پــاک بـھـارت: عدلیہ کہاں آزاد ہے؟

واحد بشیر

 جمہوریت کی بنیادوں میں سے ایک عدلیہ بھی ہے ۔ عدلیہ کاآزادہونا جمہوریت کی صحت کے لئے ایک لازمی ضرورت ہے۔ عدالتی نظام کا دباؤ اور دھونس سے آزاد ہو کر فیصلہ سازی کرنا دنیا کی اصل باشعور قوموں کا خاصہ ہے۔ مغربی نظام حیات کی بنیاد اگرچہ خدا بیزاری پر قائم ہے اور یہ نظام تصور آخرت سے بالکل عاری ہے، تاہم اس نظام نے آزاد عدلیہ کواپنی جمہوری روایات میں سب سے زیادہ اہمیت عطا کی ہے۔بر صغیر کی تقسیم کے بعدبھارت اور پاکستان کے قیام میں مغربی روایات کو رواج دینے کے لئے کئی سرکردہ سیاسی و غیر سیاسی ارباب حل وعقدنے اپنی ساری صلاحیتوں کو خرچ کیا ہے۔ پاکستان کی بنیادوں میں دو قومی نظریے کا ہاتھ بصراحت موجود ہے جس سے انکاری کوئی بھی شخص بقائمی ہوش و حواس ہونے کا دعویدار نہیں ہو سکتا۔ بھارت کی قانونی اور سیاسی جدوجہد میں سب سے بڑھ کرگاندھی کا حصہ ہے۔ عدم تشدد اور اعتدال کی تعلیم کو اپنی قومی حیات کا سرمایہ قرار دے کر بھارت کا آج بھی بزعم خود یہ دعویٰ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان ہی ہے۔

سیکولر روایات کی بنیادوں پر ہندوستان کا قیام عمل میں آیا اور پنڈت نہرو بھارت کی جمہوری روایات کو استحکام دینے کے لئے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہوگئے۔ دنیا میں ہندوستان کی جمہوریت کا دبدبہ ہے، اور اس جمہوری ملک کی مثالیں کہاں کہاں نہیں دی جاتی ہیں ۔ مختلف الخیال لوگ، رنگارنگ زبان و مزاج اور کئی مذاہب و عقائد سے وابستہ لوگ ایک ہی قومی دھارے میں غرق ہیں اور قومی مفاد کے لئے ہر اختلاف کو بھولنے کے لئے تیاررہتے ہیں ۔ بھارت کی سیکولر جمہوریت نے مذہبی منافرت کے سنگ ہائے میل طے کرکے ہزاروں انسانوں کے سروں کی فصل کاٹ کر مذہبی بنیادوں پر مبنی انتہا پسند ہندوتوا ایجنڈے کے قدموں تلے اپنے سر کو رکھ دیا ہے اور جمہوری سفر کو اسی پر منتج کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر ہوا، کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے اس ملک میں اسلامی نظام اور شریعت کی بالادستی کا خواب ابھی تک شرمندۂ تعبیر ہونا باقی ہے۔ قیام کے فوراََ بعد پاکستان کا سیکولر طبقہ سرگرم عمل ہو کر پاکستان کی اسلامی بنیادوں میں کمزوری پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہوگیا۔

منتخب عوامی قیادتوں کو ہٹا کر بار بار کی فوجی مداخلت اور مارشل لاء لگنے سے بظاہر پاکستان کی جمہوری قوتیں کافی کمزور لگ رہی ہیں ۔ فیل اسٹیٹ(Fail State) کے طعنے اور ملکی سا  لمیت کو درپیش رکاوٹوں کے شوشے بھی ایک الگ طرح کی ذہنیت کو پروان چڑھارہی ہیں ۔ انتہا پسندی اوردہشت گردی کا لیبل لگا کر عالمی ہمدردی سمیٹنے والوں کے پیٹ بھی پھول گئے ہیں ۔ لیکن فی الحقیقت دونوں ملکوں کے نظام عدلیہ میں کافی سے بھی زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ عدالتی فیصلوں کے پس پردہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ملکی سیاست پر ان فیصلوں کے اثرات مثبت ہیں یا منفی ؟ایک عام اور غیر متعصب انسان کے لئے اس بات کا اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے کہ عدالتی نظام کی شفافیت اور انصاف کی بالادستی کے معاملے میں کون کتنا پانی میں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو 70کی دہائی میں اپنے سیاسی کیرئیر کے بام عروج پر پہنچ کر بھی پاکستانی عدلیہ کے فیصلے سے نہ بچ سکا اوراس کے خلاف فیصلے پر من و عن عمل ہوا۔ بھٹو وہ حکمران تھا جس نے اپنی ریاست کو معاشی تنگنائیوں کے باوجود ایک نیوکلیائی طاقت بنانے میں اہم کردارادا کیا اور اپنے چاہنے والوں میں قائد عوام کے نام سے مشہور ہونے کے باوجود سینٹرل جیل راولپنڈی میں تختۂ دار پر چڑھ کر موت کی سزا بھگت لی۔

ستر کی دہائی میں ہی ہندوستان کی خاتون وزیر اعظم اندرا گاندھی نے رائے بریلی کی پارلیمانی نشست پر کامیابی حاصل کرکے اپنے حریف راج نرائن کوہرایا۔ 1866ء میں قائم ہونے والی عدالت الٰہ آبادہائی کورٹ نے اندرا گاندھی کو انتخابی دھاندلیوں میں ملوث پاکر اس انتخابی کامیابی کے نتیجے میں کسی بھی ایسے عہدے پر رہنے سے منع کیا جو اس نے کامیاب ہو کر حاصل کیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ 6سال کے لئے اس پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا تاریخی فیصلہ محفوظ کیا۔ اس عدالتی فیصلے نے ہی اندرا گاندھی کو 1975ء میں ایمرجنسی کے نفاذ پر آمادہ کیااور ہندوستان میں تمام سیاسی سرگرمیوں کو ناجائز قرار دے کر جیل خانوں کے دروازے کھولے گئے۔اسی طرح بھارت کی عدلیہ بابری مسجد انہدام کیس میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے ہنوز قاصر رہی ہے۔ پانچ صدیوں تک قائم رہنے والی بابری مسجد کا انہدام 1992ء میں شدت پسند ہندؤوں کے ہاتھوں عمل میں آیا اور ابھی تک اس کریہہ جرم میں ملوث لوگ کھلے بندوں پھر رہے ہیں اورتنازعے پر بھی اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود عدالت کا فیصلہ آنا باقی ہے۔

2002ء کے گجرات فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام ، مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور معصوم بچوں کو زندہ جلانے کے انسانیت سوز جرائم میں ملوث لوگوں کے خلاف بھارتی عدلیہ نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ریاست گجرات کی اُس وقت کی سیاسی قیادت کے خلاف نہ صرف یہ الزام ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی بلکہ یہ بات بھی مختلف حلقوں نے پیش کی ہے کہ ریاستی حکومت کا گجرات فسادات میں براہ راست ہاتھ تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے فسادات کو روکنے میں ریاست گجرات کی حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔احسان جعفری (سابق کانگریسی ممبرپارلیمنٹ)قتل کیس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نے پولیس اور وزیر اعلیٰ کے دفتر بار بار فون کرکے مداخلت کی اپیل کی تھی، تاہم دونوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے میں کوئی خاطرخواہ کوشش نہیں کی۔  1988ء میں آئی پی ایس کوالیفائی کرنے والے گجرات کے پولیس آفیسر سنجیو بٹ (Sanjiv Bhatt)نے 2011ء میں سپریم کورٹ میں اظہار حلفی میں یہ انکشاف کیا کہ وہ اس میٹنگ میں شامل تھا جس میں اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے پولیس افسران کو یہ ہدایت کی کہ ہندو شدت پسندوں کو کھلی آزادی کے ساتھ مسلمانوں پر زیادتی کرنے کا موقع دیا جائے۔بھارتی عدلیہ نے نہ صرف مودی کو کلین چٹ عطا کی بلکہ 2014ء میں مودی سرکار کے وجود میں آنے کے پیچھے اقلیت مخالف ووٹ بنک کا خاصا رول اور عمل دخل رہا۔اس کے برعکس پاکستانی عدلیہ کا حالیہ فیصلہ جس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پانامہ پیپرز تنازعے میں ماخوذ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف جو فیصلہ سنایا ہے وہ عدلیہ کی آزادی اور با ضمیری کی ایک زندہ مثال پیش کرتاہے۔

پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں اس فیصلے کو ایک شاندار مثال کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا۔ عدالت نے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر موجود ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کو اثاثہ جات کی جھوٹی تفصیل فراہم کرنے کی پاداش میں نااہل قرار دیا ہے۔پاکستانی عدلیہ میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ وہاں ملک کے طاقتور ترین سیاست دانوں ، سیاسی خاندانوں سے وابستہ افراد اور فوج جیسے طاقتور ترین ادارے کے ذمہ دار افراد کے خلاف بھی فیصلے سنائے گئے ہیں ۔بھٹو ، مشرف ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف چند ایسی مثالیں ہیں جہاں پاکستان کی عدلیہ نے انصاف کی علم کو بلند کرکے اپنے ہمسایہ ملک کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔

اگرچہ جمہوری تجربات کے ضمن میں پاکستان کو ناکام اسٹیٹ گردانا جاتا ہے اور وہاں کی سیاسی فضا میں فوجی آمریت کو زیادہ دخیل سمجھا جاتا ہے تاہم وہاں عدلیہ کی بحالی اور آزادی کا یہ تصور انتہائی خوش آئند ہے۔بھارت کو اگرچہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے لیکن ہندوستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے ہاتھوں عدلیہ اور قانون و انصاف کی قبا بار بار چاک ہوئی ہے۔ عمومی طور پر بھارت میں انسانی حقوق اور خصوصی طور پر اقلیتی حقوق کی بے آبروئی کے بے شمار واقعات ہندوستان کی لنگڑی جمہوریت اور اس کی اپاہچ عدلیہ کا مذاق اڑاتی ہے۔

ریاست جموں و کشمیر کے ضمن میں یہ ریکارڈ اور بھی زیادہ خراب صورتحال پیش کرتا ہے۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مستقل خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل،جبری گمشدگیاں ، اجتماعی آبرو ریزیاں ، پرامن مظاہروں پر اندھا دھند طاقت کا استعمال، حکومتی سرپرستی میں نسل کشی کی منظم کوششیں بھارتی جمہوریت کا منہ چڑا رہی ہیں ۔ کنن پوش پورہ کیس، پتھری بل انکاؤنٹر، چھٹی سنگھ پورہ اور اس جیسے واقعات سے ہی زمینی حقائق کا پتہ چلتا ہے۔

نوے (90) کی دہائی میں سرکاری بندوق برداروں کے ہاتھوں سینکڑوں عام لوگوں کے ماورائے عدالت قتل عام سے متعلق ابھی بہت جگہوں پر پولیس رپورٹ بھی درج نہیں ہوئی ہوگی ،بلکہ ان تمام واقعات میں عدالتی تحقیقات اور سزا کے بارے میں سوچنا ابھی بھی خواب ہی محسوس ہوتا ہے۔ مژھل انکاؤنٹر میں ماخوذ فوجیوں کی حالیہ ضمانت بھی اسی قسم کا ایک واقع ہے۔ صریح طور پر ایک جنگی جرم میں ملوث وردی پوشوں کو کھلی چھوٹ دے کر دراصل اس بات کو باور کرانے کی شعوری کوشش ہے کہ ریاستی عوام کی قدروقیمت بہت کم ہے۔ فوج کے مورال کو بحال رکھنے کے لئے ریاست کوئی بھی ناجائز طریقہ کار اختیار کرنے کی مجرمانہ اجازت فراہم کر سکتی ہے۔

جمہوریت(چنگیزیت) میں اس بات کی گنجائش نہ بھی ہوتو پیدا کی جاتی ہے کہ عوام کو دبائے رکھنے کے لئے طاقت و قوت کا بے دریغ استعمال ہو۔ ریاستی میڈیا جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے بل پر صحیح اور غلط کو خلط ملط کردے اور عدلیہ حق و سچائی کا گلہ ہی گھونٹ دے۔ جمہوریت کا نام سلامت رہنا چاہئے، ویسے بھی مغربی جمہوریت ایسا طرز حکومت ہے جہاں بندوں کو صرف گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔