مگامبو ،وائرس اور پاگل کتے اور اندھیر نگری

وائرس اور کتے
—————-
وائرس ایک خوف کا نام ہے۔ یہ زہر بھی ہے جو تیزی سے اپنا شکار کرتا ہے۔ آپکے کمپیوٹر میں آ جائے تو آپکے ڈاٹا اور میموری کو بھی نقصان پھنچا دے ۔ وائرس کی ہماری مہذب دنیا میں ہزاروں قسمیں ہیں۔ کچھ وائرس جانوروں سے ہمارے درمیان آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک وائرس 1944 میں کریمیا میں سامنے آیا۔ اسی وجہ سے اس کا نام کریمین ہیمرج رکھا گیا- کانگو وائرس کا ٹکس مختلف جانوروں کی جلد پر پایا گیا ۔ یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لےتو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ ان دنوں تیزی سے یہ وائرس ہمارے ملک میں پھیل رہا ہے۔ رات میں کتوں کی آوازیں آنی بند ہو گئی ہیں۔ ممکن ہے یہ وائرس کتوں سے آیا ہو۔ ابھی اس کی تحقیق جاری ہے۔
آپ اس غنڈے نما شخص سے واقف ہیں ؟
————————————
وائرس سے پہلے میں ایماندار ٹی وی اینکر رویش کمار کی بات کرو ں گا – رویش کو غور سے دیکھ لیجئے ..ایسے صحافی نہیں ملین گے .ایسے جانباز صحافی جب تک ہمارے درمیان ہیں ،ہم امید کر سکتے ہیں کہ برق رفتاری سے وائرس کے پھیلنے کے باوجود یہ دنیا خوبصورت رہے گی . روش بلند شہر کے ایک گاؤں پہنچے جہاں ایک بینک کے آگے قطار  لگائے غریب اپنے ہی پیسوں کے لئے آنسو بہا رہے تھے۔ ہر طرح کے مریض تھے۔ رویش ان کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وائرس آ گیا -ایک غنڈہ نما شخص چند بچوں کے ساتھ آیا ۔ میں نے رویش کی آنکھوں میں ڈر  دیکھا۔ اس کے جانے کے بعد رویش نے بتایاکہ اب یہ اپنے دوستوں کو فون کرے گا۔ حملہ ور دوست اینگے۔ اب یہاں زیادہ رکنا مناسب نہیں۔ آپ اس شخص کو پہچانتے ہیں یہ آدمی نہیں وائرس ہے۔ یہ وائرس آپ ٹی وی چینلز کے پروگرام میں دیکھ سکتے ہیں۔ قطار میں اپنی باری یا موت کا انتظار کرنے والے خوفزدہ کی زبان کھلی اور زندگی کے لئے خطرہ بڑھ  جائے گا۔ خطرہ رویش جیسوں کو بھی ہے جن کے پاس کوئی پروٹیکشن نہیں –یہ وائرس رویش کے سچ کو نیگیٹو جرنلزم کہ رہے ہیں۔ اور یہ وائرس بھی پھیل رہا ہے۔ایک سچے  ایماندار صحافی کو جھوٹا ٹھہرایا جا رہا ہے۔ بند کمرے میں بھی  خوفزدہ لوگ بندش  اور سیاست کے نام پر بولنے سے ڈر  رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ لیکن کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں کہ حالات ہماری سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک اور خوف ناک ہو چکے ہیں۔
مگامبو خوش ہوا
—————-
بینڈٹ کوئین والے شیکھر کپور نے بچوں کے لئے مسٹر انڈیا جیسی فلم بنائی تو انڈین سنیما کو مگامبو  جیسا لا زوال کردار مل گیا۔ ایک کردار جو اذیت پسند ہے۔ جو ظلم کے نئے نئے طریقے نکالتا ہے۔ اور جسے اپنے خلاف کچھ بھی سننا پسند نہیں۔ آج مگامبو کی نگرانی میں دہشت اور وحشت کا یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کیجریوال نے موگامبو کی بد عنوانیوں کے ثبوت پیش کیے -میڈیا پر اثر نہیں ھوا –یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ نوٹوں کو بین کرنے کے پیچھے وجہ کیا تھی۔ میڈیا کو یہ جاننے میں کویی دلچسپی نہیں تھی۔ اب تک 60 سے قریب موت کی خبر آ گئی ۔ غلام نبی آزاد نے پوچھا کہ اڑی میں اتنے لوگ نہیں مارے گئے جتنے لوگ اس ایک ہفتے میں مگامبو کے غلط فیصلے سے شہید ہو گئے۔ میڈیا کو غریبوں کی موت سے کیا سروکار ؟میڈیا نے سچ بولنے  والوں کو جوکر بنا رکھا ہے ۔ جو مگامبو کے ساتھ نہیں ،وہ دیش بھکت نہیں ..قدم قدم پر جارج ارول کے ناول جیسا نظارہ ہے۔ بگ باس آپکو دیکھ رہا ہے ۔ آپ کو گاندھی جی کے تین بندروں کی طرح زندگی گزارنی ہے۔ سوچنا نہیں ہے .بولنا نہیں ہے .دیکھنا نہیں ہے ۔ وائرس قدم قدم پر موجود۔آپ کب شکار ہو جائیں کہا نہیں جا سکتا
اندھیر نگری اور موگامبو
———————–
تاریخ نے اکثر یہ سوال پوچھا ہے کہ کیا مگامبو جیسے حکمرانوں کو خوف محسوس نہیں ہوتا ؟ مگامبو جیسے لوگ ہماری ہنستی مسکراتی دنیا کو اندھیر نگری میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایسا ہر اس ملک میں ہوا جہاں مگامبو کی حکومت رہی۔ لیکن علم نفسیات کا ایک پہلو  یہ بھی ہے کہ مگامبو جیسے لوگ بچوں سے بھی کہیں زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ انکے پاس سکون نام کو نہیں ہوتا –یہ معمولی مچھر سے بھی خوف محسوس کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات ۔ مگامبو سوالوں سے ڈرتے ہیں .کیونکہ ظلم و جبر کی ہر انتہا تک پہچنے کے باوجود انکے پاس جواب نہیں ہوتا۔
آج ہمارے پاس ہزاروں سوال ہیں سیاسی پارٹیاں سوال کر رہی ہیں۔ لیکن جواب نہیں ہے۔ جواب مگامبو  کے پاس ہو بھی نہیں سکتا ۔ لیکن تاریخ یاد رکھے گی  کہ بغیر کسی جرم کے  اپنے ہی چند سکوں کو بینک سے نکلنے کے جرم میں اب تک 50 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں- یہ موت کا نیا کھیل یا تماشا ہے ۔ اس تماشا سے الگ وائرس ہر جگہ ، ہر گلی،ہر سڑک۔ یہاں تک کہ آپ کے گھر میں بھی موجود ہیں ۔ اس وائرس کو ختم کرنے کے لئے اینٹی وائرس آپکو بننا ہوگا۔ ورنہ تاریخ آپ کو بھی کبھی معاف نہیں کرے گی۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔