پرینکا کی نیم پلیٹ بھی ایک خبر ہے

حفیظ نعمانی

وزیراعظم نریندر مودی کو کیوں یاد نہیں کہ مسلمان بادشاہوں کی 800  برس کی حکومت سے پہلے پورے ہندوستان میں راجائوں مہاراجائوں کی حکومت تھی اور ہر ریاست کے عوام کے نزدیک اُن کا راجہ ہی ان داتا اور بھگوان ہو تا تھا یہ وہی ہندوستان ہے بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت ملک میں نہ مسلمان تھے اور نہ عیسائی اور حکمراں کوئی ہو عام آدمی کچھ نہ کچھ ان کے تمدن سے سیکھتا ہے اور اپنے تمدن سے انہیں دیتا ہے۔ جیسے پورے ملک پر ایک ہی پارٹی کی آڑ میں ایک ہی شخص کی حکومت مسلمانوں سے سیکھی تو جمہوری حکومت کا انداز یورپ سے سیکھا اور اپنایا لیکن وہ جو راجہ پرستی اور ان سے محبت خمیر میں تھی وہ بدلے ہوئے انداز میں آج بھی باقی ہے۔

ہندوستان کو آزاد کرانے میں جس جس نے بھی حصہ لیا ہو لیکن الہ آباد کے ایک بہت بڑے وکیل موتی لعل نہرو اور ان سے بھی زیادہ ان کا خاندان اور سب سے زیادہ ان کے بیٹے جواہر لعل نہرو نے حصہ لیا۔ جس زمانہ میں وہ عالیشان قلعہ میں عیش کرنے کیلئے بند کردیئے جاتے تھے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ جیل میں ڈال دیئے گئے ہیں تو ان کے متعلق جیسی کہانیاں عوام کی زبانوں پر ہوتی تھیں ان میں یہ بھی تھی کہ پنڈت نہرو کے کپڑے پیرس دُھلنے جاتے تھے اور اب وہ ہماری محبت میں جیل میں اپنے کپڑے خود دھوکر پہنتے ہوں گے۔ اور اگر سب کچھ لکھا جائے تو کالم اس سے بھر جائے۔

اور جب ملک آزاد ہوا تو وہی وزیراعظم یعنی مہاراجہ بنے اور ان کے بعد صرف دو سال کے وقفہ سے ان کی بیٹی اندرا گاندھی وزیراعظم بن گئیں اور یہ اس خاندان کی چالیس سال تک مسلسل حکومت کرنے کا نتیجہ ہے کہ وہ خاندان مہاراجہ کا ہوگیا اور اس کے بچہ بچہ کو یہ اعزاز نصیب ہوگیا کہ وہ شاہی خاندان کا راج کمار یا راج کماری ہے۔ جاہل ملک کے جاہل عوام کے نزدیک 282  سیٹوں کے بل پر وزیراعظم بننا یا دس برس تک ڈاکٹر منموہن سنگھ کا وزیراعظم بنے رہنا ان کو مہاراجہ کیا راجہ بھی نہیں بناپایا ہے۔

جب اندرا گاندھی وزیراعظم تھیں اور پنڈت کملا پتی ترپاٹھی ریل کے وزیر تھے کسی بات پر اختلاف ہوگیا اور اندراجی کے کہنے سے انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اندراجی نے ان کو ورکنگ صدر بنا دیا۔ وہ جب دفتر میں جاکر بیٹھے تو کانگریسیوں کی بھیڑ لگ گئی۔ اندراجی کو خبر ہوئی تو انہوں نے لکیر کے برابر ایک بڑی لکیر کھینچتے ہوئے اسے چھوٹا کرنے کیلئے سکریٹری بناکر اپنے بیٹے سنجے گاندھی کو آفس میں بٹھا دیا۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ اب کملاپتی ترپاٹھی کے کمرہ میں مکھیاں بھی نہیں ہیں جن کو مار مارکر وہ اپنا غصہ اتاریں۔ اندراجی کسی کا دربار برداشت نہیں کرسکتی تھیں۔

ہم یہ بات صرف مودی جی سے نہیں ہر اس آدمی سے کہنا چاہتے ہیں جس کو پرینکا گاندھی کے آنے سے کانگریس میں ابال آنے پر حیرت اور تعجب ہورہا ہے۔ یہ سونیا گاندھی یا راہل گاندھی کی بات نہیں عوام کے دلوں میں جو مقام اس خاندان کا ہے وہ دور دور تک کسی کا نہیں ہے کوئی سردار پٹیل کا 300  میٹر کا مجسمہ بنادے یا ملک کے لئے جان قربان کرنے والے نیتاجی کا 400  میٹر کا مجسمہ بناکر لگالے کوئی نہرو کے کاندھے کے برابر بھی نہیں آسکتا۔ اور مودی جی سرپھوڑکر دیکھ چکے ہیں۔

ہم نے 23  جنوری سے اب تک ہر دن نہ جانے کتنی کتنی بار پرینکا گاندھی کو تقریر کرتے لوگوں سے ملتے بھائی کے ساتھ ہر طرح دیکھا جبکہ وہ ہندوستان کے بجائے امریکہ میں تھیں۔ اور کل شام اچانک دیکھا کہ ایک صاحب سفید کرسی پر کھڑے پرینکا گاندھی کے نام کی پلیٹ ان کے کمرہ کے باہر لگا رہے ہیں جو بظاہر آفس سے متعلق ہیں۔ ایک اخبار نے 3 کالم اور 9 اِنچ کے حلقہ میں اس کی تفصیل چھاپی ہے اور اندر لکھ دیا ہے کہ یہ کوئی خبر نہیں ہے۔ یہ کسی کی عظمت کی آخری بات ہے کہ خبر چھاپ رہے ہیں اور اعتراف ہے کہ یہ کوئی خبر نہیں ہے مقصد صرف یہ ہے کہ اگر ان کی کوئی خبر نہیں ہے تو ان کے نام کی تختی کی ہی سہی خبر ضرور جانا چاہئے۔ اور ان سے زیادہ اہم شخصیت جیوترادتیہ سندھیا کی ہے جس نے اس مدھیہ پردیش کو کانگریس کے قدموں میں لاکر ڈال دیا ہے جسے بزرگ لیڈر دگ وجے سنگھ بھاری پتھر سمجھ کر چوم کر واپس آگئے تھے۔ اسی سندھیا کو اُسی دن کانگریس کا جنرل سکریٹری بنایا گیا جس دن پرینکا کو بنایا تھا اور مغربی یوپی کا چارج دیا گیا۔ وہ نہ امریکہ گئے تھے نہ لندن، ہندوستان میں تھے اور ہیں لیکن نہ یہ خبر آئی کہ ان کا کمرہ کون سا ہے اور نہ یہ خبر آئی کہ ان کی اپنے صدر راہل گاندھی سے کتنی بار میٹنگ ہوئی اور انہوں نے پندرہ دنوں میں کیا کیا؟ یہ سب اس لئے کہ وہ اندرا گاندھی کے نہ پوتے ہیں اور نہ نواسے۔ اور ہمیں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید انہوں نے اپنی شہرت اور عزت کو پرینکا گاندھی کی چمک اور دھمک پر قربان کرنے سے انکار کردیا۔ (ہم نے صبح اخبارات پڑھ کر یہ سب لکھ دیا مضمون بھیجنے سے پہلے ٹی وی دیکھا تو سندھیا کو بھی کمرہ دے دیا گیا ہے اور وہ آکر بیٹھ گئے)

یہ کہنا کہ پرینکا کو راہل لائے یا سونیا نے بھیجا یہ سب اس شور میں دب گیا جو عام کانگریسیوں نے مچایا ہے اور اگر وہ کوئی کارنامہ انجام دیتی ہیں تو یہ صرف عوام کی وہ محبت ہوگی جو انہیں اپنی راج کماری سے ہے جس نے ابھی کچھ نہیں دیا ہے لیکن ہر طرف اس کی مانگ ہے۔

جب سے راہل گاندھی نے کہا ہے کہ ہم یوپی کی تمام سیٹوں پر الیکشن لڑیں گے اس وقت سے یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ سپا بی ایس پی مدھیہ پردیش اور اُتراکھنڈ کی تمام پارلیمانی سیٹوں پر اپنے اُمیدوار کھڑے کریں گے۔ دونوں نے اسمبلی کے الیکشن میں بھی اپنے اُمیدوار کھڑے کئے تھے جن میں دو مایاوتی کو اور ایک اکھلیش کو ملا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ دونوں نے کانگریس کے ووٹ کاٹے۔

ہم صرف مسلمانوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ مودی سرکار کی واپسی کا جو نقصان مسلمانوں کو ہوگا وہ ان میں سے کسی کو نہیں ہوگا۔ یہ دونوں یا اور جو بھی ایسی حرکت کرے اسے بس یہ نقصان ہوگا کہ اسے حکومت میں سے حصہ نہیں ملے گا لیکن مسلمانوں کا معاشی نقصان ہوگا مودی یوگی نے ہر وہ کام جس سے مسلمان اپنی روزی روٹی کما لیتے تھے اسے بند کردیا ہے۔ زندہ اور مردہ جانور، گوشت اور کھال کا کاروبار صرف مسلمانوں کا تھا اور مسلمانوں نے پلاٹنگ کرکے زمین پر مکان بنوانا یا شہروں میں پرانے مکانات کو نئے فلیٹ بناکر ان کو نیا کرنا اس میں بڑھئی، لوہار اور مستری سب کو روزگار مل رہا تھا اس کاروبار میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں کہ کام چوتھائی بھی نہیں رہا۔ اس لئے ہر دشمنی کو دوستی میں بدل کر یہ دیکھنا ہوگا کہ مسلمان ووٹ تقسیم نہ ہونے پائے جہاں گٹھ بندھن کا جیت رہا ہے وہاں کانگریس کو نہ دیکھا جائے اور جہاں کانگریس کا جیت رہا ہے وہاں محاذ کو نہ دیکھا جائے صرف اپنی فکر کرنا چاہئے ہوسکتا ہے اسے کوئی خود غرضی کہے۔ ہم یہ سننے کے لئے اس وجہ سے تیار ہیں کہ کوئی سیاسی پارٹی ان پابندیوں کے خلاف حکومت سے نہیں ٹکرائی جن پابندیوں نے کروڑوں مسلمانوں کے منھ کا نوالا چھین لیا۔ ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ کوئی پارٹی مسلمان کو ٹکٹ نہ دے ہمیں پارلیمنٹ نہیں عام مسلمانوں کو روٹی اور روزگار چاہئے۔ ہم تو ہر اس سیاسی آدمی کو بھی آواز دیں گے جو پارٹیوں کو اپنے کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہے کہ پہلے اپنے غریب بھائیوں کا پیٹ بھروائیں ہر پارٹی سے معلوم کریں کہ کسی نے سلاٹر ہائوس کے لئے کیوں زبان نہیں کھولی۔ ہر سیاسی لیڈر یوگی کی پوشاک سے ڈر گیا۔ جو اتنے بزدل ہیں ہم انہیں صرف اپنے مطلب کے لئے استعمال کریں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔