ہر کوئی اپنے اندر ہی سمٹا ہے کیوں

افتخار راغب

ہر کوئی اپنے اندر ہی سمٹا ہے کیوں

مسخ اتنا اخوّت کا چہرہ ہے کیوں

تم کو معلوم ہے تم ہو دنیا مری

کیا کہوں مجھ سے ناراض دنیا ہے کیوں

صبر کی اس نے تلقین کی تھی کبھی

اب یہ شکوہ کہ یہ شخص ایسا ہے کیوں

کیا بتاؤں کہ میں خود ہی حیران ہوں

تجھ پہ خود سے زیادہ بھروسا ہے کیوں

دیکھتے ہی اُسے جان جاؤگے تم

قریۂ دل میں اتنا اجالا ہے کیوں

دور بیٹھے ہوئے چاند کو کیا پتا

"چاند کے عشق میں دل تڑپتا ہے کیوں”

 تجھ پہ راغب ہوں اور ہوں ترا افتخار

پھر بھی توٗ مجھ سے یوں اکھڑا اکھڑا ہے کیوں

تبصرے بند ہیں۔