پروفیسر محمد سلیمان خورشید

خواجہ احمد حسین

(کانکی نارہ)

۱۵؍مئی کو صبح ۸ بجے اچانک یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ پروفیسر سلیمان خورشید کو دل کا شدید دورہ پڑا اور اسپتال میں ان کی روح پرواز کرگئی۔ میرے منہ سے برجستہ یہ جملہ نکل پڑا کہ ’’غروب ہوگیا کلکتے کا خورشید‘‘ انا للہ وہ انا الیہ راجعون۔ آناً فاناً یہ خبر پورے مغربی بنگال کے اردو علمی وادبی حلقوں میں سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیل گئی۔ سلیمان بھائی گوناگوں خوبیوں وصلاحیتوں کے مالک تھے۔ تقریب چاہے جیسی بھی ہو جب وہ گفتگو کرتے تو لگتا کہ وہ اسی شعبے کے اکسپرٹ ہیں ۔ انگنت مذہبی، تعلیمی، اسپورٹس، ادبی سمینار اور سماجی جلسوں میں ان کے ساتھ ڈائس شیئر کرنے کا اتفاق ہواتھا۔ وہ میرے آئیڈیل تھے۔ شرافت اور انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ انتقال سے پانچ روز قبل اردو اکاڈمی کے ہال میں مرحوم شہود عالم ا ٓفاقی کی شاعری پر انگریزی میں تبصرہ کرکے سامعین کو حیرت زدہ کردیا وجہ یہ تھی کہ اس تقریب کی صدارت بنگال کے گورنر شری کیسری ناتھ ترپاٹھی کررہے تھے۔ ان کی اچانک موت پر پورے مغربی بنگال کی علمی و ادبی فضا سوگوار ہوگئی۔ ملک بھر سے تعزیتی پیغام موصول ہونے لگے۔ سب سے اہم پیغام ملک کے معروف عالم دین حضرت مولانا ولی رحمانی کا تھا انہوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں جو جملے لکھے وہ صد فی صددرست تھے کہ ’’سیمینار اور جلسوں میں دلیل کے ساتھ جو گفتگو مرحوم پروفیسر سلیمان خورشید کرتے تھے اب دور دور تک کلکتے میں کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا‘‘ اہلِ کلکتہ اور خاص کر مسلم انسٹی ٹیوٹ کی مجلس انتظامیہ سے التماس ہے کہ انسٹی ٹیوٹ میں ان کی کوئی یادگار قائم کی جائے جہاں برسوں انہوں نے بے لوث خدمات انجام دئیے۔

    آیئے اب آپ کو ان کے مختصر سوانح حیات سے واقف کرائیں امید ہے کہ آپ میری رائے سے اتفاق ضرور کریں گے۔

     سلیمان خورشید سے پروفیسر سلیمان خورشید تک کا طویل سفر کی داستان کچھ اس طرح ہے کہ ۳۰؍دسمبر۱۹۴۹ء کو محترم خورشید انور راجا بازار کے گھر ایک ننھے سے مہمان کی شکل میں تشریف لائے ابتدائی تعلیم مدرسہ بیت العلوم راجا بازار کے بعد ووڈ برن اسکول، مومن ہائی اسکول، مولانا آزاد کالج اور پھر آخری درس گاہ پریسیڈنسی کالج سے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرکے اپنی تعلیم کو مکمل کیا۔ ۲۸؍مئی ۱۹۷۲ء کو ازدواجی زندگی سے منسلک ہوئے۔ شجرہ بڑھا ایک بیٹی اور چار بیٹے پروردگار نے عطا کئے جو ماشاء اللہ سب کے سب نیک اور تعلیم یافتہ ہیں ۔ ۲۴؍جنوری ۱۹۷۵ء میں کلکتہ سٹی کالج میں شعبہ تاریخ میں بحیثیت لیکچرارسروس جوائن کئے۔ بعدمیں صدر شعبہ تاریخ بھی ہوئے۔ ۱۹۹۱ء-۱۹۹۲ء میں بحیثیت جزوقتی لیکچرار مولانا آزاد کالج میں خدمات پیش کئے۔ ۱۹۹۶ء میں کلکتہ یونیورسٹی میں تاریخ وثقافت کے لئے آپ کی خدمات حاصل کی گئی۔ ۲۰۰۰ء میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) کا اسٹڈی سنٹر مسلم انسٹی ٹیوٹ میں قائم کیا۔ انتظامیہ کے اسرار پر اعزازی پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ کی علمی صلاحیت اور تجربہ کے پیش نظر ۲۰۱۰ء میں عالیہ یونیورسٹی نے بحیثیت استاد تاریخ آپ کا انتخاب کیا، جسے آپ نے قبول کیا۔ سلیمان خورشید کی زندگی کا مشن اردو کا فروغ اور صرف تعلیم کہ کس طرح ہم اپنے قوم وملت کے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں ، تب ہی تو مرحوم خواجہ اختر جاوید جیسے شاعر نے ایسے ہی افراد کے لئے یہ شعر کہہ ڈالا کہ:

نونہالوں کی فکر ہے شاید گھر کا بوڑھا شجر نہیں سوتا

روشنی بانٹنے کی چاہت میں اک دیا رات بھر نہیں سوتا

  سلیمان خورشید کی کی اپنی کوئی کتاب منظر عام پر اب تک نہ آسکی مگر ان کی شخصیت، خدمات کے حوالے سے ڈاکٹر عقیل احمد عقیل کی ضخیم کتاب منظر عام پر آچکی ہے جس میں ملک بھر کے ادبا، شعرا اور سماجی خدمت گاروں نے قلم اٹھائے ہیں ۔ یہ کتاب سلیمان خورشید کی خدمات کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ سلیمان خورشید نے تو ویسے انگنت مضامین لکھے تھے مگر ان کے دو اہم مضامین ’اسباب بغاوت ہند‘ اور ’اقبال: دوقومی نظریے کے بانی نہیں ‘ کو قارئین نے بہت پسند کیا۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ تقریر اچھی کرتے ہیں ، ان کی تحریر کمزور ہوتی ہے اور جس کی تحریر صحتمند ہوتی ہے، ان کی تقریر میں کوئی دم نہیں ہوتا مگر سلیمان خورشید کا معاملہ برعکس تھا۔ تحریر اور تقریر دونوں میں مہارت رکھتے۔

  اپنی سماجی زندگی میں سلیمان خورشید کلکتہ کے انگنت ملی، سماجی، ادبی اور تعلیمی اداروں سے جڑے رہے، جن میں مسلم انسٹی ٹیوٹ، محمڈن اسپورٹنگ کلب، ملی کونسل، انجمن ترقی اردو ہند وہ ادارے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کے دور میں محمڈن اسپورٹنگ نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کیا۔ بحیثیت جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند انہوں نے اردو تحریک کو نہ صرف راستے میں لاکھڑا کیا بلکہ حکومت کو اردو کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کردیا اور بہت حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اردو اکاڈمی کے رکن کی حیثیت سے اردو زبان کے فروغ کے لئے حکمرانوں تک اپنی بات میٹنگ کے ذریعہ پہنچائی۔ ملی کونسل کے نائب صدر کی حیثیت سے مرکزی اور صوبائی حکمرانوں تک ملی مسائل کو زبانی اور تحریری شکل میں پیش کیا۔ اس خالص سماجی خدمت گار نے اپنی زندگی کا سب سے زیادہ حصہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کے لئے وقف کیا۔ ۱۹۸۴ء میں آپ اس ادارہ کے جنرل سکریٹری بنائے گئے اور ۲۰۱۲ء تک مسلسل اس باوقار عہدے پر فائز رہے۔ ان کے دور میں مسلم انسٹی ٹیوٹ نے کامیابی وکامرانی کے جو زینے طے کئے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حالانکہ اس ادارہ سے قومی سطح پر کئی نامور ہستیاں جڑی رہیں ، جن میں اے کے فضل الحق، خواجہ سرناظم الدین شمس، حسین شہید سہروردی، علامہ رضا علی وحشت، جمیل مظہری، عباس علی خاں بیخود، کلیم الدین شمس، پروفیسر نیاز احمد خان، پروفیسر اعزاز افضل، کوکب مرزا جیسی قدآور شخصیتوں سے کون واقف نہیں مگر پروفیسر سلیمان خورشید نے اپنے بزرگوں کی روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ مسلم انسٹی ٹیوٹ کو اپنی ذاتی لگن اور کوششوں سے انسٹی ٹیوٹ کے ماتحت چلنے والے تمام شعبوں کو بام عروج تک پہنچادیا۔ دوست تو دوست دشمن بھی سلیمان خورشید کے ا قدام کو سراہتے ہیں ۔ خاص کر تعلیمی شعبے میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو لے کر ایک انقلاب برپا کردیا۔ اس ادارہ سے فارغ سیکڑوں بچے اور بچیاں مختلف شعبہ حیات میں ملک اور بیرون ملک میں اپنی پہچان بنائی۔ ان سب کاسہرا پروفیسر سلیمان خورشید کے ہی سر جاتا ہے کیونکہ کمانڈر ان چیف تو وہی تھے مگر ہائے رے بدنصیبی۔ وحشت کلکتوی نے ٹھیک ہی کہا تھا :

خیال تک نہ کیا اہلِ انجمن نے کبھی

تمام رات جلی شمع انجمن کے لئے

 تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ سرسید احمد خان کے دور کی طرح تخریب کار اور نادان دوست ہر دور میں پیدا ہوئے ہیں اور پھر اپنے کئے پر پچھتاتے بھی ہیں ۔ پروفیسرسلیمان خورشید کے ساتھ بھی انسٹی ٹیوٹ کا ایک طبقہ کسی رہنما کے گمراہ کرنے پر وہی سلوک کیا جو سماج میں شریف اور ایماندار قائدوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے مگر اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی۔ پروفیسر سلیمان خورشید کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔ تاریخ ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی، جن لوگوں نے اپنے معمولی مفادات کے لئے سلیمان خورشید جیسے حاجی اور صوفی صفت انسان کو دھوکہ دیا۔ اللہ کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں ۔ سلیمان صاحب بھلے ہی خاموش رہ گئے مگر تاریخ خاموش نہیں رہے گی۔ وہ سود کے ساتھ اپنا قرض اتار دے گی۔ سلیمان صاحب کے ساتھ پیش آنے والے ان تمام بے بنیاد واقعے کا راقم اور میرے دوست ڈاکٹرعقیل احمد عقیل گواہ ہیں۔ اس وقت ہم دونوں نے ان کو بہت دلاسا دیا مگر انہوں نے کبھی کسی کی شکایت نہ کی مگر دل سے یہ آہ ! غالباً ضرور نکلی ہوگی:   ؎

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی زندگی

جب بولنے لگے تو ہمیں پہ برس پڑے

 بہرحال یہی دنیا ہے۔ ایسی بہت ساری مثالیں آپ کو مل جائیں گی کہ جسم کمزور ہوتے ہی اپنے اعضا ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں تو دنیاوی زندگی میں انسان کا پاور اگر کم ہوجائے تو مفاد پرست اور موقع پرست دوست کیسے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ بہرحال جو ہونا تھا سو ہوا۔ دوستوں کی تیار کردہ آندھی کا مقابلہ سلیمان خورشید نے صبر کے ساتھ کیا۔ کچھ گردوغبار دھول کی زد میں ضرور آئے، پھر جب آندھی تھمی تو وہ سارے دھول خود بخود صاف ہوگئے۔ اس طرح صاف وشفاف پروفیسر سلیمان خورشید کو ایک بار پھر کسی عہدے کے بغیر کلکتہ اور مضافات کے لوگوں نے آنکھوں پہ بٹھانا شروع کردیا۔ ظاہری طور پر تو وہ ہشاش بشاش نظر آتے مگر باطنی طور پر صدموں سے نڈھال اپنا ۷۰ سالہ سفر مکمل کرنے کے بعد آخر کار ۱۵؍مئی ۲۰۱۸ء کو بعد نمازعصر باگماری کے شہر خموشاں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سوگئے۔ اپنے جواں سال چھوٹے بھائی مرحوم الحاج خواجہ جاوید اختر (علیگ) کے اس شعر پر اپنی گفتگو تمام کررہا ہوں کہ    ؎

ہم اپنے وقت کے بالا بلند سورج تھے

غروب ہو گئے کس طرح درمیان سے ہم

          آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے…آمین۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔