ہنگامہ ہےکیوں برپا نوٹ ہی تو بدلا ہے

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

عام معافی کی پہل کے تحت ستمبر تک 65ہزار کروڑ روپے اس مد میں آئے۔ کہا جارہا ہے کہ اس کا 20فیصد یعنی 15ہزار کروڑ روپیہ صرف ایک شخص نے جمع کیا تھا۔ آئی ایس ڈی اسکیم سے متوقع کالے دھن کا 30فیصد بھی حاصل نہیں ہوا۔ 30ستمبر کے فوراً بعد سرکار نے کہاتھا کہ جن لوگوں نے اپنے کالے دھن کا خلاصہ نہیں کیا ہے، آنے والے دنوں میں انہیں چین سے سونے نہیں دیا جائے گا۔ 8نومبر کو آخر وہ دن آگیا جب وزیراعظم نے 1000-500کے نوٹوں کو خارج کرنے کے فیصلے کا اعلان کر لوگوں کی نیند حرام کردی۔ انہوںنے اپنے خاص انداز میں جاری اسکیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ان کی سرکار غریبوں کیلئے وقف ہے۔ کالی دولت کو انہوںنے غریبی، مہنگائی، کرپشن اور دہشت گردی کی جڑبتایا۔ انہوںنے کہاکہ نوٹ بندی سے کالا دھن باہر آئے گا۔ غیر ملکوں سے آنے والی جعلی کرنسی صفر ہوجائے گی۔ اس سے ہماری معیشت کو فائدہ ہوگا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نوٹ بندی کا فائدہ غریبوں کو ہی ہوگا۔ وہ چین سے سوئیںگے جبکہ کالا دھن رکھنے والوں اور بدعنوانوں کو سونے کیلئے نیند کی گولی کھانی پڑے گی۔
نوٹ بندی اور نئے بڑے نوٹ جاری کرنے کا غریبی، مہنگائی، کرپشن اور دہشت گردی پر کیا اثر پڑے گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن جس طرح اچانک نوٹ بند کرنے کا اعلان ہوا، اس سے پورا ملک ہکا بکا رہ گیا۔ لوگ گھر میں بیٹھے بٹھائے زیرو ہوگئے۔ غریب آدمی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ وزیراعظم نے رات کو بارہ بجے سے اس پر روک لگائی تھی لیکن بازار نے ان نوٹوں پر نو بجے ہی پابندی لگادی۔ اس رات ہزار کے نوسواور پانچ سو کے چار سو میں بدلنے کا کھیل بھی خوب چلا۔ دوکانداروں نے کھانے پینے کے سامان مہنگے کردیے اور جتنے کا نوٹ اتنے کا سامان۔ کیوںکہ اگلے دن بینک اور دودن اے ٹی ایم جو بند کردیے گئے تھے۔ کتنے مریضوں کو اسپتالوں میں علاج تو کتنے دہاڑی مزدوروں و غریبوں کو کھانا نہیں مل سکا۔ پورے ملک سے پچاس سے زیادہ لوگوں کے مرنے کی خبر آچکی ہے۔ بینک کھلے توکئی لوگ لمبی لائن میں کھڑے کھڑے مرگئے۔ کئی کے بھیڑ میں جیب سے پیسے نکل گئے۔ یہ بھی ہوا کہ بینکوں نے دوتین گھنٹوں میں کیش ختم ہونے کا اعلان کردیا۔ گھنٹوں یاچکوں(بھکاریوں) کی طرح کھڑے ہوکر لوگوںکو مایوس ہوکر واپس لوٹنا پڑا۔
سرکار کے اس قدم سے عام آدمی کو دھکا لگا ہے۔ وہ اپنی ہی نظر میں چوربن گیا۔ اسے اپنی جیب میں رکھا گاڑھی کمائی کا 1000-500کا نوٹ کالی کمائی لگنے لگا۔ آڑے وقت کیلئے عورتوں اور بزرگوں کے ذریعہ بچا کر رکھے گئے پیسے سامنے آگئے۔ کئی گھروںمیں تو اس کو لے کر جھگڑا بھی ہوگیا۔ اس رات جہاں ایک طرف غریب، مزدور، رکشہ چلانے والے، کھیت میں کام کرنے وگھروں میں جھاڑو پوچھا کرنے والے اور چھوٹے موٹے کام کرکے گزارا کرنے والے اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو جمع کرنے کی فکر میں تھے وہیں دوسری طرف ایک طبقہ بو روں، بکسوں میںنوٹ بھر کر سناروںکی دوکانوں پر لائن لگاکر کھڑا تھا۔ بڑھتی مانگ کے چلتے رات بھر میں سونے کا بھائو31ہزار کے دس گرام سے بڑھ کر 52ہزار کے دس گرام تک پہنچ گیا۔ اکیلے اندور میں اس رات 400کروڑ روپے کے زیورات بکے۔ سنار گھر بیٹھے دوگنا کما گئے اور سڑک کنارے ٹھیلا لگاکر پھل سبزی بیچنے والے کے پھل سبزی سڑ گئے۔ غور طلب ہے کہ بھارت میں ایک وقت میں 2کروڑ لوگ بس، ٹرین، کار، ہوائی جہاز وغیرہ سے سفر میں رہتے ہیں۔ سفر کے دوران لوگوںکو بے انتہا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چھوٹے بچوں کو دودھ و مسافروں کو کھانا تک نہیں ملا۔ٹول ناکے پر نوٹ بندی سے غیر اعلانیہ طورپر گرفتار ٹرک ڈرائیوروں کو 20گھنٹے کے بعد رہائی ملی۔ جن کے یہاں شادی ہے وہ سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ عام آدمی جس کرب، بے چینی اور تکلیف سے گزر رہا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ سرکار کے اس فیصلے سے بھارت کے عوام کی خوداری کو جو چوٹ لگی ہے اس کا دردنہ جانے کب جائے گا۔
لوک سبھا چنائو میں بھاجپا نے اپنے انتخابی ایجنڈے میں بیرون ملک میں جمع تقریباً 30لاکھ کروڑ روپے کو بھارت واپس لانے کا وعدہ کیاتھا۔ وزیراعظم نریندرمودی نے چنائو جیتنے کے 100دن میں کالی دولت واپس لانے کی بات کہی تھی۔ اسے واپس لاکر ہرہندوستانی کے کھاتے میں 15-15لاکھ روپیہ جمع کرنے کو کہاگیاتھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھاجپا نے ٹاسک فورس بناکر ودیشوں میں جمع کالے دھن کو واپس لانے کی کوشش کی۔100دنوں میں غیر ملکی بینکوں کے بھارتیہ کھاتے داروں کے 8000 کروڑ روپے کے کھاتوں کی جانچ کے بعد صرف 4500کروڑ روپے ہی واپس لائے جاسکے۔ اس طرح سرکار دوسرے ملکوں میں جمع دھن واپس لانے میں ناکام رہی۔ شاید اسی لئے ملک میں موجود کالے دھن کو باہر نکالنے کیلئے یہ فیصلہ لیاگیا۔
کرنسی بدلنے کا عمل پہلی بار نہیں ہوا ہے۔1978میں مورارجی دیسائی سرکار نے 5000-1000اور10,000کے نوٹوں کو بند کردیا تھا۔ مقصد اس وقت بھی کالے دھن کی معیشت کو روکنا تھا۔ ایک ہزار کے نوٹ دوبارہ اٹل جی کے زمانے میں واپس آئے۔ نوٹ بدلے جاسکتے ہیں مزاج نہیں۔ شاید اسی لئے کالے دھن پر روک ممکن نہیں ہوپائی اور یہ گورکھ دھندہ پھلتا پھولتا رہا۔ سرکار کسی کی بھی ہواقتصادی پالیسی کم وبیش سب کی ایک جیسی ہی ہے۔ جس میں ادیوگ پتیوں، بنکروں، ورلڈبینک کے پیروکاروں کا بول بالا رہتا ہے۔ مورارجی ڈیسائی کے زمانے میں صرف دولت مند لوگوں کو ہی اس پریشانی سے جوجھنا پڑا تھا۔ اس وقت جو کرنسی چلن میں ہے اس میں 86فیصد 1000-500کے نوٹوں کی حصہ داری ہے۔ جن میں 8.2 لاکھ کروڑ نوٹ 500کے اور 6.7لاکھ کروڑ 1000کے ہیں۔ اس لئے عام آدمی کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نوٹ بدلنے سے کرپشن مٹ جائے گا یہ بات سائنس کی کسوٹی پر پرکھی ہوئی نہیں ہے۔ البتہ بغیر تیاری کے جس طرح اتائولے پن میں نوٹ بدلنے کا فیصلہ لیاگیا اس پر سوال اٹھنے لازمی ہیں۔ تاریخ میں راتوں رات کرنسی بدلنے کی تانا شاہ ہٹلر کے علاوہ دوسری مثال نہیں ملتی۔
سرکار اپنی مرضی کے مطابق روز فیصلے لے رہی ہے۔ اپنی سہولت سے ان میں ترمیم کررہی ہے۔ جیسے ابھی اسپتالوں، پیٹرول پمپوں پر 24نومبر تک پرانے نوٹ چلائے جانے کا فیصلہ لیاگیا ہے۔ اس سے ایک دن پہلے یہ حد 14نومبر تک تھی اور اس کے پہلے 11نومبر۔ اسی طرح بینکو سے پہلے 20ہزار روپے نکالنے کی اجازت دی گئی اب اسے 24ہزار کردیاگیا ہے۔ اے ٹی ایم سے دوہزار کی جگہ ڈھائی ہزار اور ایک دن میں4000کی جگہ 4500 اور اب 2000 کے پرانے نوٹ ہی بدلے جاسکتے ہیں۔ بینک اور اے ٹی ایم میں ایک ہفتہ کے بعد بھی ضرورت بھر کیش نہیں پہنچ پایا ہے۔کہیں ایک لاکھ آبادی پر تیرہ بینک ہیں اور کھوڑا جیسے علاقے جہاں تقریبا 12لاکھ کی آبادی ہے وہاں صرف ایک بنک اور ایک اے ٹی ایم ہے ۔ ملک میں اس وقت معاشی ایمرجنسی لاگو ہے ایسا کہو تو بھاجپا کو برا لگتا ہے۔ کیا یہ قدم جمہوری کہا جاسکتا ہے؟ جسے دوسری پارٹیوں کو اعتماد میں لیے بغیر اٹھایا گیا۔ ارون جیٹلی کی یہ دلیل بالکل کھوکھلی ہے کہ 500اور 2000ہزار کے نوٹ پہلے ہی بینکوں اور اے ٹی ایم میںسپلائی کردیے جاتے تو کالا دھن رکھنے والے ہوشیار ہوجاتے۔ آج وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ کانگریس نے پورے ملک کو 19مہینے جیل بنادیا تھا مجھے 50دن دے دو، پچاس دن میں سب کچھ ٹھیک نہ ہوتو ہرسزا منظور ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پچھلے 30مہینوں میں بھاجپا سرکارنے ایسا کونسا پالیسی ساز فیصلہ لیا ہے جس سے کالے دھن پر روک لگتی ہو؟ ساری پالیسیاں پہلے سے چلی آرہی ہیں۔ اس نئے قدم سے شاید اتنا ہی فرق پڑے گاکہ کالا دھن رکھنے والوں کو 1000-500کے پرانے نوٹوں کی جگہ نئے 2000-500کے نوٹ مل جائیںگے۔ انہیں نوٹ رکھنے کیلئے کچھ اضافی جگہ بھی ۔ رہا سوال جعلی نوٹوں کاتو این آئی اے کے ذریعہ کرائی گئی اسٹڈی کے مطابق ایک وقت میں بھارت میں 400کروڑ روپے کی جعلی کرنسی چلن میں رہتی ہے۔ جو کل بجٹ پروویژن 19.7لاکھ کروڑ رپے کی صرف 0.025فیصد بیٹھتی ہے۔ نیشنل کرائم بیورو نے 2015میں 1000کے 1,78,022 و500کے 2,99,524 جعلی نوٹ پکڑے تھے۔ این آئی اے کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتیہ معیشت میں ہر سال 70کروڑ روپے کے نئے نوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ دہشت گرد گروپ اور نشیلی اشیاء کا کاروبار کرنے والے ان کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نئے نوٹ کس طرح جعلی نوٹوں کو چلن سے باہر کریںگے؟
بھارت کے بڑے ادھیوگ پٹیوں نے اپنی بیلنس شیٹ میں گڑبڑی کرکے 15لاکھ کروڑ سے زیادہ کے بنکوں سے قرض لئے ہیں ان میں سب سے اوپر قومی بنیک ہیں جن کا این پی اے (یعنی خراب لون) قریب گیارہ سے بارہ فیصد ہے ۔جس کی وجہ سے بنک ڈوبنے کے کگار پر ہیں ۔بنکوں کو بچانے کیلئے ہی شاید نوٹ بندی کاقدم اٹھایا گیا ہے اور بلی کا بکرا عوام بن رہے ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق تمام بنکوں نے بڑے کاروباریوں کے ڈھائی لاکھ کروڑ روپئے کے قرضے معاف کئے ہیں ۔ اکیلے اسٹیٹ بنک نے وجے مالیہ سمیت 63قرضداروں کے 7ہزار کروڑ سے زیادہ کے قرضے معاف کئے ہیں ۔یہ اس وقت ہے جب سرکار کے پاس کسانوں کے قرضے معاف کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔
کے این گووند اچاریہ کے مطابق نوٹ ختم کرنے اور پھر مارکیٹ میں نئے نوٹ لانے سے زیادہ سے زیادہ تین فیصد کالا دھن ہی باہر آئے گا۔ مودی کا یہ فیصلہ کوئی دوررس نتائج نہیں لائے گا صرف ایک اور انتخابی جملہ بن کر رہ جائے گا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ اس سے کتنا فائدہ ہوگا اس پر سرکار کو وہائٹ پیپر جاری کرنا چاہئے۔ نقد میں کام کرنے والے چھوٹے کاروباریوں کا ہماری معیشت میں بہت بڑا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گھریلو پیداوار کا 20فیصد حصہ بطور نقد متوازی معیشت کی شکل میں بازار میں ہے۔ سرکار کے اس قدم کے بعد 10فیصد نقدی اقتصادیات سے باہر ہوجائے گی جو پوری معیشت کو متاثر کرے گی۔
ملک میں صرف دو فیصد نکم ٹیکس دینے والے لوگ ہیں جبکہ تیس فیصد لوگ انکم ٹیکس دے سکتے ہیں۔ ٹیکس چوری اور کالے دھن کے پیدا ہونے کی بڑی وجہ ٹیکس کی دروں کا زیادہ ہونا ہے۔ اس پر سرکار کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کو کم کیا جائے اور ٹیکس وصولی کے نچلے نظام کو کرپشن مکت بنایاجائے۔ بڑے نوٹوں کو فروغ نہ دے کر چھوٹے نوٹوں کو چلن میں رکھا جائے۔ اس سے پلاسٹک منی کو فروغ ملے گا۔سرکار کے موجودہ فیصلے سے چھوٹے کاروباری، فیکٹری مالک، دوکاندار، ٹرانسپورٹر اور متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ہے۔ ٹرانسپورٹ متاثر ہونے سے کھانے پینے کی چیزوں کی دستیابی متاثر ہوگی اور مہنگائی بڑھے گی۔ سرکار کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ چلن سے باہر کی گئی کرنسی پر ہوئے خرچ کی بھرپائی وہ کس طرح کرے گی۔ 60-50دنوں تک کاروبار جو چوپٹ رہے گا اس سے ملک کو کتنا نقصان ہوگا۔ عوام کا جو وقت کام دھندے میں لگتا وہ نوٹ بدلنے میں لگ رہا ہے اس کا اسے کیا معاوضہ ملے گا؟
دراصل ملک میں پچھلے کچھ دنوں سے ایسا ماحول بن رہا تھا جس پر عوام سوال کرنے کو بے چین تھی مثلاً گورکشوں کی غنڈہ گردی، دلتوں، اقلیتوں
کا استحصال و ظلم وزیادتی، فرضی انکائونٹر، پرسنل لاء کا مسئلہ، ہندوتوا کے نام پر تشدد، تعلیمی اداروں کی آزادی پر انکش لگانے کی کوشش، مخالف رائے والے طلبہ پر قانونی کارروائیاں، بولنے کی آزادی پر پابندی، دہشت گردی کو روکنے میں ناکامی، جموں، کشمیر میں بدامنی وتشدد کے حالات، فوجیوں کی روزانہ شہادت اور کئی ایسے مسئلہ لوگوںکو پریشان کررہے تھے۔ جن لوگوں کا بھارت کے آئین پر، جمہوریت پر، سماجی نظام پر بھروسہ
ہے۔ وہ اس صورتحال پر مستقل سوال اٹھارہے تھے۔ عوام ان کے ساتھ جڑرہی تھی۔ دہلی اور بہار میں مودی لہر کے نہ چلنے کی یہ بڑی وجہ تھی۔ اب اترپردیش، پنجاب، گجرات، اتراکھنڈ اور گوا میں مودی کی ساکھ دائو پر ہے۔ اس سے پہلے کہ لوگوںکے سوال سخت ہوتے جائیں اور جواب دینا مشکل ہو، سرکار نے ان کی ترجیحات بدل دیں۔ اتنا ہی نہیں نریندر مودی نے اپنی مخالف پارٹیوں کو مالی طورپر ننگا کردیا۔ وہیں بنگال میں عین نوٹ بندی کے دن بھاجپا کی ریاستی یونٹ نے اپنے کھاتے میں ایک کروڑ کا کیش جمع کیا تھا۔ یہ بات صرف بنگال کی حد تک نہیں ہوگی بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی عمل میں آئی ہوگی۔ اس لئے مخالف پارٹیاں بی جے پی پر الزام لگارہی ہیں کہ بھاجپا لیڈروں و اس کے ہمدردوں کو یہ خبر پہلے سے معلوم تھی تبھی انہوں نے اپنا انتظام کرلیا۔
ارون شوری نے اپنے ٹوئٹ میںکہا ہے کہ ایسے شخص کو عوام چننے کی غلطی نہیں کرے گی جو اس کو سنجیدگی سے نہ لیتا ہو۔ جبکہ پی چدمبرم نے اسے چھوٹا اقتصادی فائدہ اور بڑی تکلیف بتایا ہے۔ میناکشی لیکھی کا 2005کا وہ ویڈیو ٹوئٹر پر وائرل ہورہا ہے جس میں انہوں نے بی جے پی ترجمان کی حیثیت میں کانگریس کے نوٹ بدلنے کے ارادے کو نوٹنکی بتایا تھا۔ خیر جو بھی ہو دیکھنا یہ ہے کہ عوام اور کتنے دن تک پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کیا پارلیمنٹ کا موجودہ اجلاس عوام کو راحت دلانے میں کامیاب ہوگا یا پھر عوام حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیںگے۔ نریندرمودی سوچ رہے ہوںگے کہ ہنگامہ کیوں برپا ہے نوٹ ہی توبدلا ہے۔ کاش وہ اپنے اس قدم کو عوام کی نظر سے دیکھ پاتے۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔