پس پردہ دیکھئے

ممتاز میر

ایک عشرہ قبل جب مودی جی نے رات 8 بجے ہزار پانسو والے نوٹوں کی حیثیت ختم کردی تو ہمیں لگا کہ انھوں نے وطن عزیز کی عوام پر
ٹیررسٹ اٹیک کیا ہے مگر غالباً 15 نومبر کی صبح جب سپریم کورٹ کابیان پڑھا تو معلوم ہوا یہ ٹیررسٹ اٹیک نہیں بلکہ کارپٹ بمباری ہے ۔
سوچنے پر سپریم کورٹ کا بیان ہی درست معلوم ہوا۔ویسے بھی جب سے ٹھاکر صاحب چیف جسٹس بنے ہیں ہم نے سپریم کورٹ سے
اختلاف کرنا چھوڑ دیا ہے ۔وہ پہلے ہی سپریم کورٹ میں ججوں کی کمی کو لے کر صرف غمزدہ نہیں رہتے بلکہ بوقت ضرورت رو بھی دیتے ہیں
ایسے شخص سے اختلاف کرنا ہمیں مناسب معلوم نہیں ہوتا۔پھر تیررسٹ اٹیک تو چند منٹوں میں ختم ہو جاتا ہے مگر کارپٹ بمباری اس وقت تک جاری رہتی جب تک دشمن کا تیا پانچہ نہیں ہو جاتا۔اور دوران بمباری امدادی کاروائیاں ٹھپ پڑی رہتی ہیں۔اب دشمن کون ہے
یہ بتانا آنریبل سپریم کورٹ کا کام ہے۔
ہمارے خیال میں آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کا یہ پہلا قدم ہے جس سے سارا ملک اس بری طرح دسٹرب ہوا ہے ۔
بادشاہوں کی تاریخ میں محمد شاہ رنگیلا اور محمد شاہ تغلق بڑے مشہور کردار رہے ہیں ۔کہتے ہیں کہ دونوں ہی کے دور حکومت میں عوامی سطح پر
بڑی بے چینی اور افرا تفری مچی تھی ۔معلوم نہیں مودی جی اس درجے کو ابھی پہونچ چکے ہیں یا ان سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔بہر حال یہ تاریخ دانون کا موضوع ہے ۔ہم اس سلسلے میں کوئی فتویٰ نہیں دے سکتے۔مگر امید تو یہی کرتے ہیں کہ مودی جی اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں دونوں شاہوں سے میلوں آگے نکل چکے ہیںاور کیوں نہ ہو ان کے سر پر آر ایس ایس کی چھتر چھایا جو ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ مودی جی نے ملک کی معیشت پر جو شب خون پہلے دن سے مارے ہیںان سے پہلے اس تعلق سے ان کی برادری کا کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔
مثال کے طور پر وجے مالیہ کا بنکوں کا ہزاروں ہزار کروڑپوری حکومت پولس اور میڈیا کی آنکھوں کے سامنے سے فرار ہو جانا ۔ان تینوں طبقات کو Terrorist activities آکاشوانیاں آتی ہین مگر مالیہ کے فرار کی خبر نہ ہوئی۔پھر مکیش امبانی کوزبردستی ONGC کا
پارٹنر بنا دینا ۔اس سے بھی آگے بڑھ کر ریلوے کی ڈیژل سپلائی کا ٹھیکہ ONGCسے چھین کر ریلائنس کو دے دینا ۔
مودی جی جب مئی2014 میں انتخابات جیت کر سریر آرائے سلطنت ہند ہوئے تھے تو اکثر سیاسی تجزیہ نگاروں کو سیاستدانوں اور خود عوام کو
بھی اس پر یقین نہ آیا تھا۔بہت سوں نے اس جیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا ۔یہاں تک کہا گیا کہ یہEVM الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا کمال ہے ۔بہت سی ایسی ووٹنگ مشینوں کو پیش بھی کیا گیا جو ہر بٹن کے دبانے پر بی جے پی کو ہی ووٹ دے رہی تھی ۔اس قسم کا
شور کچھ دنوں تک جاری رہا ۔مگر مودی جی کے چند نعروں مثلاًسب کا ساتھ سب کا وکاس ،اچھے دن آئیں گے اور ہر بھارتی کے اکاؤنٹ
میں ۱۵ لاکھ کا بھی اپنا نشہ تھا۔عوام کو بڑی جلدی تھی کہ جو ہو گیا سو ہو گیا اب ان الزامات کو سپرد خاک کردیا جائے اور مودی جی پردباؤ
بنایا جائے کہ وہ جلد سے جلد15 لاکھ روپے ہر بھارتی کے اکاؤنٹ میں داخل کریں ۔اس طرح عوام کو یقین تھا کہ ان کے اچھے دن ضرور آجائیں گے ۔اچھے دن کی امید اتنی بڑھی کہ مایوس و محروم عوام نے سیاستدانوں نے اچھے دن کی چڑھ ہی باندھ دی ۔بہت برداشت کرنے کے بعد مودی جی کے چمچوں نے آخر کپڑے اتار ہی دئے۔انھیں کہنا پڑا یہ تو انتخابی جملے بازی تھی ۔بعض نے تو یئہاں تک کہہ دیا کہ اچھے
دن والا جملہ ہمارا تھا ہی نہیں۔یہ اس بات کا ننگا اظہار تھا کہ ہندوستانی عوام کتنی احمق ہے اوراسے کتنی آسانی سے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے
اس کے بعد مودی حکومت نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔کبھی وہ ریل رزرویشن کو پلین رزرویشن بنا دیتی ہے کبھی ریل کاسفر ہی اتنا مہنگا کردیتی ہے کہ لوگ دوبار ہ بیل گاڑی اور گھوڑوں کے بارے میں سوچیں۔ریل کا سفر وطن عزیز میں99 فیصد عوام ہی کرتی ہے ۔کبھی دال 200
روپئے فی کلو گرام تک پہونچا دیتی ہے ۔NEET امتحان کے مسئلے کو مہینوں لٹکا کر رکھا جاتا ہے نتیجتاً وہ طلباء جو مارچ سے فری ہیں اب
نومبر میں کہیں جا کر اپنی اپنی کلاسوں میں مصروف ہو سکے ہیں ۔ہماری آئندہ نسل کے ملک کے مستقبل کے جو ۸ ماہ ضائع ہوئے ہیں اس
کا ذمے دار کون ہے؟ہمارے زمانے میں جب ملک بالکل بھی ترقی یافتہ نہیں تھا پروفیشنل کورس کے طلبا 2؍3 ماہ میں ٹھکانے لگ جاتے تھے
حیرت ہے کہ اتنے بڑے اور سنگین مسئلے کو آج تک نہ پرنٹ میڈیا نے نہ الکٹرانک میڈیا نے اٹھایا ۔آج جبکہ فنگر ٹپس کی جنبش سے ہر کام سکنڈوں میں ہو رہا ہے ہمارے دسویں اور بارہویں کے رزلٹ مہینوں میں کیوں آتے ہیں (خاص طور پر مہاراشٹر میں)مقابلہ جاتی امتحانات اصل امتحان کے بعد دو ہفتوں میں ہی کیوں نہیں کرا لئے جاتے ۔جون یا جولائی تک اگلا تعلیمی سال کیوں نہیں شروع ہوتا۔
مودی حکومت جب سے آئی ہے گیس سبسڈی کے پیچھے پڑ ی ہے۔صرف یہ ایک مسئلہ ہی ایسا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عوام کے اچھے دن نہیں برے دن لانے کے لئے آئی ہے ۔بعض جگہوں پر تو بہت سارے اشخاص کی زبر دستی سبسڈی بند کردی گئی ہے اس کے ساتھ
وہ BPL راشن کاردوں کے بھی پیچھے پڑی ہے ۔حکومت اپنی ہر بے عملی اور بد عملی کا ٹھیکرا پاکستان کے سر پھوڑنے میں ماہر ہے ۔اس کا تجزیہ کر کے حکومت کو آئینہ دکھانے والے چینلوں کو حکومت زباں بندی کا حکم بھی دیتی ہے۔وہ حکمراںجو ریموٹ کنٹرول کے زیر اثر چلتے ہیں ان کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔وہ کبھی پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں کبھی سالگرہ کا کیک کھاتے ہیں کبھی شادی کی بریانی۔کبھی محبت جوش مارتی ہے تو آئی ایس آئی کو تفتیش کے لئے اپنےprohibited ایریاز میں بلا لیتے ہیں ۔اور پھر اچانک سرجیکل اسٹرائیک کے طوفان بھی اٹھالیتے ہیں۔جب اپنی طرف سے اتنی مٹھاس دکھائی تھی توپھر پاکستان کو اس پر بھی تیار کرلینا تھا کہ بھائی جب میں سرجیکل سرجیکل چلاؤں
گا تو تم فوراً سر تسلیم خم کر دینا ۔اس وقت عزت کا سوال ہوگا ۔
مودی جی یا بی جے پی کو جس طرح 2014 میں مکمل اکثیریت کیساتھ بر سر اقتدار لایا گیا وہ ایک تجربہ تھا جو عالمی صیہونی مقتدرہ نے کیا تھا ۔
کچھ دنوں کے رونے کے بعد وطن عزیز میں اب سب ہنسی خوشی مودی جی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ۔90 فی صدی میڈیا بھی ان کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا ہے۔اب وہی تجربہ صیہونی مقتدرہ نے امریکہ میں دہرایا ہے اور ڈنکے کی چو پر دہرایا ہے ۔اس کے باوجود دہرایا ہے کہ انتخاب سے پہلے ایک بھی سروے ٹرمپ کی حمایت میں نہیں تھا ۔ایک طبقہ یا نسل کو چھوڑ کر امریکہ کا ہر طبقہ اور نسل ٹرمپ کے
خلاف تھا پھر وہ الکشن کیسے جیتا؟یہ کرامت صیہونی مقتدرہ ہی دکھا سکتی تھی۔ڈونالڈ ٹرمپ ولادیمیر پوتن کے دوست ہیں ۔کیا پوتن کے ساتھ ٹرمپ کا عشق بغیر کسی مقصد کے ہے؟اور آج چین کا عروج بھی یہودیوں کا ہی رہین منت ہے۔بتائیے اس دنیا میں طاقت کا کونسا سوتا ہے جس پر آج صیہونی مقتدرہ کا قبضہ نہیں؟جناب شطرنج کی بساط پر جو مہرے جمائے جارہے ہیں ۔۔۔وہ کس لئے؟یہ سب
مسلمانوں کے گھیراؤ کے لئے ہے۔
اسلئے ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ مودی جی کے اس تازہ ترین قدم کا اصل نشانہ بھی مسلمان ہی ہیں ۔صیہونی مقتدرہ کا تجزیہ یہ ہے کہ دنیا
میں سب سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں بستے ہیں۔ان کے مطابق مسلمانوں میں سب سے زیادہ potential بھی ہندوستان کے مسلمانوں میں ہی ہے ۔میر عربﷺ کو یہیں سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے تھے (اب حقائق جو بھی ہوں)ان احادیث کی اہمیت یہودیوں کے نزدیک تو بہت ہے مسلمانوں کے نزدیک بالکل نہیں ہے۔پہلے آدھار کارد کے ذریعے مسلمانوں کو مانیٹر کرنے کا ڈول ڈالا گیا مگر مسلمانوں کی روایتی غفلت پھر سپریم کورٹ کی بجا مداخلت نے وہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی ۔اب اس قدم کے ذریعے انھیں بھی
اور تمام دیش واسیوں کو بھی مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ کرنسی کا استعمال ہی چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔اسی لئے cash less یا
currency less economy جیسے الفاظ سے ہمارے کانوں کو روشناس کرایا جا رہا ہے ۔آدھار کارڈ آدمی ہر جگہ لے کر گھومنے
پر مجبور نہ تھا اب ڈیبت یا کریڈٹ کارڈ ہر جگہ ساتھ لے جانے پر وہ مجبور ہوگا۔بہت ترقی یافتہ ہوا تو Pay TM کااستعمال کریگا۔سوچئے
اس طرح انھیں کتنی آسانی سے مانیٹر کیا جا سکتا ہے ۔ہمارے دانشور یہ سوال کر سکتے ہیں کہ25 کروڑ مسلمانوں کے لئے سوا ارب کی آبادی
کو کوئی کیوں ڈسٹرب کرے گا؟یاد کیجئے صدام حسین کے لئے جب امریکہ نے عراق کے لاکھوں عام شہریوں کو مارنا شروع کیا تو ایسا ہی سوال کسی صحافی نے امریکی یہودی وزیر خارجہ میڈیلیں البرائٹ سے بھی کیا تھا ۔انھوں نے جواب میں ایک نئی اصطلاح سے متعارف کروایا تھا۔انھوں نے کہا تھا کہ یہ collateral damage ہے اور صدام حسین کو مارنے کے لئے یہ نقصان قابل برداشت ہے ۔ہمارا
مسئلہ ہے کہ ہم ان صیہونیوں کو بھی عام انسانوں کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ کلدیپ نائر کی طرح ہم بھی برسوں سے یہ سمجھتے ہیںکہ وطن عزیز میں اب ٹو پارٹی سسٹم ہی چلے گا ۔اب تک یہ کانگریس اور بی جے پی کا کھیل تھا مگر اب کانگریس کی قیادت جن ہاتھوں میں ہے وہ بنیادی طور پر عیسائی ہے اور وہ بھی کیتھولک۔صیہونی مقتدرہ
مسلمانوں کی طرح ان سے بھی خوفزدہ رہتی ہے ۔تو پھر کانگریس کا نعم البدل کون؟کیجری والہ جب وزیر اعلیٰ بنے تھے تب ہندوستان کا تو
معلوم نہیں ،ہاں ایک پاکستانی صحافی نے لکھا تھا کہ آج بھی اس ویویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے رکن ہیںجس کے کم و بیش سارے رکن سنگھی ہیں ۔ہمیں یقین نہیں آیا تھا نیٹ پر دیکھا اور دہلی کے اپنے احباب سے انکوائری کی تو معلوم ہوا یہ سچ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔