پلوامہ سانحہ: سیکیورٹی چوک یا ملی بھگت؟

سید منصورآغا

14فروری، جمعرات کی شام3بج کر 10منٹ پر اس وحشت ناک خبرسے دل دہل اٹھا کہ پلوامہ علاقہ میں جموں سری نگر قومی شاہراہ پر ایک کار بم دھماکہ میں سی آرپی ایف قافلے کی ایک بس کے پرخچے اڑگئے اور37جوان فوت ہو گئے(یہ تعداد اب 44ہوگئی ہے)۔ کیونکہ جموں وکشمیر میں سیکیورٹی عملے پر دہشت گرد حملے ہوتے رہتے، اس لیے فوری طورسے شوراٹھا کہ دہشت گرد حملہ ہواہے۔ چونکہ چناؤ قریب ہیں، اس لیے سیاسی شاطروں نے بڑی پھرتی سے اس قومی المیہ کو فرقہ ورانہ رنگ دیکر کشمیریوں کو نشانہ بنایاشروع کردیا اورسوشل میڈیا بھی نفرت پھیلائی جانے لگی۔ اس بات کا ذکر بھی نہیں آیا حملے میں تباہ بس کا کمانڈر ہیڈکانسٹبل نصیراحمد تھا۔ وہ بھی جاں بحق ہوگیا اوران کے دو بچے (بیٹی فلک، 8سال؛بیٹا کاشف 6سال) یتیم ہوگئے۔ نصیرکا بچپن بھی یتیمی میں گزراتھا۔ ان کے والد فخردین کی وفات ہوئی تووہ 4سال کا تھا۔ نصیرنے کم تعلیم پائی، محنت مزدوری کی۔ چندسال قبل سی آرپی ایف میں بھرتی ہوگیا۔ لیکن خاندان کے لیے راحت کے یہ دور جلد ختم ہوگیا۔ سی آرپی ایف میں نہ پنشن ہے اورنہ اہل خاندان کے لیے کوئی مقررہ راحت۔ البتہ ریاست کے گورنر نے ان کے خاندان کے لیے بیس لاکھ کی راحت کااعلان کیا ہے۔ مل جائے تب جانئے۔ نصیر فٹ بال کے کھلاڑی، پنچگانہ نمازی اورخدمت خلق کے جذبہ سے سرشارنوجوان تھا۔ اس کا نام2014میں سیلاب کی خبروں میں تب آیا جب اپنی جان پر کھیل کر اپنے کئی ساتھیوں کو ڈوبنے سے بچایا۔

حیرت کی بات ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے اس المیہ کے دوگھنٹے بعد شا م کو 5بج کر 10منٹ پررودرپور میں اپنے خاص انداز میں چناوی ریلی سے خطاب کیا مگر اس سانحہ کا کوئی ذکر نہیں۔ ان کی پارٹی کا کہناہے ان کو اطلاع دیرسے ملی۔ یہ عذرلنگ گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ اس روز وہ جم کوربیٹ پارک میں ایک ٹی وی چینل کے لیے شوٹنگ میں مصروف تھے۔ وہیں سے فون ریلی سے خطاب کیا۔ سانحہ کے بعد وزیرداخلہ سمیت کئی لوگوں سے بات کی۔ متوفی جوانوں کو خراج پیش کرنے کے لیے وہ خود تو پلوامہ نہیں گیے البتہ ان کے تابوتوں کو دہلی لایا گیا اورپی ایم صاحب نے بڑے والہانہ انداز میں سلامی پیش کی۔ افسوس کہ ہماری سیکیورٹی عملے کے جو جوان اس طرح کے حملوں میں فوت جاتے ہیں ان کی لاشوں پرسیاست توکی جاتی ہے مگر ان کے خاندانوں کی خبرگیری کی فکر نہیں کی ہوتی۔ ریلیوں میں بولے گیے جذباتی جملوں سے ان کے والدین، یتیم بچوں اوربیوہ کا گزارہ نہیں ہوجاتا۔ کتنے سنگ دل ہیں وہ سیاستداں جو تابوتوں کے ساتھ سیلفی بنواکرنکل لیتے ہیں۔

کئی سوال:

پلوامہ کا یہ حملہ کئی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ اگر اس کو چوک مانا جائے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے بلند بانگ دعووں کے باوجود یہ سرکاری نظام کی شرمناک ناکامی اورلاپروائی ہے۔ سرکار سے یہ پوچھے جانے کے بجائے کہ یہ چوک کیسے ہوئی؟ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پرقوم پرستی کی آڑ میں نفرت کی مہم چلائی جارہی ہے اور جذباتی بیانیہ اچھالا جارہا ہے تاکہ توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے اورایک جنونی کیفیت پیداکرکے ووٹرس کی گول بندی کی جاسکے۔ جب مندرمسجد کا قصہ نہیں چلا تو ایک بارپھر پاکستان کا ہوا کھڑا کیا جارہ ہے جو ہم سے رقبہ میں، آبادی میں، قومی وسائل اورفوجی نفری میں ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ اس کا خوف دکھا کر، نفرت پھیلا کر ووٹوں کی بساط بچھائی جارہی ہے۔ اس منظرنامے سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے کہ یہ حملہ سیاسی سازش ہے۔

ناکامی:

اس طرح کی واردات کوئی ایک فرد انجام نہیں دے سکتا۔ کوئی ایک دن میں اس کی تیاری نہیں ہوجاتی۔ قومی شاہ راہ پر سی آرپی ایف کا بڑاقافلہ دن کی روشنی میں جس وقت گزررہا تھا، اتنی بڑی مقدارمیں دھماکہ خیز مادے کے ساتھ کارآجانا اور وہ بھی غلط سائڈ پر اتفاقی کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر اس میں کوئی داخلی سانٹھ گانٹھ نہیں تو پھر یہ سرکار کی کھلی ناکامی ہے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں، اسی 19جنوری کو آرایس ایس پرمکھ موہن بھاگوت جی نے کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، ’’ آزادی کے پہلے توملک کی آزادی کے لیے قربانی کا وقت تھا۔ آزادی کے بعد جب کوئی جنگ ہوتوسرحدوں پر قربانی دینی ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت کوئی جنگ نہیں ہورہی۔ پھر بھی ہمارے لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کررہے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے صاف صاف کہا کہ ’’جب جنگ نہیں ہورہی تو ان ہلاکتوں کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن یہ ہورہا ہے۔ ‘‘ اپنے مہا مہم کی یہ بات سرکار کے کانوں تک نہیں پہنچی جس کا مکھیا بھی آرایس ایس کا تربیت یافتہ ہے اوروزیر بھی۔ اب تو افسرشاہی اورسیکیورٹی فورسز میں بھی اس کے نظریاتی معتقد کرتا دھرتا ہیں۔

مودی جی کے چارسوال:

یہ بات مودی جی بھی بخوبی جانتے ہیں کہ دہشت گردحملے سرکار کی ناکامی کو بیان کرتے ہیں۔ یہ بات خود انہوں نے بڑی تفصیل سے 25مئی 2012کو ممبئی میں بھاجپا کی عاملہ کے اجلاس کے موقع پر ایک ریلی میں کہی تھیں۔ انہوں نے اس وقت وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ پر شدید حملہ کرتے ہوئے سوال کیا تھا، :’یہ جو آتنک وادی ہیں، نکسلی ہیں ان کے پاس ہتھیار اوربارود کہاں سے آتا ہے؟ یہ سب ودیش سے آتا ہے۔ دیش کی سیمائیں آپ کے قبضے میں ہیں۔ سیما بل اورسینا آپ کے قبضے میں ہیں ان کوتو سنوارو، ان کو توروکو۔ باہر سے جو بارود آتا ہے، اسلحہ آتاہے اورآتنک وادیوں کو پہنچ جاتا ہے، اس کو روکو مگران کے پاس میر ے اس سوال کا جواب نہیں۔ ‘ دوسرا سوال تھا’ یہ جو ان کے پاس دھن آتا ہے وہ حوالے سے آتا ہے، بنکوں سے ٹرانزکشن سے آتا ہے۔ سارا منی ٹرانزکشن بھارت سرکار کے ہاتھ میں ہے، اس کو تو روکو۔ اس میں راجیہ سرکار کہیں نہیں آتی، آپ کیوں نہیں پکڑ پاتے ہو۔ میرے اس سوال کا بھی ان کے پاس جواب نہیں تھا۔ تیسراسوال تھا، ’ودیشوں سے گھس پیٹھئے آتنک وادیوں کے روپ میں آتے ہیں، گھٹنا کرتے ہیں، بھاگ جاتے ہیں۔ پردھان منتری بتائیں، سیما بل، سینائیں، نیوی آپ کے ہاتھ میں ہیں، پھر یہ گھس پیٹھئے کیسے آ جاتے ہیں۔ آپ جواب دیجیے آپ ان کو روکتے کیوں نہیں، مگران کے پاس اس کا جواب نہیں تھا‘‘۔ چوتھا سوال پوچھاتھا، ’ سارا کمیونی کیشن سرکار کے کنٹرول میں ہے۔ باہر سے جو فون آتے ہیں، ای میل وغیرہ آتے ہیں کیوں نہیں پتہ کیا جاتا کہ آتنک وادی سرگرمیوں میں کون لگا ہے؟ کیوں نہیں روکتے؟ مگرپردھان منتری کے پاس جواب نہیں تھا۔ ‘‘(ونود دواشو، ایپی سوڈ 40)

مودی جی کے سوال اگر2012میں جائز تھے توپلوامہ واردات کے بعد بھی جائز ہیں۔ اگرکمزوروزیراعظم کے پاس جواب نہیں تھے تومضبوط وزیراعظم کے پاس توہونے چاہیں۔ ان کی حکومت میں یہ پہلی واردات نہیں۔ یاد کیجئے 2جنوری 2016کا پٹھانکوٹ میں دہشت گردوں کا ایرفورس اسٹیشن کے اندرتک گھس آنا اوربھاری نقصان پہنچانا۔ اسی سال 18 ستمبر کی واردات جب جیش کے دہشت گرد اڑی کے فوجی کیمپ میں گھس آئے اورہمارے 19 فوجیوں کو شہیدکردیا۔ دو ہی ماہ بعد 29 نومبرکو ناگروتا آرمی کیمپ پر حملہ ہواجس میں 7 فوجی مارے گیے۔ ان بڑے حملوں کے بعد29 ستمبرکو ایک بڑی سرجیکل اسٹرائک کی گئی تھی جس میں ہماری سرکا ر نے یہ خوش خبری سنائی تھی کہ پاکستان کے زیرکنٹرول علاقہ میں دہشت گردی کے تمام اڈوں کو تباہ کردیا۔ اس پر خوب سیاسی روٹیاں سینکی گئیں اورقوم کو یہ یقین دلایاگیا کہ شرکا سرکچلا گیا اب پیرپھیلا کرسوجاؤ کہ 10فروری 2018 کو پھرایک بڑاحملہ ہوا۔ جیش کے فدائین نے سنجوون کے آرمی کیمپ کے اندر گھس کر ہمارے چھ فوجیوں کو شہید کردیاا۔ اوراب یہ پلوامہ کی واردات، خدا کی پناہ۔ اس کے ایک دن بعد مودی جی نے ایک انتخابی جلسہ میں کہا، ’جو آگ آپ کے سینے میں دھدک رہی ہے، وہی میرے سینے میں بھی ہے۔ ‘ لیکن ان کا یہ جملہ کافی نہیں۔ ان کو اپنی ناکامی قبول کرنی چاہئے اورسابق وزیراعظم سے 2012کے گستاخانہ خطاب کے لیے اپنی غلطی کا اعتراف کرناچاہیے۔ پلوامہ ایک بہت بڑی واردات ہے جو’مودی کی مضبوط سرکار‘ کے پانچ سالہ دور کے آخر میں ہوئی ہے۔ اس لیے ن سوالوں کے جواب وہ قوم کو دیں۔ بقول محترمہ سشما سوراج،

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا 
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے

سیاسی سازش کا گمان:

’واقعاتی شہادتوں ‘(circumstantial evidences) کے حوالے سے اس واردات میں سیاسی سازش کا گمان کیا جارہا ہے۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ’ مضبوط مودی سرکار‘ کے تحت انٹیلی جنس اورسیکیورٹی سے ایسی شدید چوک ہوسکتی ہے؟اوراگریہ چوک ہی ہے توسرکارخاموش کیوں بیٹھ گئی ؟ متعلقہ سرکاری عملے سے پوچھ تاچھ اورسرزنش کیوں نہیں ہورہی؟ اگر سرحد پار سے بڑی مقدار میں آرڈی ایکس یا بارود آگیا، حملہ کی تیاری ہوگئی اورحملہ آور گاڑی بنا روک ٹوک نیشنل ہائی وے پردوڑتی ہوئی سی آرپی ایف قافلہ جاٹکرائی تواس میں ملی بھگت کا گمان ہونا عجب نہیں ہے۔ اس واردات سے پہلے مودی سرکار کی ناکامیوں پرجو بہت سے سوال اٹھ رہے تھے وہ سب پس پشت چلے گئے۔ اس شدید ناکامی پر سرکارسے سوال کرنے کے بجائے قوم پرستی کی لہراٹھا کر، نفرت کا ماحول بنا کر ووٹرس کو لبھانے کی سرگرمی کیسے شروع ہو گئی ؟ مودی سرکارسے اس کا جواب مانگاجانا چاہیے۔

نیویارک ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق لیفٹنٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا نے، جواس ایریا کے فوجی کمانڈررہ چکے ہیں، کہا ہے کہ اتنا سارا دھماکہ خیز مادہ درانداز اپنے ساتھ نہیں لاسکتے۔ انہوں نے گمان ظاہر کیا ہے کہ یہ مقامی طورسے حاصل کیا گیا۔ یہ نکتہ تحقیق طلب ہے۔ کیونکہ اس سے قبل سمجھوتہ ایکسپریس، مالیگاؤں اورکئی دوسرے دہشت گردانہ دھماکوں میں ایک فوجی افسرکرنل پروہت پر آرڈی ایکس فراہمی کا الزام لگا تھااوران کا تعلق دائیں بازو کے تخریبی سنگٹھن ’ابھینوبھارت‘ سے بتایا گیا تھا۔ ابھی تک پروہت اس الزام سے بری نہیں ہوسکے ہیں۔ وہ دھماکے بھی سیاسی مقصدسے کئے گئے تھے اورتفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی الزام بیرونی دہشت گردوں پرلگادیا گیا تھا۔ ان وارداتوں کی طرح ہی پلوامہ واردات کے بعدایک خاص نظریہ کے لوگ سیاسی فائدہ اٹھانے کی جگت میں لگ گئے۔ چنانچہ گجرات بھاجپاکے ایک ترجمان بھرت پانڈیا نے توورکروں کو ہدایت دی ہے کہ اس واردات کے بعد ملک میں ’قوم پرستی کی جولہر ‘اٹھی ہے اس کو ووٹ میں بدلا جائے۔ پی ایم نے بھی اس واردات پراپنی سرکار کی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنی انتخابی ریلیوں میں یہی کوشش کی ہے حالانکہ ان کو بتانا یہ چاہئے تھا درانداز کیسے آجاتے ہیں ؟ ہمارے فوجی ٹھکانوں میں کیسے گھس جاتے ہیں ؟ ان کے پاس اسلحہ اوربارود کہاں سے آجاتا ہے اورپیسہ کیسے آجاتا ہے؟ جب کہ سارا سیکیورٹی نظام، مواصلاتی نظام اوربنکنگ نظام ان کی چوکیداری میں محفوظ ہونا چاہئے تھا۔ سب سے زیادہ افسوسناک بیان میگھالیہ کے گورنرکا ہے جنہوں نے کشمیر، کشمیریوں اورکشمیری مصنوعات کے بائی کاٹ پراکسایا ہے۔

جموں اورکشمیر کے گورنرستہ پال ملک نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ہماری انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ میں ان کومیرٹھ کالج میں طالب علمی کے زمانے سے جانتا ہوں۔ وہ سیاست میں سچائی اور جرأت مندی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس ناکامی کی وجہ کسی کی نااہلی نہیں ہوسکتی۔ اگر وجہ بدانتظامی اورلاپرواہی ہے تو مودی جی کوذمہ داری قبول کرلینی چاہیے اور سرکار کی کمان کسی اورکے سپردکردینی چاہیے۔ مثلاً سشما سوراج، جو ایک کے بدلے دس سرکاٹ کر لے آنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ بہرحال جولوگ سیاسی سازش کا گمان کررہے ہیں وہ یہ نہیں ماننے کہ ہماری فوج اورانٹیلی جنس اتنی نااہل ہوسکتی ہے۔ ہمیں ان پر فخرہے۔ اس لیے اس پر زعفرانی سازش کا گمان ہے۔ آپریشن کے تارباہر سے جڑے ہیں پھربھی ایسی سازباز نا ممکن نہیں۔ دنیا میں ایسا ہوتارہا ہے۔ ان سوالوں کی وضاحت کے لیے غیرجانبدارانہ تحقیق ضروری ہے۔ خاص طورسے جنرل ہودا کے اس قیاس کے بعد بارود مقامی ذرائع سے آیا۔ حیرت ہے کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ ہم دیکھ رہے ہیں اس ایک حملے کے بعد رافیل، روزگار، کسان، مہیلا سرکشا مہنگائی سب مدعے لپٹ گیے ہیں اوراپوزیشن ششدر ہے۔

مذمت ومطالبے:

اس سانحہ کے بعد ہمارے ملی اخباروں نے، ہماری جماعتوں نے، مذہبی اورسیاسی شخصیات نے، ہمارے عصری ودینی تعلیمی اداروں نے ایک زبان ہوکر اس مذمت کی ہے۔ ایسا واقعہ دنیا میں کہیں بھی ہوتا ہے، ہمیشہ اس کی مذمت کی جاتی ہے کیونکہ اس طرح کی خون ریزی ہمارے دین، ہماری اقداراورہماری سیاسی سمجھ کے خلاف ہے۔ ہم حکومت سے کہتے ہیں کہ تابوتوں کو سلامی اورزبانی تعزیت ومذمت کافی نہیں۔ متوفیوں کے خاندانوں کی کفالت کا مستقل بندوبست کرو۔ ان اسباب کا سدباب کیا جائے جن کی وجہ سے یہ خباثتیں ہورہی ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں تکلف نہیں کہ کشمیرایک سیاسی مسئلہ ہے، اس کا سیاسی حل غیرمشروط بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ ہم نے دیکھ لیا اسٹرے ٹیجک اسٹرائک کا کوئی دیرپا نتیجہ نہیں نکلا اورپاکستان نے انڈیا کو ’بلیڈ‘ (زخمی) کرنے کی جو تدبیر اختیارکررکھی ہے اس سے کچھ ملنے والا نہیں۔

رہی پاکستان کو عالمی برادری میں الگ تھلگ کرنے کی مہم توعرض یہ ہے کہ سابق میں یہ کوشش کئی بارآزمائی گئی۔ کیا کوئی نتیجہ نکلا؟غورکیجئے عالمی طاقت امریکا جی توڑ کوششوں کے باوجود ایران، نارتھ کوریا اور شام کو الگ تھلگ نہیں کرسکا۔ پاکستان کی ایک جغرافیائی اہمیت ہے۔ چین اس کی پشت پرہے۔ افغانستان کے امن مذاکرات میں امریکا کو اس کی ضرورت ہے۔ روس بھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ یہ کوشش اس بارکامیاب ہوجائیگی، اس کی کیا گارنٹی ہے؟

اس واردات کے بعد مودی سرکار کو اپنی پچھلی پانچ سالہ کشمیر پالیسی کے خون آلود نتائج پر بھی نظرڈال لینی چاہیے اور صدق دلی سے باجپئی دورکی ترجیحات اورپالیسیوں کی طرف پلٹ آنا چاہئے جس کو یوپی اے کے دورمیں تقویت ملی تھی اور جو 2014کے بعدملیا میٹ کردی گئیں۔ جن لوگوں کی سیکیورٹی ہٹائی گئی وہ اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کی حفاظت سے چشم پوشی ٹھیک نہیں۔
ملک کا مفاد :ہماری ایک عرض اورہے۔ ملک اوراس کے مفاد کو پارٹی کے مفاد پر قربان نہیں کردیاجانا چاہئے۔ آئیے ہم مل کر امن کا سفید پرچم اٹھائیں اورلال لال آنکھیں دکھاکر بات کرنے کے بجائے سچے ہندستانی کی طرح حلیمی اورتواضع اختیارکریں۔ یہ ڈگر مشکل ہے۔ لفاظی نہیں صحیح فیصلہ، حوصلہ اورعزم درکار ہے۔ ہم اس کالم کے ذریعہ دہشت گردوں اورسیاست مقاصد کے لیے سیکیورٹی عملے کی زیادتیوں کے تمام متاثرین کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔ افسوس عمران خان نے اس کونظرانداز کیا۔ حالانکہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻮﮨﺎﺏ کہتے ہیں

    ﻳﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﻭﺍﻗﺌﯽ ﻣﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ!

تبصرے بند ہیں۔