تحریکِ آزادی اور اردو نثر

انجینئر محمد عادل ؔ فراز

جنگ ِآزادی کی تحریک ایک ایسی تحریک تھی جس میں ہر قوم و ملت کے افرادنے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ مل کر فرنگیوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے برسرِپیکار ہوئے۔ اس جنگِ آزادی میں اردو ادب کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ شاعروں، ادیبوں، صحافیوں نے اپنے قلم کو ہتھیار بنا کر وطن کی آزادی کے لئے آواز بلند کی اور عوام کے ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ خاص طور سے اس دور کی ہندوستانی ادبی تخلیقات اس بات کی ترجمانی کے لئے پیش کی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر ضیاء الرحمن صدیقی کی تحقیقی کتاب ’’ تحریک آزادی اور اردو نثر‘‘ اپنے دامن میں اردو نثر کی ان تمام ادبی تخلیقات کا احاطہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے جوتحریک آزادی کے زیر اثرپروان چڑھیں۔

یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں تحریک آزادی کا تاریخی پس منظر پیش کیا گیا ہے۔ تحریک آزادی کے سیاسی اسباب، اثرات، اور نتائج بھی بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد، ایسٹ انڈیا کمپنی کاقیام، اور پلاسی کی جنگ جو بنگال کے نواب سراج الدولہ اور کلائیو کے درمیان۱۹ اپریل ۱۷۵۷ء میں لڑی گئی اس کا بھی ذکر دیکھنے کو ملتا ہے۔ لارڈ ڈلہوزی کے ہندوستان میں کمپنی کا گورنر جنرل بن کر آنے اور اس کی پالسیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں باری علیگ کی کتاب’’کمپنی کی حکومت ‘‘ اور سر سید احمد خاں کی کتاب’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ کے اقتباسات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

کتاب کے دوسرے باب میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام، تقسیم بنگال، مسلم لیگ کا قیام، پہلی جنگ آزادی، رولٹ ایکٹ، ستیہ گرہ کی تحریک، ہوم رول لیگ، تحریک خلافت، حادثہ جلیانوالہ باغ، ترک موالات کی پالسی، تحریک عدم تعاون، سائمن کمیشن، سول نافرمانی، دوسری جنگ عظیم، ہندوستان چھوڑو تحریک، ملک کی آزادی اور ملک کی تقسیم کا بھی مختصر جائزہ لیا گیاہے۔

کتاب کے تیسرے باب میں اردو کے ایسے ناولوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تحریک آزادی اور اس دور کے سیاسی وسماجی حالات کے ترجمان  ہیں۔ ان ناولوں میں پیش کئے گئے کردار بھی حب الوطنی کے جزبے سے سرشار نظر آتے ہیں۔

 ڈپٹی نذیر احمد کے ناول’بنات النعش‘، ’ابن الوقت‘ میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی زندگی کی ترجمانی کے حوالے سے مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ جس کی وضاحت میں معین عقیل کی کتاب’’تحریک آزادی میں اردو کا حصہ‘‘کا اقتباس پیش کیا گیا ہے۔

پریم چند کے ناولوں میں جلوۂ ایثار، گوشۂ عافیت، میدان عمل، چوگان ہستی، گئودان جیسی تخلیقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ آل احمد سرور کے ’’تنقیدی اشارے‘‘ اور معین عقیل کے رسالے’’ زمانہ‘ کانپور کے ’’پریم  چند نمبر‘‘ سے اقتباسات لئے گئے ہیں۔ پریم چند ایک سچے محب وطن اور گاندھی جی کے نظریات سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں محنت کش عوام، مظلوم کسانوں اور متوسط طبقے کے افراد کی ترجمانی ملتی ہے جو ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

پریم چند کے بعدترقی پسند ناولوں کا بیان ہے جن میں تحریک آزادی کا رنگ نمایا ں ہے۔ کرشن چند کا ناول ’شکست‘ جو اپنے دور کے سیاسی بحران کا ترجمان ہے۔ سجاد ظہیر کا ناول’لندن کی ایک رات‘ جس کے کردار بے چینی اور کرب میں مبتلا نظر آتے ہیں اور غلامی سے نجات کے طلب گار ہیں۔ عصمت کا ناول ’ٹیڑی لکیر‘ جس کے کردار ’شمن‘ اور’ ٹیلر‘ ہندوستانی سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عزیز احمد کا ناول’گریز‘  جس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران رونما ہوئے سیاسی و معاشی ماحول کی تصاویر ملتی ہیں۔

کتاب کے چوتھے باب میں اردو ادب کے ان افسانوں کا تذکرہ ہے جو تحریک آزادی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے سیاسی وسماجی ماحول کی بھی عکاسی کر رہے ہیں۔ اس باب میں پریم چند، کرشن چند، منٹو، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، احمد علی کے افسانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

پریم چند کی پہلی کہانی ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘۱۹۰۷ء زمانہ کانپورمیں شائع ہوئی۔ پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ’’سوز وطن‘‘ جس کو حکومت نے ضبط کرلیا تھا اس کابھی ذکر کیا گیا ہے۔ سوز وطن پانچ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ جس میں ’دنیا کا انمول رتن‘، ’شیخ مخمور‘، ’یہی میرا وطن ہے‘، ’صلہ ماتم‘، ’عشق دنیا‘ اور ’حب وطن‘ شامل ہیں۔

سوز وطن کے افسانوں سے بغاوت کی بو آتی ہے اور حب الوطنی کے جذبات ابھرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ افسانہ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘ اس جملے پر ختم ہوتا ہے:

’’وہ آخری قطرۂ خون جو وطن کی حفاظت میں گرے دنیا کی سب سے بیش قیمتی شے ہے۔ ‘‘

اس کے علاوہ اس کتاب میں وقار عظیم ’’داستان سے افسانے تک‘‘سے پریم چند کے افسانوں پر عبدالماجد دریا آبادی کی رائے کو نقل کیا گیا ہے۔ پریم چند کے دیگر افسانے ’ڈامل کا قیدی‘، ’قاتل ‘، ’آخری تحفہ‘، ’جیل‘، ’جلوس‘، ’آشیاں برباد‘ کا بھی خاص طور سے ذکر ملتاہے۔

پریم چند کے بعد ترقی پسند افسانہ نگاروں کا ذکر ہے۔ جس میں کرشن چند کا افسانہ ’ دو فررلانگ لمبی سڑک‘، احمد علی کے افسانے ’ہماری گلی‘، ’میرا کمرہ‘، منٹو کا ’نیا قانون‘، حیات اللہ انصاری کے افسانے ’آخری کوشش ‘سے مثالیں پیش کی گئی ہیں۔

پانچویں باب میں اردو کے ان ڈراموں کا ذکر ملتا ہے جو سیاسی پس منظر میں تحریر کئے گئے ہیں۔ اور جن میں تحریک آزادی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ان ڈراموں کے کرداروں کے ذریعے حب الوطنی کے جذبے اور سچے محب وطن کی عکاسی ملتی ہے۔ اس باب میں امرائو علی کا ڈرامہ ’البرٹ بل ‘ مولانا ظفر علی خاں کا ڈرامہ ’جنگ روس و جاپان‘ اصغر علی نظامی کا ڈرامہ ’قومی دلبر‘ عبدالطیف شاہ کا ڈرامہ’ہمارا گھر‘ محشر انبالوی کا ڈرامہ’غریب ہندوستان‘ ریاض دہلوی کا ڈرامہ’مسلم پجاری‘ نیر انبالوی کا ’وطن‘ دل لکھنوی کا ’تاج محل‘ اور’ شہید وطن‘شمس لکھنوی کے’مادروطن‘، ’حب الوطنی‘ محمد دین تاثیر کا ’لیلائے وطن‘ عاجز ناگپوری کا ’پیام حق ‘محی الدین عزم کا ڈرامہ ’دیس کی پکار‘ اظہر دہلوی کا ڈرامہ’بیداری‘اور محمد مجیب کے ڈرامہ ’آزمائش‘ کا ذکر ملتا ہے۔

چھٹے باب میں اردو طنزو مزاح کے رنگ میں تحریک آزادی کے زیر اثر لکھے گئے مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس میں مختصر طور پر طنز و مزاح کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ کیا حالات تھے جس کے نتیجہ میں ایسے مضمون وجود میں آئے۔ اس باب میں منشی سجاد حسین کے مضامین، ’اودھ پنچ‘ کے قلم کاروں اور ان کے مضامین پر رائے، منشی سجاد حسین کے مضامین جن میں ’انڈے بچّے والی چیل چہاڑ‘، ’نیچر کا مارشل‘، ’مٹی خراب خلق میں مہر و وفا کی ہے‘، ’ہڈیوں پر میری لڑتے ہیں ‘، ’جھنجھٹ کا یہ مزہ‘، ’کہ ہوں وہ بھی بے قرار ‘ وغیرہ کا ذکرہے۔ پنڈت جوالا پرشاد برقؔ جس کو رشید احمد صدیقی اردو ادب کا ہوریس اور چاسر کہتے ہیں ان کے مضامین پر بھی اظہار خیال ملتا ہے جس میں سب سے شاندار مضمون ’البرٹ بل ‘ ہے۔ ا س کے علاوہ اردو کے اخبار’الپنچ‘ کے مضامین پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔

’اودھ پنچ‘ کے بعد طنز و مزاح کے عبوری دور کے مزاح نگاروں میں مہدی افادی، محفوظ علی بدایونی، نیاز فتحپوری، سجاد یلدرم، سلطان حیدر جوش، ابوالکلام، محمد علی جوہر، سجاد انصاری، قاضی عبدالغفار، ملا رموزی وغیرہ کے مضامین پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ پھراس کے بعد طنز و مزاح کے جدید دور سے وابستہ مزاح نگاروں میں فرحت اللہ بیگ، عظمت اللہ خاں، ظفر علی خاں، عبد المجید سالک، چراغ حسن حسرت، امتیاز علی تاج، میاں عبدالعزیز فلک پیما، کنہیالال کپور، احمد شاہ بخاری پطرس، عظیم بیگ چغتائی، کرشن چندر، شوکت تھانوی، حاجی لق لق، رشید احمدصدیقی وغیرہ کی تخلیقات پر رائے ملتی ہے۔

کتاب کاساتواں باب خودنوشت اور سوانح عمریوں پر مشتمل ہے جس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ پہلے حصے میں اردو کی ان خودنوشت تخلیقات کا ذکر ہے جو اپنے دور کے سیاسی و سماجی بحران کی ترجمان ہیں۔ جس کو خود تحریک آزادی میں شامل ہونے والے افراد اور اہل قلم حضرات نے تحریر کیا ہے۔ اس باب میں شامل خود نوشت سوانح عمریوں میں۔ ’’تواریخ عجیب موسوم بہ کالا پانی‘‘از جعفر تھانیسری۔ ’’داستان غدر‘‘ از ظہیر دہلوی۔ ’’اعمال نامہ‘‘ از رضا علی۔ ’’میرا افسانہ‘‘ از چودھری افضل حق۔ ’’یاد ایام‘‘ از نواب احمد سعید خاں چھتاری۔ ’’سرگذشت‘‘ از عبد المجید سالک بٹالوی، ’’لطیف کی کہانی‘‘از عبد اللطیف بٹالوی۔ ’’تلاش حق‘‘ از مہاتما گاندھی مترجم ڈاکٹر سید عابد حسین۔ ’’اپنی کہانی‘‘از ڈاکٹر راجندر پرشاد مترجمہ گوپی ناتھ امن۔ ’’نقش حیات‘‘ از مولانا حسین احمد مدنی۔ ’’میری کہانی‘‘ از جواہر لال نہرو شامل ہیں۔

اس باب کے دوسرے حصہ میں علی گڑھ تحریک اور سر سید احمد خان کے رفقاء کا ذکر ہے۔ رئیس احمد جعفری کی لکھی ہوئی کتاب ’’حیات محمد علی جناح‘‘ مولانا شائق احمد عثمانی کی کتاب ’’امام الاحرار مولانا ابوالکلام آزاد‘‘عبد الرحمن شیدا کی سوانح’’ابوالکلام آزاد‘‘علامہ اقبال پر لکھی گئیں سوانح عمریاں، محمد دین تاثیر کی ’اقبال پر ایک نظر‘، عنایت اللہ کی ’’حیات اقبال‘‘کا بھی ذکر ملتا ہے۔ مولانا محمد میاں کی کتاب ’’علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے‘‘جس میں مولانا محمود الحسن، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا عبد اللہ سندھی، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ کے سیاسی نظریات پیش کئے گئے ہیں۔

آخری اور آٹھواں حصہ اردو صحافت پر مشتمل ہے۔ اس میں ۱۸۵۷ء سے آزاد ہندوستان تک کے اخبارات اور رسائل سے حوالے پیش کئے گئے ہیں۔ ایسے مضامین پر روشنی ڈالی گئی ہے جنہوں نے قوم میں شعور پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ آزادی کے لئے زمین ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دور کے اخبارات میں مولانا محمد باقر کا ’’دلی اور اخبار‘‘۱۹۳۶ء ’’سحر سامری‘‘ ۱۸۵۶ء منشی نول کشور کا اردو اخبار ۱۸۵۹ء کمند لال کا ’’تاریخ بغاوت آگرہ‘‘۱۸۵۹ء، عبدالرحمن کاشف کا اخبار’’صبح‘‘ ۱۸۵۹ء نصیر الدین آفندی کا ’’شمس الاخبار‘‘ مدراس ۱۸۵۹ء، اجودھیا پرساد کا ’’خیر خواہ‘‘ اجمیر ۱۸۶۰ء حیدر علی کا’’ شعلہ طور‘‘ کانپور ۱۸۶۰ء محمد منظور کا ’’منظور الاخبار‘‘ آگرہ۱۸۶۰ء، میر فتح اللہ ’’کوٹہ گزٹ‘‘اسماعیل خاں کا ’’لارنس گزٹ‘‘ میرٹھ۱۸۶۰ء، محمد قاسم کا ’’قاسم الاخبار‘‘ بنگلور ۱۸۶۵ء، جمیل الدین کا’’ صادق الاخبار‘‘دبدبۂ سکندری ۱۸۶۶ء وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان اخبارات کے طرز تحریر، زبان و بیان لب و لہجے سے انگریزوں کے خلاف پرچمِ احتجاج بلند ہونے کا علم ہوتا ہے۔

   الغرض یہ کتاب اپنے دامن میں معلومات کا ایک وسیع خزانہ سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور ادب کی ان ادبی خدمات کا پتا چلتا ہے جس نے تحریک آزادی کی فضا کو ہم وار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

تبصرے بند ہیں۔