پلواما سانحہ: اپوزیشن خاموش کیوں ہے؟

تحریر: آکاش بشٹ

ترجمہ:نایاب حسن قاسمی

ہندوستانی سیکورٹی فورسز پر ہونے والے ہولناک ترین حملے میں 14؍فروری کو کشمیر میں 40؍ سے زائد سی آر پی ایف کے جوان مقتول ہوئے، اس کے بعدسے اِسی سال کے وسط میں ہونے والے عام انتخابات کے پیشِ نظر وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی کے سربراہ امیت شاہ علانیہ طورپر اس سانحے کے سیاسی استعمال میں سرگرم ہیں۔ اس کے کئی واضح ثبوت فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طورپراے این آئی کی رپورٹ کے مطابق  17؍فروری کو آسام کے لکھیم پور کی ایک ریلی میں امیت شاہ یہ کہتے سنے گئے کہ:’’میں آسام کے بیٹے منیشور باسوماترے(پلواماسانحے کے مقتولین میں سے ایک)کوپلواماسانحے کے دیگر متاثرین کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتاہوں، ان کی قربانیاں اکارت نہیں جائیں گی؛کیوں کہ ابھی سینٹر میں کانگریس کی حکومت نہیں ہے، بی جے پی کی حکومت ہے‘‘۔

دوسری طرف زیادہ تر اپوزیشن پارٹیاں فوجیوں کی موت پربی جے پی کی سیاست کے خلاف کچھ بولنے سے کترا رہی ہیں، نہ انھوں نے مرکزی حکومت سے دنیا کے سب سے زیادہ فو ج والے خطے میں ان حساس ترین انٹیلی جنس و عملی کوتاہیوں پر کوئی سوال کیاہے، جن کی وجہ سے وہاں اتنا ہولناک دہشت گردانہ حملہ ممکن ہوسکا۔ کیا اپوزیشن واقعی اس وقت حکومت کی حمایت میں کھڑا ہے اور انٹیلی جنس کی اتنی بڑی ناکامی پر اسے کچھ کہنے کے موڈ میں نہیں ہے یا کچھ اوربات ہے، جوہمیں نظر نہیں آرہی؟

کیا یہ خاموشی سیاسی حکمت عملی ہے؟

 ایک سینئر کانگریسی لیڈر کاکہناہے کہ’’ہم محتاط ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، ہماری یہ چپ دراصل ٹی وی سٹوڈیوزکے خود ساختہ نیشنلسٹ اینکرز کے ذریعے پیدا کردہ عوامی ہسٹیریاکے جواب میں ایکpause buttonہے‘‘۔ ان کے مطابق’’ موجودہ وقت میں جو ہنگامہ آرائی جاری ہے، وہ ختم ہوجائے، اس کے بعد کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں قومی سلامتی کے تعلق سے سنجیدہ سوالات ضرور اٹھائیں گی‘‘۔ بی ایس پی کے ایک لیڈر(جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے)کاکہنا یہ ہے کہ پلواما سانحے پر ان کی پارٹی نے اس لیے خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے کہ حکومت یہ نہ کہے کہ اپوزیشن دہشت گردوں کو مؤثر جواب دینے کی راہ میں حائل ہورہا ہے۔ ان کا کہناہے کہ’’ہم لوگ اس وقت بدترین دورسے گزر رہے ہیں اور حکومت ہر اس شخص یا جماعت کو وطن دشمن قرار دے دیتی ہے، جو اس سے سوال کرنے کی جرأت کرے‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی پارٹی بھی عام انتخابات سے قبل اس قسم کے الزامات کے اندیشے سے گھبرارہی ہے اور گرد بیٹھنے کا انتظار کررہی ہے۔

سماج وادی پارٹی بھی انٹیلی جنس کی ناکامی کی وجہ سے اس اندوہناک واقعے کے رونما ہونے پر حکومت سے سوال کرنے میں جلدی کرنے سے بچ رہی ہے۔ پارٹی کے ترجمان نوید صدیقی کا کہناہے کہ’’جیسا کہ ہم نے پہلے ہی کہاہے،  ہم اس واقعے پر سیاست نہیں کرنا چاہتے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ہمیں بدلہ چاہیے اور دیکھتے ہیں کہ مسٹر مودی اس سلسلے میں کیا قدم اٹھاتے ہیں؟‘‘۔ جب انھیں یاد دلایاگیا کہ امیت شاہ تو اس معاملے میں سیاست کرنے سے نہیں چوک رہے ہیں؟توانھوں نے کہاکہ الیکشن قریب آتے ہی ہم لوگ مسٹر مودی اور ان کی حکومت سے انٹیلی جنس کی ناکامی پر سوال کریں گے۔ ان کے مطابق’’کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور تھیں، جن کی وجہ سے دہشت گردوں کو فوجی قافلے کے گزرنے کا علم ہوگیا تھا‘‘۔

سیاسی تجزیہ کار سنجیوشری واستونے اس سانحے پر سیاست نہ کرنے کے اپوزیشن کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہاکہ’’بی جے پی کے جال میں پھنسنے سے محتاط رہنا اچھاہے؛کیوں کہ اس وقت قومی سطح پر نیشنلسٹ طبقہ بی جے پی کے قبضے میں ہے‘‘۔

ممتابنرجی خاموش نہیں ہیں

پلواما سانحے پر حکومت کو گھیرنے والی واحد اپوزیشن لیڈر ممتا بنرجی ہیں، انھوں نے تین دن کی خاموشی کے بعد پیر کے دن بی جے پی کو براہِ راست نشانہ بنایا، ان کا کہناتھا کہ ان کے پاس معلومات ہیں کہ مرکزی حکومت کو خفیہ ایجنسیوں نے 8؍فروری کو ہی ایسی اطلاع دی تھی کہ لوک سبھا الیکشن سے قبل خودکش بمباری کا امکان ہے، آخر حکومت نے یہ اطلاع ملنے کے باوجود کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ بی جے پی کے ذریعے اس سانحے کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے سوال پر ان کا کہناتھا کہ اس اندوہناک دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد ہماری پارٹی اس پر کوئی سیاسی بیان بازی نہیں کرنا چاہتی۔ وہ کہتی ہیں’’ہمارا خیال ہے کہ یہ لڑائی ہم سب کو مل کر لڑنا چاہیے‘‘۔ ساتھ ہی وہ کہتی ہیں’’لیکن ہم نے دیکھا کہ ہم تو اس سانحے کے بعد چپ چاپ بیٹھے ہیں، مگر مودی اور امیت شاہ گھوم گھوم کر سیاسی تقریریں کرتے پھر رہے ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہناہے’’ان کے خطابات سے ایسا لگتاہے کہ محض وہی لوگ محبِ وطن ہیں، ملک کی دیگر سیاسی پارٹیاں اور افرادوطن دشمن ہیں‘‘۔

آرجے ڈی کے نائب صدر شیوانند تیواری نے بھی مودی اور بی جے پی یہ الزام لگایاہے کہ وہ فوجیوں کی موت کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر انتخابی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے، انھوں نے ممتابنرجی کے ذریعے ذکرکردہ خفیہ معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہاکہ’’حکومت ان معلومات کے ملنے کے باوجود کسی قسم کا ایکشن لینے میں ناکام رہی‘‘۔ انھوں نے کہاکہ’’مودی گولوالکر کی راہ پر چل رہے ہیں، جواس ملک کے مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کو ہندوقوم کا دشمن قراردیتے ہیں‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں’’لوگوں کو معلوم ہے کہ اس ملک میں کمیونسٹوں کے ساتھ کیا ہورہاہے اور ساتھ ہی انھوں نے ہندوراشٹر کے قیام کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بناناشروع کردیاہے اور کشمیر ان کا مرکزی ہدف ہے‘‘۔

جواہرلعل نہرویونیورسٹی میں سیاسیات کے استاذاجے گوداورتھی کا خیال ہے کہ بی جے پی اس ماحول کو ختم نہیں ہونے دے گی اور وہ چاہے گی کہ الیکشن تک داخلی سلامتی کا موضـوع اسی طرح گرم رہے۔ ان کی رائے ہے کہ’’چوںکہ بی جے پی کی جانب سے ہندوستانی مسلمانوں کوملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیناpan-Indiaایشونہیں بن پایاہے؛اس لیے اب وہ کشمیر کے مسئلے کو گرماناچاہتی ہے؛تاکہ وطن دوستی کے ضمن میں کشمیریوں کا ہندوستان کے لیے خطرہ ہونے کوباور کرایاجاسکے‘‘۔

میڈیاکا رویہ

اپوزیشن کے کچھ لیڈران بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی میڈیاماحول کو دھماکہ خیز بنانے کے درپے ہے اور ہائپرنیشنلسٹ بیانیہ تشکیل دے کر مرکزی حکومت پر دباؤ بنانے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔ سماج وادی پارٹی لیڈر کاکہناہے کہ’’ایسے ماحول میں حکومت سے سوال کرنے کی جرأت کون کرسکے گا؟‘‘۔ بی ایس پی لیڈر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں، ان کا کہناہے’’دہشت گرد تین سوکیلو دھماکہ خیز اشیا اس علاقے میں لے جانے میں کامیاب کیسے ہوئے؟‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں’’ہم لوگ سوال تو اٹھارہے ہیں، مگر میڈیا اگر مرکزی حکومت کا ترجمان بن چکاہے، تو لوگوں کو اس بارے میں کیسے پتا لگے گا؟‘‘۔

نوٹ: اصل مضمون انگریزی ویب سائٹscrool.inپر شائع ہوا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔