پریم ناتھ بسملؔ : سرزمینِ بہار کی ناز اور اردو زبان کے پریمی

قلم مظفر نازنین

(کولکاتا)

          فخر کے ساتھ کہنا چاہوں گی کہ میں ہندوستانی ہوں۔ وطن عزیز ہندوستان قوس و قزح کی مانند ہیں۔ قوسِ قزح سات رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ Violet, Indigo, Blue, Green, Yellow, Orange, Red  (Vibgyor)۔ اس میں ایک رنگ بھی غیر نمودار ہو تو اس کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ یہ کیفیت وطن ِ عزیز ہندوستان کی ہے۔ یہاں ہندو مسلم ، سکھ، عیسائی، جین، پارسی گو کہ ہمارے روحانی عقائد بلا شبہ مختلف ہیں۔ ہندو مندر میں گھنٹی بجائیں ، مسلمان مسجد میں نماز پڑھیں۔ عیسائی گرجا گھروں میں Prayer کریں۔ سکھ گرودوارے میں گرنتھ پڑھیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ ہم ہندوستانی ہیں اور بلا شبہ ہمیں ہندوستانی ہونے پر ناز ہے۔ یہ وہ سر زمین ہے جہاں ایسے مسلمان ہیں جو ہندی اور سنسکرت کے اسکالر ہیں تو ایسے ہندو بھی ہیں جنہوں نے عربی، فاری اور اردو میں پی – ایچ – ڈی کی ہے۔ اور بڑے بڑے اسکالرز ہیں۔ صاف شیشے کی ماندد عیاں ہے کہ کسی زبان سے کس خاص طبقے کو جوڑنا بالکل غلط ہے۔ تا بناک ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو بہت سے غیر مسلم شعرا اور ادبا نے اردو زبان کی آبیاری کی اور اسے اپنے لہو سے سینچا۔ راجندر سنگھ بیدی، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، دیا شنکر نسیم، پنڈر برج نارائن چکبست، منشی پریم چند، گلزار دہلوی، جگن ناتھ سرشار،کنور مہندر سنگھ ایسے عظیم شعرا تھے جنہوں نے اپنے خون ِ جگر سے شیریں زبان اردو کی آبیاری کی۔ یہ مختصر سی تمہید لکھنے کی ضرورت یوں پیش ٓئی کہ لوگ عموماً اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت بالکل ایسا نہیں ہے۔ بقول شاعر  ـ:

اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی

اکبر نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی

دکن کے ولیؔ نے مجھے گودی میں کھلایا

سودا کے قصیدے نے میرا حسن بڑھایا

فانی نے سجائے میرے پلکوں پہ ستارے

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ

خود کو میں نے مسلمان نہیں مانا

          مندرجہ بالا اشعارکافی اہمیت کا حامل ہے۔ اور اس حقیقت سے چشم پوش نہیں کرنی چاہیے کہ سر زمین ہند کی ایسی شخصیتوں پر ہمیں ناز ہے۔ جو بلاشبہ گنگا جمن تہذیب کے روشن مثال ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت ہے سر زمین بہار کی جنہیں پریم ناتھ بسملؔ کے نام سے دنیا جانتی ہے۔ پریم ناتھ بسملؔ جی جیسا کہ ان کا نام ہے۔ ہندی ، اردو اور انگریزی پر قدر ت حاصل ہے۔ بلاشبہ موصوف تینوں زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی۔ پھر پٹنہ یوینورسٹی سے بی- اے اور 2008 ء میں ایم – اے کیا۔پریم ناتھ بسملؔ جی ایک بہترین شاعر، مدرس اور قلم کار ہیں۔ کہتے ہیں ذوق اگر ہو تو منزل خود بڑھ کر قدم چوم لیتی ہے۔ ا ن کی ابتدائی تعلیم ویشالی ضلع کے مدرسہ احمدیہ ابوبکر پور ایک قدیم اور مشہور تعلیمی ادارہ میں ہوا۔ مدرسے کا ماحول انہیں اس قدر اچھا معلوم ہوا کہ موصوف یہیں سے ’’مولوی‘‘ کا کورس مکمل کیا۔ یہ بات اپنی نوعیت میں بے مثال ہے۔ جس کی نظیر نہیں ملتی اور پریم ناتھ بسملؔ ’’مولوی پریم ناتھ بسمل‘‘ؔ بن گئے۔ پریم ناتھ بسملؔ بہار کے اردو کے استاد بن کر مہوا کے ایک میڈل اسکول سے وابستہ ہوئے۔ اور اب تک موصوف اس میں اپنی فرائض بحیثیت مدرس انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پندرہ روزہ ’’صدائے بسمل‘‘ میں اعزازی مدیر کی حیثیت سے کام انجام دے رہے ہیں۔

          پریم ناتھ بسمل ؔ کے چند خوبصورت اشعار ہیں جو قارئین کے فن شناس نظروں کی نذر کرتی ہوں :

آپ نفرت سے دیکھتے ہی رہیں

پڑھ کے اردو سنور گیا کوئی

میں شاعری کے فن سے تو واقف نہ تھا مگر

بسملؔ مجھے بھی عشق نے شاعر بنا دیا

محبت مل گئی مجھ کو کہ شہرت مل گئی مجھ کو

تجھے کیا کیا کہوں بسملؔ کہ اردو سے ملا کیا ہے

          کشمیر کے حالات پر بسملؔکا دل تڑپتا ہے۔ اور شاعر یوں رقم طراز ہیں :ـ

ہاتھ میں پتھر نہیں ، پکڑو ذرا تم بھی قلم

دشمنی تم بھول جاؤ دوست بن جائیں گے ہم

          پریم ناتھ بسملؔ جی کی ایک خوبصورت غزل ہے جو ہولی کے تہوار کے تعلق سے ہے۔ جس میں نفرتوں کو بھلا کرپیار کا پیغام دیتے ہیں اور ہر لفظ کو گویا گوہر نایاب کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔

چلو اب ساتھ مل کر ہم سبھی ہولی مناتے ہیں

مٹا کر نفرتوں کو دل محبت سے سجاتے ہیں

کلابی، لال، پیلے رنگ دھل جاتے ہیں پانی سے

کہ چھوڑو نگ کی باتیں چلو ہم دل لگاتے ہیں

جلاتے آئے ہیں اک دوسرے کا گھر زمانے سے

چلو اب ساتھ مل کر پیار کی بستی بساتے ہیں

اگر منظور ہو تم کو ، مٹا دوں خود کو الفت میں

یہ دل کیا چیز ہے تم پر صنم ہم جاں لٹاتے ہیں

ملا کر ہاتھ تم یوں مسکرانا چھوڑ دو صاحب

اگر دل میں محبت ہے تو دل سے دل ملاتے ہیں

مرے دل میں وہ رہتے ہیں مری ہر سانس ہے ان کی

نہ جانے کس لیے اکثر وہی مجھ کو سناتے ہیں

ملا کرتے ہیں اکثر راستے میں اجنبی بن کر

میں ان کو آزماتا ہوں ، وہ مجھ کو آزماتے ہیں

دیا جب دل صنم تم کو تو کیسی جنگ الفت میں

مبارک جیت ہو تم کو چلو ہم ہار جاتے ہیں

بھلا ہم کیا کہیں بسملؔ کرشمے ان کی الفت کے

جنہیں ہم بھولنا چاہیں وہی کیوں یاد آتے ہیں

          شیریں زبان اردو کے تعلق سے چند اشعار ملاحظہ کریں  :

بڑی میٹھی ، بڑی اچھی ، بڑی دلکش ہے یہ اردو

اسے اپنی زبان کر لیں ، جو دل میں ہے بیاں کر لیں

          اردو کے تعلق سے یہ خوبصورت شعر قارئین کے فن شناس نظروں کے حوالے  :ـ

لگتا ہے کہ اردو سے تجھے ہوگئی الفت

بسملؔ تری اردو سے لگن دیکھ رہا ہوں

مسلماں ہوں ، نہ ہندو ہوں ، مگر جو کچھ ہوں انساں ہوں

سلیقہ بات کرنے کا مجھے اردو سکھاتی ہے

          مندرجہ بالا شعر ایک امن پسند، سیکولر ہندوستانی شاعر ہی کہہ سکتا ہے۔ بلا شبہ پریم ناتھ بسملؔ جی اس کے غماز ہیں۔ مندرجہ ذیل شعر بھی بھارت میں پریم اور آشتی کے جذبے کو سرشار کرتا ہے۔ اور پریم ناتھ بسملؔ جی کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ اور نفرت کو بھلا کر پیار کا پیغام دیتا ہے :

ہوا ہوں میں بسملؔ تڑپتا رہوں گا

کہ دردِ محبت کا سلطان ہوں میں

بغض و کینہ کو دل سے مٹایا کرو

پیار کا دیپ دل میں جلایا کرو

بنا کر امیروں کا ہم بھیس یارو

غریبوں کے بچوں کا حق مارتے ہیں

تجھ سے ملنے کو بار بار گیا

دل کو لے کر میں بے قرار گیا

جنگ اپنوں سے کیا کرے کوئی

بس یہی سوچ کر میں ہار گیا

          گویا پریم ناتھ بسملؔ جی کی غزلیں بھی اعلیٰ پایہ کی ہیں اور ان کے احساسات کی بہترین ترجمانی ہیں۔ سر زمین بہار کے اس سپوت پر ہمیں ناز ہے۔ اﷲ ان کا اقبال بلند کرے۔ زورِ قلم اور زیادہ ہو اور ہم ان کی غزلوں کا لطف لتے رہیں۔ بقول بسمل ؔ

بسملؔ سنا رہا ہے غزل سن رہے ہیں لوگ

 کیا لطف مل رہا ہے دل داغ دار میں

پریم ناتھ بسملؔ اپنی غزلوں کے متعلق فرماتے ہیں :

غزل سنانا تو مقصد نہیں مرا بسملؔ

تمام عمر کا قصہ سنا رہا ہوں میں

تبصرے بند ہیں۔