تو میں ان پر ایک کتاب مرتب کررہا تھا۔ ایک صبح رؤف خوشتر صاحب کا فون آیا۔کہاکہ ’’میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے استاد پر ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا جی ہاں سر! جواب آیا۔ ڈاکٹر صاحب! آپ نے ہمیں کیسے نظر ندازا کردیا۔ہم اور عقیل صاحب اس زمانہ کے دوست ہیں جب وہ اور ہم بیدر کے کالج میں پڑھاتے تھے۔‘‘میں نے عذر پیش کیا کہ دراصل یہ کام بہت عجلت میں ہورہا ہے اس لیے میں نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا۔پوچھا۔ ۔۔آپ کو کب تک مضمون چاہیے۔میں نے کہا جتنی جلدی ہوسکے۔ دوسرے دن صبح صبح فون آیاعلیک سلیک کے بعد کہنے لگے ڈاکٹر صاحب کاغذ اور قلم لیجیے اور لکھیے۔ میں نے آدھے گھنٹے کا وقت لیا اور فون کیا۔ انہوں نے اپنامضمون فون پر لکھا دیاجو عقیل صاحب کی شخصیت اور ان کے فن پر تھا۔جسے میں نے کتاب میں شامل کرلیا۔یہ وصف بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ پروفیسر رؤف خوشتر ایسے بااخلاق لوگوں میں سے ایک تھے۔

میسور میں محترم اثر سعید کی کتاب’’قبائے زرّیں ‘‘ کا اجراء مجھ احقر کے ہاتھوں منعقد تھا اس محفل میں طنز و مزاح کی ایک نشست بھی تھی جس میں پروفیسر رؤف خوشتر، چراغ ہبلوی اور منظور وقار نے مزاحیہ مضامین پیش کیے تھے۔ کتاب کے اجرا کے بعد جب میں نے خطاب کیا تو پروفیسر صاحب نے مجھے گلے لگا لیا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ باگل کوٹ کے اساتذہ کے ورکشاپ میں بھی پیش آیا۔آپ کے مضمون کے بعد جب میں تقریبا ً دیڑھ گھنٹے تک مسلسل دیئے گئے موضوع پر بولتا رہا تو خوش ہوگئے اور بہت سراہتے رہے۔ویسے وہ سب کو سراہنے اور خوش کرنے کے عادی تھے اور کسی کو ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی ان کے فن میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا چاہتے تھے، نہ ہی کسی کا دل دکھانا چاہتے تھے، ان کے اندر تنقید نگار دور دور تک نہیں تھا اگر رہا بھی تو وہ ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے۔اسی لیے سب ان کے دوست تھے کوئی ان سے خفا تھا، نہ کوئی ناراض تھا اور نہ ہی ان کا کوئی دشمن۔

اکثر فن کارتخلیق کار کو خوش کرنے کے لیے، ہتھیلی میں جنت دکھانے کے لیے اور دوستی کا فرض ادا کرنے کی خاطر لکھتے ہیں، بعض لکھنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی صرف اس لیے نہیں لکھتے کہ وہ ان کے حلقۂ احباب میں سے نہیں ہے۔رؤف خوشتر صاحب کا معاملہ ایسا تھا کہ وہ ہر ایک میں مقبول تھے اور سب کے پسندیدہ تھے۔یہ اور بات ہے کہ وہ کئی فنکاروں کو اپنی کتابیں بھیج کر مضمون لکھنے کا مطالبہ کرتے تھے۔اسی محبت اور اصرار کی بدولت بہت سے جید فن کاروں نے ان کے فن اور شخصیت پر لکھا۔

 رؤف خوشتر صاحب چند دنوں سے ہر موضوع پر قلم اٹھانے کے عادی بن چکے تھے، ہر ایک یا دوسرے ہفتہ اخبارات میں شائع ہونے لگے تھے۔ زود گوئی کی بدولت ان کی بیشتر تحریروں میں یکسانیت محسوس ہونے لگی تھی، انداز سادہ اور سپاٹ لگنے لگا تھا۔

جس طرح ادب میں طنز و مزاح نگاری کو چاول میں نمک کا مقام حاصل ہے اسی طرح ہماری ریاست میں طنز و مزاح نگار بھی چاول میں نمک کے برابر ہیں یعنی لے دے کر مشتاق سعید، منظور وقار، ڈاکٹر فرزانہ محتشم فرح اور ڈاکٹر حلیمہ فردوس باقی ہیں جن میں پروفیسر رؤف خوشتر نہایت سینئر تھے اور منجھے ہوئے فنکار تھے، جنہوں نے کرناٹک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ریاست بھی ایک مقام حاصل کرچکے تھے۔ جن کی بدولت کرناٹک کوطنز و مزاح نگاری میں ایک وقار حاصل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شخص بن کر نہیں بلکہ شخصیت بن کر جینا چاہیے کیونکہ شخص تو خاک ہوجاتے ہیں لیکن شخصیت زندہ رہتی ہے۔ پروفیسر رؤف خوشتر کی ذات شخص سے شخصیت بن چکی تھی اب وہ نہیں رہے لیکن ان کی شگفتہ تحریروں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

مجھے نہایت افسوس ہے کہ ان کی موت کی بدولت کرناٹک کے ادبی افق سے ایک روشن ستارہ گم ہوگیا۔وہ شخص جس کی شخصیت تہ دار تھی، جس کی گھٹی میں مزاح، جس کی فطرت میں خلوص، جس کی باتوں میں شفقت، جس کے دل میں محبت، جس کی تحریروں میں لطافت، جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور جو نام سے ہی ’’ خوش تر‘‘ تھا ہم میں نہیں رہا۔

تبصرے بند ہیں۔