پرچھائیں

 سیدہ تبسم منظور ناڈکر

گاؤں کی اس خوش نماصبح ہم اپنے دالان بیٹھے ہوئے باہر کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔  لمبے اونچے ہرے بھرے پیڑ….لہلہاتے کھیت…. اونچےاونچے پربت… ان میں بہتے ہوئے جھرنے….پاس کیاریوں میں لگے ہوئے گلاب اور موگرا کے پودے جن پر بہت سارے پھول کھلے ہوئے تھے۔ یہ نظارے دل و دماغ کو سرشار کر رہے تھے۔ اس پرسےٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بالوں کوسہلا رہی تھی۔ سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں گالوں کو چھو رہی تھیں۔ ہم اپنے رب کی صنائیوں کو دیکھ دیکھ مدہوش ہوئے جا رہے تھے۔ اتنے میں ہمارے فون کی گھنٹی نے شور مچانا شروع کردیا۔ ہم نے اپنا موبائل اٹھایا ۔اس پر ایک انجانا سا نمبرتھا۔سوچا ہوگا کوئی پر گھنٹی بجتی رہی تو ہمیں نا چاہتے ہوئے بھی فون ریسیو کرنا پڑا۔ سامنے سے ایک خوبصورت سی مدہوش کرنے والی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی۔ انہوں نے ہیلو کہا اور سلام کیا ۔وہ نامعلوم آواز کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔۔۔ ،

"’’ ہم نے آپ کو ہمارے شہر کے اخبار میں کئی مرتبہ پڑھا ہے۔ کئی بار سوچا آپ کو کال کریں پر ہمت ہی نہیں جٹا پا رہے۔ہم جاننا چاہتے تھے جن کی سوچ اتنی اچھی ہیں وہ کیسی ہوں گی…. جو اتنا اچھا لکھتیں ہیں وہ کیسی ہونگیں ۔ہم آپ سےبات کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔آپ کو جاننا چاہتے تھے۔ اور آج ہمت کر کے ہم نے کال کر ہی لی۔ آپ بہت اچھا لکھتی ہیں۔آپ کی سوچ بہت خوبصورت ہے۔ ہم آپ کے قائل ہوگئے ہیں۔‘‘”

ہم ان کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔لہجے میں اتنی اپنائیت تھی کہ محسوس ہورہا تھا کہ ہماری پہلے سے ہی شناسائی ہو،ہم انہیں پہلے سے جانتے ہوں۔ باتیں بھی بالکل ہماری ہی طرح کر رہیں تھیں۔ ہم نے ان کا نام پوچھا۔ سن کر ذہن کو ایک لطیف سا خوشگوار احساس ہوا کہ یہاں بھی تبسم۔۔۔۔ اوروہاں بھی تبسم ۔۔۔۔۔پہلی ہی گفتگو سے ہم دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوگئے جیسے سالوں پرانی سہلیاں ہوں۔۔۔۔۔جیسے مقناطیسی لہریں ہمیں ایک دوسرے کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہی ہوں ۔ہم دونوں نے کافی باتیں کیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں جانا۔۔۔۔۔ فیمیلی کے بارے میں۔۔۔۔۔۔ اپنی اپنی مصروفیات کے بارےمیں ۔۔۔۔۔۔۔پھر انہوں نے ہمارا واٹسپ نمبر مانگا۔تو ہم نے بھی جلدی سے دے دیا۔ بات کرتے ہوئے بیچ بیچ میں ان کا ہنسنا بڑا اچھا لگ رہا ۔ پندرہ بیس منٹ کی گفتگو کے بعد اللہ حافظ کہہ کر فون کٹ کیا اور ہم سوچ میں پڑ گئے ۔ کبھی کبھی کچھ ایسے لوگوں سے بھی رابطہ ہو جاتا ہے جو ہمارے لئے بالکل ہی انجانے ہوتے ہیں۔ جن کو ہم نےنا کبھی دیکھا ہوتا ہے نہ ملے ہوتے ہیں۔ مگر کسی نہ کسی رابطے میں آنے پر وہ دل میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ یہاں بھی ایک خوبصورت آواز اور اپنائیت ہمارے دل کو متاثر کرگئی اورلگا پہلی ہی گفتگو میں ایک کبھی نہ ٹوٹنے والارشتہ بن گیا ہو۔

ہم اپنے مائیکے میں تھے۔ کچھ خاص کام تو تھا نہیں بس تھوڑی دیر اپنی ماں بہنوں کے ساتھ بیٹھے ،وقت گذارا ،تھوڑا ہنسی مذاق، تھوڑی گپ شپ کی اور پھر ہم نے اپنے فون کو دیکھا۔ واٹس اپ اوپن کیا تو ایک نئے نمبر سے میسج تھا۔ اوپن کرکے دیکھا تو تبسم کا ہی میسج تھا پر نمبر دوسرا تھا۔انھوں نے ان کے شہر میں جو مضمون شائع ہوا تھا، اس اخبار کا تراشہ بھیجا تھااور ہماری ڈی پی دیکھ کر ہمیں داد دی۔ تھوڑی بہت واٹس اپ پر باتیں ہوئیں۔ ایک ہی دن میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جان لیا ۔ اور ایک دوسرے کو سمجھ لیا۔

اس دن فون پر ہماری چار مرتبہ بات ہوئی ۔ بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ آج ہی فون پر ملاقات ہوئی ہواور ملاقات بھی کیسی؟ نا ہی ایک دوسرے کو دیکھا نہ کہیں ملے۔۔۔۔۔۔ یہ کیسا رشتہ تھا جو بہت زیادہ اپنائیت والاتھا۔ ۔۔۔۔۔۔ہم دونوں کی صرف شکل الگ ہے ورنہ دونوں کی عادتیں ،رہن سہن ،بولنے کا انداز، دونوں کی بیتی زندگی ۔۔۔۔۔دونوں کی تعلیم۔۔۔۔۔کیا کیا مماثل نہیں لگا۔ دونوں کےدلوں میں رحم کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔۔۔۔۔۔ دونوں بھی لکھتی ہیں پر ایک رحمت ہیں اور دوسری جوش ۔۔۔   اور وہ صرف لکھنے کے معاملات میں۔۔۔۔۔باقی ہو بہ ہو ہماری پر چھائیں.

یہ تو پہلا ہی دن تھا۔پھر ہماری روزانہ خوب باتیں ہوتی رہیں ۔ ہم دونوں اپنی ساری باتیں ایک دوسرے سے شیئر کرتے ۔۔۔۔ چند ہی دنوں میں ہم اتنے گہرے دوست بن گئے کہ بتانے کے لئے اور جتانے کے لیے کوئی الفاظ نہیں ۔وہ تبسم بہت ہی پیاری اور خوبصورت ہیں اور خوب سیرت بھی ۔ہر بات پر بس ہنستیں رہتی ہیں ۔ تھوڑی سی معصوم۔۔۔۔ تھوڑی سی دیوانی ۔۔۔ تھوڑی سی نادان۔ تھوڑی سی الہڑ۔۔۔۔۔ تھوڑی چلبلی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر بہت پیاری ۔۔۔۔۔۔ اپنی دوست پر جان لٹانے والی ۔۔۔۔۔

یہ کوئی سالوں پرانی دوستی نہیں جس کو ہم لکھنے بیٹھیں ہیں ۔ ایسے دوست بہت کم ملتے ہیں جو اندر سے بھی باہر کی طرح ہوں ۔۔۔۔۔۔اور میری تبسم بالکل باہر کی طرح اندر سے بھی ہیں۔ کسی  کے لئے کوئی بیر نہیں، کسی کے لئے دل میں نفرت نہیں ۔۔۔۔۔۔بس پیار اور مسکراہٹ بکھیرنا تبسم کی عادت ہے اس لئے اس تبسم کو بھی وہ تبسم بھا گئی ۔۔۔۔۔۔بالکل اپنی طرح ۔۔۔۔۔ یہ 22 دسمبر ہم دونوں کی زندگی میں ڈھیر ساری خوشیاں لے آیا ۔آج انجانے رشتوں پر یقین ہوا۔ ایسے دوستی کے رشتے بھی اللہ رب العزت کی طرف سے بیش بہا اور نایاب تحفہ ہوتےہیں ۔ایسے تو کئی لوگ ہماری زندگی میں آتے ہیں پر دل کا رشتہ ہر کیسی سے نہیں ہوتا۔اور یہ دل اور دوستی کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ۔یہ ایسا رشتہ جو دور رہ کر بھی دل کے قریب ہو ایک سائے کی طرح ہمیشہ ساتھ ۔۔۔۔۔  اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہماری دوستی کو کیسی کی نظر نہ لگے۔

 جس کے لفظوں میں ہمیں اپنی پرچھائیں ملتی ہیں

 بڑے نصیبوں سے ایسے کوئی دوست ملتے ہیں

بقول شاعر

کوئی وجود ہے دنیا میں کوئی پرچھائیں 

سو ہر کوئی نہیں ہوتا کسی کی پرچھائیں 

تبصرے بند ہیں۔