ہر کوئی اپنے اندر ہی سمٹا ہے کیوں
افتخار راغب
ہر کوئی اپنے اندر ہی سمٹا ہے کیوں
مسخ اتنا اخوّت کا چہرہ ہے کیوں
…
تم کو معلوم ہے تم ہو دنیا مری
کیا کہوں مجھ سے ناراض دنیا ہے کیوں
…
صبر کی اس نے تلقین کی تھی کبھی
اب یہ شکوہ کہ یہ شخص ایسا ہے کیوں
…
کیا بتاؤں کہ میں خود ہی حیران ہوں
تجھ پہ خود سے زیادہ بھروسا ہے کیوں
…
دیکھتے ہی اُسے جان جاؤگے تم
قریۂ دل میں اتنا اجالا ہے کیوں
…
دور بیٹھے ہوئے چاند کو کیا پتا
"چاند کے عشق میں دل تڑپتا ہے کیوں”
…
تجھ پہ راغب ہوں اور ہوں ترا افتخار
پھر بھی توٗ مجھ سے یوں اکھڑا اکھڑا ہے کیوں
تبصرے بند ہیں۔