نئے عوام کی للکار کون روکے گا

محمد شبیر فاروقی

میری صدا کو دبانا تو خیر ممکن ہے
نئے  عوام کی  للکار  کون  روکے گا

راشن کی قطاریں ہی کیا کم تھیں کہ اب نوٹوں کے لئے بھی لائن میں لگا ہوا ہے عام آدمی۔عوام کی پریشانیاں تو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔
بڑے نوٹوں کے بند کئے جانے کے بعد سے موجودہ حالات میں جب ملک  کی آبادی کا ایک کثیر حصہ بینکوں کی قطاروں میں نظر آرہا ہے،ایک یا دو میڈیا چینلس کو چھوڑ دیں تو تقریبا” تمام الکڑونک میڈیا گروپوں نے دوہرا رویہ اپنایا ہوا ہے اور ارباب اقتدار کی جی حضوری اور چاپلوسی کی انتہا کردی ہے ۔اسے کوئ سروکار نہیں ہے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کے مسائل سے۔۔۔۔اسے عوامی تکالیف سے کوئ غرض نہیں ہے۔۔۔اور ستم بالائے  ستم یہ کہ مجبوروں کوملزموں کی صف میں شمار کرلیا گیا ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسےسوشل میڈیا پر  ملک کی اکثریت بھی اصل تکلیف کو نظر انداز کرکے صرف وہی دیکھ رہی ہے جو اسے مخصوص فکر کے لوگ ایک مخصوص زاویہ سے دکھارہے ہیں ، اور تو اور یہ اکثریتی طبقہ ارباب اقتدار کے بچاؤ میں جی جان سے لگا ہوا ہے اور تنقید کرنے والوں پر اوچھے حملے کرنے میں مصروف ہے۔میں یہاں یہ بات واضح کردوں کہ تنقید کے حق کا استعمال کسی کو گالیاں دے کر یا برا کہہ کر نہیں کیا جا سکتا ۔مہذب سماج میں ایسی حرکتیں شریفانہ نہیں ہوسکتیں۔۔۔۔اگر ان حالات میں اقلیت یا حزب اختلاف کے کچھ لوگ ایسا کررہے ہیں تو میں ان کے طریقوں کی پرزور مذمت کرتا ہوں ۔لیکن ہمیں شرافت اور بزدلی کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔کسی نے بڑی اچھی بات کہی  ہے کہ پڑوسی پر ظلم ہورہا ہے اور  آپ خاموش بیٹھے ہیں تو اپنی باری کا انتظار کیجئے، اگلا نمبر آپ ہی کا ہے۔۔بے جا خوف اول درجہ کی حماقت ہے۔ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ملک و قوم کے سامنے ارباب اقتدار کی جوابدہی ہوتی ہے۔یہ جمہوریت کا لازمی جز ہے۔عوام سے کئے گئے وعدے اگر پورے نہ بھی ہوں تو ان وعدوں  کی تکمیل کی کوشش نظر تو آنا ہی چاہئے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ بڑے مسائل کو پس پشت ڈالنے کے لیے ایسے حالات بنائے گئے ہیں؟اس لیے ایسے حالات میں خاموشی گناہ ہے۔۔جو لوگ اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے سلیقہ سے مخالفت کررہے ہیں ، سماج کے ہم جیسے بینا طبقہ کوان کاساتھ دینا چاہئے۔باوجود اس کے کہ جمہوریت کی حالت دگرگوں کردی گئ ہے ۔۔۔۔جمہوریت کے اسی چوتھے ستون میڈیا میں پرنٹ میڈیا نے اپنی ذمے داری کو کما حقہ ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کا مستعدی سے نہایت موزوں استعمال کرکے حالات کی صحیح تصویر پیش کرنا ضروری ہے۔شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔۔

لاکھ اونچی سہی اے دوست کسی کی آواز
اپنی   آواز    بہر حال   ہے اپنی آواز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔